کیا آپ کے ایریا میں کوئی پٹرول پمپ کھلا ہے؟

ندیم جاوید عثمانی  پير 19 جنوری 2015
جب کسی حکومت کا اقتدار فعال ہے تو اس کی کارکردگی اتنی غیر فعال کیوں؟ اگر عوامی طبقہ گیس، بجلی ، پانی ، روزگار اور اب پٹرول جیسی بنیادی چیزوں سے محروم ہے توحکومت کونسے اور کن مسائل کو حل کرنے میں سرگرم ہے؟ فوٹو: ایکسپریس

جب کسی حکومت کا اقتدار فعال ہے تو اس کی کارکردگی اتنی غیر فعال کیوں؟ اگر عوامی طبقہ گیس، بجلی ، پانی ، روزگار اور اب پٹرول جیسی بنیادی چیزوں سے محروم ہے توحکومت کونسے اور کن مسائل کو حل کرنے میں سرگرم ہے؟ فوٹو: ایکسپریس

کیا آپ کے ایریا میں کوئی پٹرول پمپ کھلاہے؟

یہ وہ جملہ ہے جو گذشتہ کئی روز سے لاہور میں سب سے زیادہ بولا اور سُنا جارہا ہے۔ گذشتہ حکومتوں کا حوالہ دیں یا موجودہ حکومت کا، بیچاری عوام کو ہر حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی شے کے بحران میں مبتلا ہی رکھا جاتا ہے۔

فوٹو: ایکسپریس

جیسے بعض حالات اور صورتحال انسان کی خود اپنی پیدا کی ہوتی ہیں نالکل اِسی طرح بحران بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک حقیقی بحران اور دوسرا مصنوعی بحران۔ چونکہ حقیقی بحران کا براہ راست تعلق حکمرانوں کی نااہلی سے منسلک ہوتا ہے جس پر جلد از جلد قابو نہیں پایا جاسکتا لہذا اپنی اسی نااہلی کو چھپانے کے لئے حکومت کی جانب سے عوام کو ایک مصنوعی بحران میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اُس کے بعد حکومت کی جانب سے جلد از جلد اس مسئلے کے خاتمے کے دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں اور پھر بمشکل آٹے میں نمک کی مقدار کے  برابر اُس مسئلہ  کو حل کیا جاتا ہے اور حسبِ روایت حکومتی واہ واہ کے لئے ایک منظر تشکیل دیا جاتا ہے۔

میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب کسی حکومت کا اقتدار فعال ہے تو اس کی کارکردگی اتنی غیر فعال کیوں؟ اگر عوامی طبقہ گیس، بجلی ، پانی ، روزگار اور اب پٹرول جیسی بنیادی چیزوں سے محروم ہے توحکومت کونسے اور کن مسائل کو حل کرنے میں سرگرم ہے؟ اگر حقیقت پسندی سے اس پہلو کا تجزیہ کیا جائے توان تمام مسائل کا سہرا خود عوام کے اپنے ماتھوں پر سجے گا۔

فوٹو: ایکسپریس

درحقیقت ایک بہترین سیاستدان یا حکمران وہ ہوتا ہے جو عوام کی نفسیات کو سمجھے۔ بس یہی وہ خاصیت ہے ہمارے سیاستدانوں کی جو بار بار اُنہیں ایوان اقتدار کی شاہراہ پر گامزن کروادیتی ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمران ہمارے مسائل کو چاہیں نہ سمجھیں مگر نفسیات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

انھیں پتہ ہے کہ اگر بجلی کا بحران پیدا کرنا ہے تو براہ راست دس گھنٹے روزانہ کی بنیا د پر بجلی بند رکھو (عوام بُرابھلا کہے گی کوسے گی ہماری بلا سے) پھر بجلی کی عدم دستیابی کے اس وقفے کو کم کرکے دس گھنٹے سے آٹھ گھنٹے پر لے آؤ اِس طرح پہلے جو عوام حکومت کو کوس رہی تھی، برا بھلا بول رہی تھی اب وہ اس بات پر شکرانے ادا کرے گی کہ اللہ کا شکر ہے کہ بجلی دس گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے تو ہوئی اور یہی رویہ دوسرے دیگر بحران کے حوالے سے دیکھنے کو ملتا ہے۔

اب سی این جی اور گیس کی بندشوں کے بعد عوام کو پٹرول کے بحران کی سمت دھیکیلا جارہا ہے۔ مجھے اچھی طرح  یاد ہے جب زرداری دورِ حکومت میں سی این جی کے بحران میں عوام کو مبتلا کیا گیا تھا جس کی ابتدا لاہور سے ہوئی تھی اور یہ جملہ سننے کو ملتا تھا کہ صوبائی تعصب برتا جارہا ہے جبکہ دیگر صوبوں والوں کی ہمدردی لاہور والوں کے ساتھ تو ہوتی تھی مگر اس چیز پر شکربھی کرتے تھے کے وہ اس عذاب میں مبتلا نہیں۔ مگر ہم نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ یہ بحران لاہور سے نکلتا ہوا دوسرے صوبوں کو بھی نگلنے لگا اور جو لوگ پہلے شکرگذاری کررہے تھے وہ بھی محمود و ایاز کی صورت اسی قطار میں ایک جگہ کھڑے ہوگئے۔

ہفتے میں تین دن سی این جی کی بندش کا جائزہ لیا جائے تو ایک عام آدمی کے لئے ان تین دنوں کی بندش کا مطلب ہے پورے ہفتے سی این جی بند ہونا۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھلا وہ کیسے ؟

تو ایسے کہ اگرآج صبح نو بجے سی این جی بند ہوتی ہے تو اگلے دن صبح نو بجے کھلتی ہے۔ اب اس کا تمام منظر کچھ یوں ہے کہ جس دن بند ہونا ہو اس روز صبح پانچ بجے سے ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیاں قطاروں میں کھڑی کردیتے ہیں اور پھر نو بجے سی این جی بند ہونے کے بعد سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ آتی ہے بالکل اسی طرح جس دن سی این جی صبح نو بجے کھلتی ہے تو گاڑیاں پھر وہی دس بجے کے بعد سڑکوں پر صحیح طرح سے آپاتی ہیں۔ اب آپ یہ بتائیں کہ روزگار پر جانے والے ایک عام آدمی کا کونسا دفتر یا کمپنی ہے جو دس یا گیارہ بجے کے بعد کی اس تاخیر کو برداشت کرے گی؟

نوے فیصد دفاتر اور کمپنیوں کے اوقات صبح نوبجے سے شروع ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ کام پر جانے والے اشخاص کو صبح  آٹھ بجے گھر سے نکلنا ہے اور خالی سڑکوں کا مُنہ دیکھنا ہے!

اس تمام صورتحال میں پٹرول والے شکر گزار ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ ’ذلت کی سی این جی سے عزت کا پٹرول اچھا‘ اور اب ہم پٹرول کے بحران میں مبتلا ہونے جارہے ہیں گوکہ اس حوالے سے دعوے اور وعدے بھی سامنے آرہے ہیں کہ یہ وقتی بحران ہے اور اس پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگتا ہے بجلی، گیس اور سی این جی کے بعد ہماری قوتِ برداشت کا امتحان لیا جارہا ہے کہ یہ لوگ پٹرول سے محروم ہونے کو ہفتے یا مہینے میں کتنے دن برداشت کرسکتے ہیں؟

فوٹو: ایکسپریس

اور اب جب میں لاہور والوں کی جانب سے یہ جملے سوشل نیٹ ورک پر یا دوست احباب سے سُن رہا ہوں کہ کیا آپ کے ایریا میں کوئی پٹرول پمپ کھلا ہے؟ تو یقین مانیں ایک خواہش ہورہی ہے کہ اس کے بجائے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ کے علاقے میں حکومت موجود ہے؟ کیونکہ یہ وہ واحد بحران ہے جو ہونے کے باوجود بھی اس قوم کو نظر نہیں آتا نہ اس کے نہ ہونے پر کوئی ماتم کیا جاتا ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔