- ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوگیا، اب نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ کو مسترد کردیا
- جب سے چیف جسٹس بنا کسی جج نے مداخلت کی شکایت نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
بس ضرورت ایک کوشش کی ہے!
یہ تحصیل لیول کے سرکاری اسپتال کا ایک منظر ہے۔ گھڑی دس بجا رہی ہے۔ صبح 8 بجے سے لے کر اب تک آنے والے مریض ہاتھوں میں ایک ایک روپیہ والی پرچیاں پکڑے ہوئے ہیں۔ جن کی تعداد ایک ایک کرکے بڑھتے ہوئے اب حجوم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہال میں کچھ مریض بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ نقاہت کے باعث بینچوں پر لیٹے ہوئے ہیں۔ ایک ماں جی کو لایا گیا ہے جن کی حالت کافی خراب ہے مگر ڈاکٹر صاحب ابھی تک چیک اپ روم میں نہیں بیٹھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر اسپتال میں موجود نہیں کہ وہ تو صبح 9 بجے ہی آچکےتھے، مگر برآمدے میں اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہے تھے۔ ماں جی کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ میں نفرت اور غصے کے ملے جلے جذبات سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے اُس کی طرف گیا۔
ڈاکٹرصاحب آپ صبح کے آئے ہوئے ہیں، بہت سارے مریض بھی موجود ہیں، کچھ کی حالت تو آپ کے سامنے ہے لیکن اس کے باوجود آپ انہیں چیک کیوں نہیں کر رہے؟
وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولے؛
بھائی صاحب! پرچی پکڑنے والے صاحب (عام طور پراسپتالوں میں ایک شخص ڈاکٹر کے کمرے کے باہر کھڑا ہوتا ہے، جو آنے والے مریضوں سے اُن کی پرچیاں چیک کرکے اُنہیں ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتا ہے) ابھی تک نہیں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ میں مریضوں کا چیک اپ نہیں کررہا۔
مجھے ڈاکٹر کی بات سن کر حیرت ہوئی کہ ایک پڑھا لکھا انسان جسے پتا بھی ہے کہ مریضوں کی جان پر بنی ہوئی ہے اور وہ ڈیڑھ گھنٹے سے ایک پرچی پکڑنے والے کی غیر موجودگی کے سبب کسی کو چیک کیوں نہیں کررہا۔
ڈاکٹر صاحب آپ کمرے میں تشریف لائیں میں پرچیاں پکڑتا ہوں۔
دیکھو بھائی ایک شرط ہے؟
میں نے پوچھا وہ کیا؟
تو ڈاکٹر کہنے لگے؛
جب تک پرچی پکڑنے والا شخص نہیں آ جائے گا آپ تب تک اس کام کو انجام دینے کے ذمہ دار ہو اور ہاں ایک ایک کرکے مریضوں کو بلانا ہے۔ ایک چیک ہوجائے پھر دوسرے کو بلانا۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب آپ اپنے کمرے میں جائیں۔
ڈاکٹرکے اندر داخل ہوتے ہی اِدھراُدھر بیٹھے لوگ اُٹھے اور دروازے پر ہلا بول دیا۔ میں غریب اُن کو سمجھانے لگا بھائی صاحب، ماں جی، خالہ جی، بہن جی، انکل جی، بابا جی، آپ لوگ لائن بنالیں تو زیادہ اچھا رہے گا۔ جیسے آپ کررہے ہیں اِس طرح تو سب کو پریشانی ہوگی۔
مگرمیری کوئی سنتا تب نا۔ میں نے کوئی دس پندرہ کو پرچی پکڑ کر اندر داخل کردیا۔ بار بار کہتا رہا آپ لوگ لائن بنالیں اِس طرح سب کا کام آسان ہوجائے گا۔ مگر لوگوں نے میری بات ماننے کے بجائے اُلٹا مجھے کہنا شروع کر دیا کہ؛
اپنے رشتے داروں کو پرچی پکڑاتا جارہا ہے، ہم جو کھڑے ہیں اس کو نظر ہی نہیں آ رہے۔
اب میرا میٹر گھوم گیا۔ وہ تو بھلا ہو اُس پرچی پکڑنے والے کا جو آگیا اورمیں ڈاکٹر کے سامنے بیٹھ گیا۔ اب ڈاکٹر میری طرف دیکھ کر ہلکا ہلکا ہنس رہا تھا۔ پرچی پکڑنے والا صاحب ایک سے پرچی پکڑتا اور پانچ چھے مریضوں کو دھکے دے کر پیچھے کرتا۔ اس طرح یہ کام چلتا رہا۔
میں نے ڈاکٹر کی ہنسی سے تنگ آکر پوچھا؛
آپ مجھ پر کیوں ہنس رہے ہیں؟
ڈاکٹر بولے، آپ کی حالت دیکھ کر۔
کیوں مجھے کیا ہوا ہے؟
بھائی صاحب آپ کی تو پندرہ مریضوں میں ہی بس ہوگئی، ایک ہم ہیں جو روز یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔ اگرمیں یہی بات آپ کو اس مشاہدے سے پہلے سمجھانے کی کوشش کرتا تو آپ مجھے سفاک اور درندہ صفت جیسے خطابات سے نوازتے اور لوگ جن کے نمائندے بن کر آپ آئے تو اُنہوں نے آپ کوہی نہیں چھوڑا۔
ہم عام طور پر تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ صادر کردیتے ہیں، کبھی دوسری طرف جھانک کرنہیں دیکھتے۔ ہرچیز کے لیے ذمہ دار حکومت کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، ہر کسی کو بحثیتِ انسان اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔
اگر آپ نے کبھی چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا ہو، اگر اُنہیں خوراک اُٹھا کر چلتے دیکھا ہو تو آپ کو اُن کی زندگی میں ایک نظم وضبط دکھائی دے گا۔ ان حشرت الارض کو یہ چیزیں کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی نے نہیں سکھائیں۔ تو انسان جواشرف المخلوقات ہے اُسے بھی اپنے معاملات میں نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر لوگ پانی پیتے وقت، کھانا لیتے وقت، کوئی چیز خریدتے وقت، بل جمع کرواتے وقت، گاڑی میں سوار ہوتے وقت، اُترتےوقت اس کے علاوہ بھی جہاں ضرورت پڑے نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں تو ہمارا معاشرہ ایک خوبصورت اور مہذب معاشرہ بن سکتا ہے۔ بس ضرورت صرف ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں.
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔