پاکستان فلم انڈسٹری جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئی، عجب گل

جہانزیب صدیق / نوید جان  منگل 20 جنوری 2015
اداکار، ہدایتکار، پروڈیوسر عجب گل کا خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

اداکار، ہدایتکار، پروڈیوسر عجب گل کا خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

مملکت پاکستان کی بات کی جائے تودنیامیں اس کی پہچان کے کئی حوالے ہیں،جس میں ایٹمی طاقت سمیت، کھیل، سائنس اورفن وثقافت کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ ہمارے بدخواہوں نے دہشت گردی کو بھی ہم سے منسوب کیاہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں، یہ آگ اغیارہی نے اس مملکت کو کم زور کرنے اور اپنے مفادات کے لیے لگا رکھی ہے، اس حوالے سے پوری قوم متحد ہوکر اغیار کے ایجنڈے کوناکام بنانے کے لیے اپنی اپنی فیلڈمیں کوشش کر رہی ہے اور اپنے پیارے ملک پاکستان کے بہتر امیج کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اس حوالے سے اگر فن وثقافت کی بات کی جائے تو یہاں بھی ہر فنکار وہنرمند اپنے تئیں ایک سافٹ امیج کے لیے دن رات کوشاں ہے۔

فن وثقافت ایسا شعبہ ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور ہر کوئی اس میں کسی نہ کسی حوالے سے دلچسپی لیتا ہے، ایسے میں اگر فنکار کو ملک کا سفیر نہ کہا جائے تو زیادتی ہوگی، کیوں کہ آج فن سے وابستہ بہت سی شخصیات نے بیرون ملک پاکستان کے وقار کو بلندکرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔

اس فہرست میں تو لاتعداد نام آتے ہیں لیکن ان میں ایک نام خیبرپختونخوا کی زرخیز مٹی سے تعلق رکھنے والے فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے معروف اداکار، ہدایت کار اور کہانی نویس عجب گل کا بھی ہے جس کی شہرت کاچرچہ اندرون ملک کے علاوہ سرحد پار بھی ہے، کیوں کہ ان کو افغانستان اور ہندوستان دونوں جگہ پر لوگ پسند کرتے ہیں جب کہ حال ہی میں ایک انڈین فلم میں مرکزی کردار بھی نبھا رہے ہیں، اس حوالے سے ایکسپریس نے عجب گل سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس میں ہونے والی بات چیت قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔

معروف اداکار و ہدایت کاراور کہانی نویس عجب گل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں فلم پر زوال نہیں آیا لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں فلم انڈسٹری کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا ہے اتنے نامساعد حالات کے باوجود پھر بھی فلم بینوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی کیوں کہ فلم کا مطلب تفریح ہے۔

اگر فلم بینوں کی خواہشات کے مطابق معیاری فلمیں بنائی جائیں تو اب بھی پاکستان فلم انڈسٹری کو دوام مل سکتا ہے کیوں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ فلم لوورز موجود ہیں۔ جس میں زیادہ تعداد خیبرپختونخوا کی ہے لیکن بدقسمتی سے سنیماہال ختم ہونے سے ان سے یہ تفریح بھی چھینی جارہی ہے اس کے علاوہ صرف چند گنے چنے لوگوں نے پیسے کی خاطر کم بجٹ میں غیرمعیاری فلمیں بناکر فلم بینوں سے انکا بنیاد ی حق چھینا اور ساتھ ہی فلم انڈسٹری کے پاؤں پر کلہاڑی مارلی، جس کی وجہ سے نا صرف اچھے اداکار، ہدایت کار اور انڈسٹری سے وابستہ دیگر ہزاروں افراد متاثر ہوئے بلکہ تفریح کا واحد ذریعہ بھی ان سے چھینا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت انڈیا کی ایک فلم میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں جسے بھارت کے نامور ڈائریکٹر ونودھ رومن ڈائریکٹ کررہے ہیں جب کہ فلم کی کاسٹ میں بولی ووڈ کے منجھے ہوئے سینئر اداکاروں میں گلشن گوورو، اور پریم چوپڑا وغیرہ شامل ہیں اس فلم کے فلمساز پریم چوپڑا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس فلم کی شوٹنگ جاری ہے اور 25 فیصد فلم کی عکس بندی ہوچکی ہے، انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک میں یہ میری پہلی فلم ہے اور امید کرتے ہیں کہ ریلیز ہونے کے بعد بہترین فلم ثابت ہوگی۔ عجب گل نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں فلم انڈسٹریز انڈرورلڈ کے لوگ چلارہے ہیں اور اس بزنس میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن پاکستان کی فلم انڈسٹری گجر ورلڈ چلارہی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گئی جبکہ دوسرے ممالک میں فلم انڈسٹری وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر جدید ٹیکنالوجی کے باعث بہت آگے نکل چکی ہے ہم وہیں کے وہیں رہ گئے، حالانکہ پاکستان میں فن اداکاری کی مثال نہیں ملتی، ہمارے ہاں اداکاری کے شعبے میں ایسے ہیرے ہیں کہ جنہوں نے ملک وقوم کا نام روشن کیا۔ اس دور میں بھی بہت ٹیلنٹڈ لوگ ہیں لیکن انہیں صحیح سمت اور پلیٹ فارم نہیں ملتا۔

عجب گل کا کہنا ہے کہ انہوںنے شوبز کی دنیا میں سب سے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر سے ڈرامہ سیریل موسم سے آ غاز کیا اور سال 1998ء میں فلم ’’قیامت سے قیامت‘‘ ان کی پہلی فلم تھی، اب تک لاتعداد اردو اور پشتو فلموں میں کام کرچکا ہوں جس میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن کے فرائض بھی انجام دے چکا ہوں جس میں فلم ’’کھوئے ہوتم کہاں ‘‘کی ہدایت کاری کے ساتھ کہانی بھی تخلیق کرچکاہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی ڈی کلچر نے فنکاروں کو چند ٹکٹوں پر فروخت کردیا، جسکی وجہ سے ہمارے فن اورفنکاروں کے جنازے نکل گئے کیونکہ سی ڈی کلچر میں خود ساختہ لکھاری، خودساختہ ڈائریکٹر اور خود ساختہ ایکٹرز آچکے ہیں، جنہوں نے نہ صرف غیرمعیاری ڈرامے اور فلمیں بنائیں بل کہ ہمارے کلچرکو بھی بری طرح مسخ کرکے پیش کردیا۔

انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ میں نے کبھی بھی پیسے کی خاطر اپنے فن کو نہیں بیچا بلکہ معیاری اور بہترین کہانی پر مبنی فلم میں کام کرنے کو ترجیح دی اور اپنے کلچر کو محفوظ رکھتے ہوئے ابھی تک کسی بدنامی کا مرتکب نہیں ہوا ہوں جسکا سارا کریڈٹ میری مداحوں کو جاتا ہے کیونکہ وہ میرے سنجیدہ اور معیاری فلموں کو پسند کرتے رہتے ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ڈائریکشن اور تحریرکردہ فلموں میں ’’کھوئے ہو تم کہاں‘‘ جس کوسات نیشنل ایوارڈ بھی ملے ہیں (کیوں تم سے اتنا پیار ہے) (مابہ سنگہ ہیرہ وے) (جال) اور (انتقام) بنائی ہیں جس نے اچھابزنس بھی کیا اور لوگوں نے ان فلموں کو کافی پسند بھی کیا ہے جس پر میں ان کا بے حد مشکور ہوں اور آئند بھی اسی طرح معیاری فلمیں بناکردوں گا۔

ورسٹائل اداکار عجب گل نے اپنے تمام مداح و پرستاروں کو پیغام دیا ہے کہ انکا فیس بک پر کوئی آئی ڈی نہیں میرے نام سے لوگوں نے جعلی آئی ڈیز بنا رکھے ہیں لہٰذا محتاط رہیے ۔عجب گل نے اپنے یادگار تھیٹرڈرامے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور میں چارسال تک مسلسل کامیابی سے چلنے والے تھیٹر ڈرامہ نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا جسے پڑوسی ملک بھارت سے لوگ دیکھنے آیا کرتے تھے اسکا نام جنم جنم کی میلی چادر تھی جس نے کافی دھوم مچائی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں دکھی انسانیت کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے میں نے صوبے میں کافی کام بھی کیا ہے جس طرح سیلاب کے دنوں میں ہرعلاقے میں جاکر متاثرین کی مدد کی ہے اس کے علاوہ تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو خون کے عطیات کے لیے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ پشاورآکران کے خون جمع کرنے کی مہم میں بھرپورحصہ لیتا ہوں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ویسے تو میں پشاوری ہوں لیکن پشاور میرے اندر بستا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔