گورکھ دھندا

فیض اللہ خان  پير 19 جنوری 2015
عام لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کب اسٹاک مارکیٹ کب اٹھی، کب بیٹھی اور کب لیٹ گئی۔ اعدادوشمار کا گورک دہندہ یونہی چلتا بلکہ دوڑتا رہے گا اور اس میراتھن میں ہم بیگانے کی شادی کیطرح بھاگ بھاگ کر اپنی سانسیں پھلاتے رہیں گے۔ فوٹو: فائل

عام لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کب اسٹاک مارکیٹ کب اٹھی، کب بیٹھی اور کب لیٹ گئی۔ اعدادوشمار کا گورک دہندہ یونہی چلتا بلکہ دوڑتا رہے گا اور اس میراتھن میں ہم بیگانے کی شادی کیطرح بھاگ بھاگ کر اپنی سانسیں پھلاتے رہیں گے۔ فوٹو: فائل

ہر کچھ  دن بعد چینلز پر سرخ پٹیاں چلتی ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر بند۔ ہم جیسے عوام اسٹاک ایکسچینج کی اصطلاحات سے اتنے ہی دور ہیں جتنا چاند ہمارے سائنس دانوں سے۔

کئی برس سے یہ خبر ہم سب کی توجہ ضرور حاصل کرتی ہے اوراسکی وجہ یہ ہے کہ ہم جیسے عامی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے ملکی تجارت میں بہتری آتی ہوگی، ملکی خزانہ بھر جاتا ہوگا، سونے کے زخائر دوگنے ہو گئے ہونگے، تیل کی قیمت جاچکی ہوگی تیل لینے، سبزی اتنے سستے دام مل رہی ہوگی کہ کئی گاہکوں پر شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہوچکی ہوگی، مرغی برڈ فلو کے دنوں ملنے والے ریٹ پر آگئی ہوگی، مالک مکان نے تیس تاریخ کے بعد ہفتہ خوش اخلاقی مناکر کرایہ کم کرنے کا اعلان کردیا ہوگا، خیبر تا کراچی دودھ، شہد اور چاکلیٹ کی نہریں نہیں بلکہ سمندر ابل پڑے ہونگے، نجی اسپتال کے طبیب فیس کم کرکے مریضوں کے لواحقین کو رعایت دے رہے ہونگے، بڑے بڑےاسٹورز کھڑکی توڑ سیل کا آغاز کرچکے ہونگے، وزیر اعظم ایک عدد خوش خبری سے متعلق تقریر کی تیاری کرچکے ہونگے، کرپٹ اشرافیہ مزید چوری سے توبہ کرچکی ہوگی، موبائل چھیننے اور ڈکیتی کرنے والے توبہ تائب ہوکر مساجد کا رخ کرچکے ہونگے، پولیس افسران بغیر کچھ لئے دیے پرچہ درج کرنے لگ پڑے ہونگے، سرکاری اداروں میں فائل کو پہیہ لگنے کی اب کوئی ضرورت پیش ناآتی ہوگی الغرض اسٹاک ایکسچینج کے فراز کی خبریں دیکھ کر ہر سچے پاکستانی کے من میں کچھ ایسے ہی خیالات جنم لیتے تھے۔

لیکن صاحب کیا کریں سچائی سالی تلخ سے بھی کوئی آگے کی چیز نکلی وہ کیا ہے کہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج بھی اس صورتحال پر ہکا بکا ہے۔ ہوتا کیا ہے برسوں سے ان خبروں کا؟ یہ خبریں دراصل ایک ڈھکوسلہ ہیں، فریب ہیں دھوکہ ہیں اورکچھ نہیں۔ اگر ان خبروں کا عوام سے تعلق ہوتا تو ہمارے حالات میں کبھی نا کبھی کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ بہتری ضرور آتی لیکن ہنوز دلی دور اسٹاک ایکسچینج کی بہتری کی خبریں چینلز کے لئے تو ضرور بریکنگ ہوتی ہیں لیکن ان سے کبھی غریبوں کے حالات نا بریک ہوسکے اور کمبخت اسٹیٹس کی طرح جوں کے توں ہی رہتے ہیں بہار ہو کہ خزاں ۔۔۔۔۔

معاملہ یہ ہےکہ وہ مزدور جو دن بھر اسی بندر روڈ کی مارکیٹوں میں ( جہاں اسٹاک ایکسچینج کی عالیشان عمارت بھی موجود ہے) مشقت سے بھرپور زندگی گزار کر بندہ مزدور کے تلخ اوقات کی عملی فوٹو بنے ہوتے ہیں بھلا اِن پر ایسی خبروں کا کیا اثر پڑسکتا ہے؟ کبھی آپ نے سنا  ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کی بہتری سے مزدور کی مزدوری میں اضافہ ہوچلا ہے؟ ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہ میں اسٹاک ایکسچینج کی بہتری کیطرح بہتری آئی ہے؟ نہیں نا ؟ ہم نے بھی کبھی نہیں سنا، کبھی بھی نہیں تو پھر یہ گورک دہندہ آخر ہے کیا؟ یہ مارکیٹ کس کو نفع دیتی ہے اور کس کو خسارہ؟ نجانے حساب عمر کی مافق اس گوشوارے کا حساب کس کے پاس ہے؟ راکٹ سائنس نہیں، بھاری بھرکم اصطلاحات بھی نہیں، ارے عوام تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بہیا اس سارے قصے کا اگر ہم پر ہمارے بچوں پر اور خاندان پر کچھ مثبت اثر پڑتا ہے تو سو بسم اللہ ورنہ تو سب کہانیاں ہی ہیں بابا، وہی پرانی بوتل اور نئی شراب والی کہانی جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا سب کا سب پرانا نیا دکھاکردھوکا دینا۔

اٹھارہ کروڑ بیوقوف انسان اپنا حق مانگتے ہیں وہ یہ خبریں پڑھ کر، سنکراوردیکھ  کرجو سپنے دیکھتے ہیں اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے کریش ہونے کی خبر کیطرح ہی کریش ہوتے ہیں، وہ حساب چاہتے ہیں اور یہ حساب پاکستان کے ان تمام چاچو مامو سے مانگتے ہیں جن کے پاس پاکستان کے ہرمعاملے کا ٹھیکہ ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے اس دہندے کا عام لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کب مارکیٹ اٹھی، کب بیٹھی اور کب لیٹ گئی۔  بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند نادیدہ ہاتھ جب اور جیسے چاہتے ہیں پوری مارکیٹ کو لٹو کیطرح گھوما دیتے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ یہ انہیں کا فن ہے اور وہ اس کام کے چیتے، باقی پیچھے بچےعوام جن میں مزدور بھی ہیں، کسان بھی،  پروفیشنلزبھی، عالم بھی اورجاہل بھی تو کم از کم انہیں اس سارے دہندے میں ککھ بھی نہیں ملتا وہ اس سارے کھیل میں اس تماشائی کیطرح ہیں جو کبھی غلطی سے گولف دیکھنے پہنچ جاتے ہیں اور تب ہی تالیاں بجاتے ہیں جب ساتھ کھڑے دیگر شرفاء بھی بجاتے اور اسی وقت منہ سے اوہ بولتے ہیں جب اُن شرفاء کی آہ نکلتی ہے۔

تو صاحبو ہمارے لئے بھی اسٹاک مارکیٹ کا کھیل ایسا ہی ہے جب خبر چلتی ہے کہ مارکیٹ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تو ہم بھی بیٹھے بیٹھے آسمان پہنچ جاتے ہیں اور جب سنتے ہیں کہ دہندہ مندا ہے تو ہم مفت میں اداس ہوئے پھرتے ہیں۔ اعدادوشمار کا گورک دہندہ یونہی چلتا بلکہ دوڑتا رہے گا اور اس میراتھن میں بیگانے کی شادی کیطرح بھاگ بھاگ کر اپنی توانائی اور سانس پھلاتے رہیں گے۔ عوام کے حالات پہلے کب بدلے جو اب ایسی خبروں سے تبدیل ہو جائیں گے؟ سو ان خبروں کو سنجیدہ لینے کا نہیں فقط انجوائے کرنے کا ہے، ہمیں ویسے بھی اس کھیل سے نہ ہی کچھ ملنا ملانا ہے اور نہ ہمارے حالات بدلنے ہیں تو پھر ٹینشن کس بات کی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔