کل دیکھا جائے گا

ارشاد حسین  منگل 20 جنوری 2015
کوئی بھی مسئلہ ہو اس کا حل نکالنے کے بجائے ہم ایک دوسرے کو اس مسئلہ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ فوٹو فائل

کوئی بھی مسئلہ ہو اس کا حل نکالنے کے بجائے ہم ایک دوسرے کو اس مسئلہ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ فوٹو فائل

بحیثیت ایک پاکستانی قوم ہم غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیں۔ ہم اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر گریڈ 22 کے ملازم تک سب اپنے فرائض میں ہمیشہ کوتاہی کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو اس کا حل نکالنے کے بجائے ہم ایک دوسرے کو اس مسئلہ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے سابقہ حکومتوں کو کوستی رہتی ہے اور بجائے مسائل کا حل تلاش کرنے کے سابقہ حکومتوں پر سارا ملبہ ڈال دیتی ہے اور پانچ سال پورے کرنے کے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ اپوزیشن بجائے مسائل حل کرنے کے الٹا ہمیشہ حکومت کو گرانے کے لیے نئے نئے مسائل پیدا کرتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششیں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی اپنی کرسیاں بچانے میں لگی رہتی ہیں اورعوام بیچاری ہمیشہ پستی رہتی ہے اور سیاستدانوں کو کوستی رہتی ہے۔

اب بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ہی لے لیں۔ سردی کی آمد کے ساتھ امکان تو یہ تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوگی مگر بجائے کم ہونے کے اس کے دورانیے میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وعدہ ہم نے پچھلی حکومت سے بھی سنے کے اُن کے دورِ اقتدار میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا اور اِس بار بھی وعدے تو بہت ہیں مگر عمل کتنا ہوتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ حکومت ہر مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی بجائے کمیٹیوں کا سہارا لیتی ہے۔ کمیٹی میٹنگز کرتی رہتی ہیں جبکہ حل کی بات کی جائے تو نل بٹا نل۔ بم دھماکہ ہوتا ہے تو کمیٹی بٹھا دی جاتی ہے۔ آٹے کا بحران آتا ہے تو کمیٹی بٹھادی جاتی ہے۔ چینی کا بحران آتا ہے تو کمیٹی بٹھا دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور بیچاری غریب عوام مسائل کے بھنور میں مزید پھنستی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں فرائض میں کوتاہی کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ ہر کام کو حل کرنے کے بجائے اسے کل پر ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ طالب علم اپنا آج کا کام پورا کرنے کے بجائے اسے کل کے لیے بچا کر رکھتے ہیں۔ سرکاری ملازمین روز کا کام روز کرنے کی بجائے اسے کل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی باری پوری کرنی کی کوشش کرتی ہے اور مسائل اگلی حکومت کے لئے بچا کر رکھتی ہے تاکہ اس پر سیاست کی جاسکے۔

’’یوں کل دیکھا جائے گا‘‘ کی پالیسی نے ہمیں ایک کامیاب قوم بنانے کی بجائے ناکامیوں کے بھنور میں پھنسادیا ہے۔ مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بے روز گاری، انتہا پسندی، پانی کی کمی سمیت ایسے بے شمار مسائل موجود ہیں جن کو اگر فوری حل نہ کیا گیا اور انہیں کل پر چھوڑنے کی کوشش کی گئی تو پھر ہمیں ناکام قوم بننے سے کو ئی نہیں بچا پائے گا اور ہمارا نام ناکام قوموں کی فہرست میں جلد شامل ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔