ہماری جھانسی کی رانی

تنویر قیصر شاہد  پير 19 جنوری 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بہت سے انقلابوں کے بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے ان کی آنکھیں آخر کار بند ہوگئیں۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ جب حیاتِ مستعار کی آخری شب ان کی بے قرار روح ان کے جسدِ خاکی سے جدا ہو رہی تھی، تب بھی ان کے دل و دماغ میں کم از کم یہی سوچ کلبلا رہی ہوگی کہ پاکستانی عورت کو مرد کے برابر حقوق نصیب ہوجائیں ۔ کئی بھرپور سیاسی، ادبی، انقلابی اور صحافیانہ برس گزارنے کے باوجود وہ اپنی زندگی میں کسی ایک خواب کو بھی ساحلِ مراد تک پہنچتے نہ دیکھ سکیں۔

وہ حق کی آواز بلند کرنے اور حرفِ مطبوعہ کو لوگوں تک پہنچانے کیلیے بغل میں تحقیقی مضامین اور کالموں سے بھری فائلیں تھامے اخبارات و جرائد کی سیڑھیاں چڑھتی اترتی نظر آتی رہتی تھیں۔ اس بے پناہ جدوجہد کے صلے میں مگر انھوں نے کچھ طلب نہ کیا۔ جنرل ضیاء کے ابتدائی دَور میں پیپلز پارٹی کے اکتالیس ضیاء مخالف کارکنوں کے خلاف جب انھیں گواہی دینے کے عوض پانچ مربعے زرعی اراضی دینے کی پیشکش کی گئی تو اس عظیم خاتون نے اسے ترنت ٹھکرا دیا تھا۔  پاکستان کے ہر بڑے شہر سے شایع ہونے والا اردو اور پنجابی کا کم ہی ایسا کوئی ادبی جریدہ ہوگا جس میں ان کے متنازعہ، تحقیقی اور دردمندی سے مملو کالم اور مضامین شایع نہ ہوتے تھے۔

ان کی تحریروں کی جو لانگاہ لاہور سے امرتسر اور دِلّی تک پھیلی ہوئی تھی۔ پنجابی زبان کی طرح دار شاعرہ محترمہ امرتا پریتم نے شاید (مبینہ طور پر) ساحر لدھیانوی سے اتنا عشق نہ کیا ہوگا جتنا ہماری اس محترم ادیبہ، ناول نگار اور کالم نویس نے امرتا سے کیا۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی، امرتا پریتم کی شاعری، ان کی حیات، ان کے شوہر اور مشرقی پنجاب میں ان کی گھریلو زندگی کا مفصل ذکر ضرور آتا۔ وہ دلّی میں امرتا کے گھر کئی بار بطور مہمان قیام پذیر بھی رہیں۔

پروفیسر افضل توصیف صاحبہ، 78برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئیں۔ ان کی ابدی رخصتی کو کئی دن گزر چکے ہیں۔ دل اتنا افسردہ اور غمگین تھا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھنے کیلیے قلم تھامنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ وہ مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ اپنے خاندان کے کئی افراد آزادی کیلیے قربان ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ غالباً اسی وجہ سے انھیں امرتا پریتم کی پنجابی شاعری جی جان سے عزیز تھی، اُن کے والدِ گرامی سینئر پولیس افسر تھے اور انھوں نے زیارت میں قائداعظم علیہ رحمہ کے آخری ایام میں ایک ایک لمحہ ان کی خدمت میں گزارا۔ افضل صاحبہ مگر اس کا ذکر کم کم ہی کرتی تھیں۔

وہ اپنے لبرل اور ترقی پسندانہ نظریات سے دستکش ہونے کیلیے کبھی تیار نہ ہوئیں۔ وہ معاوضے کیلیے بھی جنگ کرتیں اور اپنے کالم کے مرکزی خیال سے پسپائی اختیار کرنے پر بھی تیار نہ ہوتیں۔ مَیں نے انھیں کئی اخبارات کے مالکان، میگزین ایڈیٹرز اور ادارتی صفحات کے انچارج صاحبان سے، اسی حوالے سے اور اپنا مؤقف منوانے کیلیے، طویل بحثیں کرتے سنا۔ اور جب ان کے فقرے ایڈیٹر کے ہاتھوں قلم زد کردیے جاتے تو ان کا باطنی کرب قابلِ دید ہوتا۔ مجھے ’’تُوں‘‘ کہہ کر پکارتیں جو اچھا لگتا۔ اپنائیت اور شفقت سے بھرے جذبات کا کھُلا ڈُلا اظہار۔ گفتگو میں اردو زبان پر پنجابی کو ترجیح دیتیں اور ہمیشہ سہج لہجے میں بولتیں۔

یہ الفاظ لکھتے ہوئے بار بار اُن کا سراپا آنکھوں میں گھوم رہا ہے: بوجھل سا بدن، آنکھوں کے نیچے گوشت کی ہلکی ہلکی تھیلیاں، گلے میں دوپٹہ، بالوں میں حنا کا اڑتا سا رنگ، گول گلے والی قمیض، ہاتھوں میں مضامین سے بھری بھوری فائل۔ تقریباً تین درجن کے قریب کتابیں لکھیں۔ ان میں ناول اور افسانے بھی ہیں، رپورتاژ بھی، سفرنامہ بھی، کالموں کے مجموعے بھی، سیاست بازی بھی جس میں ذاتی زندگی کے کئی واقعات جگہ بہ جگہ نظر آتے ہیں۔ خود نوشت سوانح حیات ’’دیکھی تیری دنیا‘‘ لکھی تو اپنی تلخی پر قابو نہ پاسکیں۔ زندگی میں جتنی محنت کی، جان کو جوکھوں میں ڈال کر اچھی تعلیم حاصل کی، درس و تدریس کی دنیا دیکھی، سیاسی جماعتوں کو اندر باہر سے دیکھ کر مشاہدات صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیے۔۔۔ لیکن موجی من مطمئن ہوسکا نہ اس علم دشمن معاشرے نے قدر کی۔ دل تو بجھنا تھا۔ اس کا عکس ’’دیکھی تیری دنیا‘‘ میں بھی دِکھتا ہے۔

پروفیسر افضل توصیف سیکولر خیالات کی حامل دبنگ اور دلبر خاتون تھیں۔ ادبی اور سیاسی جلسوں میں ان کا لہجہ کاٹ دار ہوتا اور وہ اپنے مخصوص متحمل لہجے میں اپنا نقطۂ نظر کسی ابہام کے بغیر پیش کرتیں۔ ساری زندگی مذاہب و مسالک کی باہمی چپقلشوں سے ماورا رہ کر گزاری۔ ان کی گفتگو میں منافقت تھی نہ تحریروتقریر میں تضاد۔ وہ عمل کے میدان کی Political  Activist تھیں۔ سیاست اور وہ بھی متموج انقلابی سیاست کا نظارہ انھوں نے محض سمندر کنارے کھڑے ہوکر نہ دیکھا، اس میں خود کُود گئیں اور تمام علیہ ماعلیہ کو برداشت کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے تو وہ بہت ہی مخالف تھیں۔ ضیاء کی تصویر نظر آجاتی تو مُوڈ خراب ہوجاتا اور لہجے میں کڑتّن ابھر آتی۔

دراصل جنرل ضیاء کے آمرانہ اور سفاکانہ دور میں افضل توصیف صاحبہ پر ظلم و تعدی کے پہاڑ بھی بہت توڑے گئے۔ ان کا ذکر کرتیں تو آبدیدہ ہوجاتیں مگر ہنستے ہوئے کہتیں: چلو، وہ دن بھی گزر ہی گئے۔ ضیاء اور ان کے حواریوں نے انھیں جلاوطن (لیبیا) بھی کردیا تھا جہاں انھوں نے ایک پُرآزمائش اور کانٹوں بھری زندگی گزاری لیکن اپنے افکار ونظریات سے تائب نہ ہوئیں۔ یہ ان کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ وہ ان ترقی پسند اور نام نہاد لیفٹسٹ دانشوروں اور لکھاریوں میں نہ تھیں جنہوں نے سوویت یونین سے بھی خاصے مفادات حاصل کیے اور جب مبینہ سرخ سویرے کی چادر سمٹ کر رہ گئی تو نئی اکلوتی سپر پاور سے آنکھ لڑانے میں دیر نہ کی۔ بہادر اور غیور افضل توصیف کیلیے مرغِ بادنما بننا ممکن ہی نہ تھا۔ چنانچہ اس کی سزا بھی عمر بھر بھگتی۔ مالی آسودگی سے دور۔ پنشن پر گزاراکرتیں اور قلندرانہ زندگی پر مخمور رہتیں۔ جہاں جہاں ان کی تحریریں شایع ہوتیں اور جو لوگ ان کی بیش بہا کتابیں شایع کرتے، ان سے معاوضہ اور رائلٹی وصول کرنے کیلیے جس مطلوبہ ہمت کی ضرورت پڑتی ہے۔

وہ ان کے پاس نہ تھی۔ ادائیگی کی تاخیر پر ناراض تو ہوتیں لیکن آتش با ہوتے مَیں انھیں کبھی نہ دیکھ پایا۔ کبھی کبھار یہ دیکھ کر افسوس ضرور ہوتا جب سخت گرمی کے موسم میں میرے (ایک سابقہ اخبار) کے دفتر تشریف لاتیں اور پسینے میں بھیگی ہوتیں۔ لاریب یہ ان کی ہمت تھی جس کا ہر کوئی معترف رہا ہے۔ انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر نے اپنی مشہور کتاب میں محترمہ افضل توصیف کا ذکر جس بیہودہ طریقے سے کیا ہے، مَیں نے ہمیشہ افضل صاحبہ کو نہایت رنجیدہ اور دکھی لہجے میں اس کا انکار کرتے ہوئے سنا۔ وہ مصنف کے الفاظ کو جھوٹ کا پلندہ بھی قرار دیتیں اور اسے کردار کشی پر بھی محمول کرتیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب جنرل ضیاء کے کارندوں نے افضل صاحبہ کو لیبیا جلا وطن کرنے سے قبل تفتیش کیلیے قید کر رکھا تھا۔ محترمہ افضل توصیف کو پاکستانی خواتین صحافیوں کی ’’جھانسی کی رانی‘‘ کہا جاسکتا ہے جو زندگی کے آخری لمحات تک شمشیر بکف ظلم کے خلاف جنگ آزما رہیں۔ وہ ہم لکھنے والوں میں افضل بھی تھیں اور ان کے ادیبانہ و کالم نگارانہ اوصاف بھی نمایاں ترین تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔