شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

رئیس فاطمہ  بدھ 21 جنوری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ اتوار کے کالم میں گندم کھانے سے پیدا ہونے والی بیماری ’’گلوٹین الرجی‘‘ کے حوالے سے بہت سی ای میل آئیں۔ ایک خاتون نے سکھر سے فون پر بتایا کہ انھیں اب تک اس بیماری کے بارے میں آگاہی نہیں تھی۔ ان کی سات سالہ بچی کا قدوقامت عمر کے لحاظ سے نہ صرف چھوٹا ہے بلکہ وہ کمزور بھی بہت ہے اور کھانا بہت کم کھاتی ہے۔

ڈاکٹرز اور حکیم سب مختلف بھوک لگانے والی دوائیں اور شربت دیتے ہیں لیکن حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا۔ اب جو انھوں نے میرا کالم پڑھا تو بہت شکر گزار ہوئیں۔ ساتھ ہی ایکسپریس کی بھی ممنون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایکسپریس کی بدولت سماجی، طبی اور سوشل ایشوز پہ مبنی کالموں کی وجہ سے انھیں بہت آگہی ملی ہے۔ بیشتر قارئین نے اپنی ای میل میں الیکٹرنک میڈیا سے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ وہ صرف سیاست دانوں کی لڑائی کا اکھاڑہ بن کر رہ گیا ہے۔  لہٰذا ایسے میں عوام کو آگاہی دینے اور طبی حوالوں سے کوئی پروگرام کرنے کی ضرورت کبھی نہیں سمجھی گئی۔ کیونکہ ایسے پروگرامز کو اسپانسرز نہیں ملتے۔

ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی ناخواندہ ہے۔ جو پڑھے لکھے ہیں ان میں بھی اکثریت ڈگری یافتہ کی ہے۔ جو یا تو نقل کرکے پاس ہوئے ہیں یا پھر پانچ سالہ حل شدہ پرچہ جات سے شفا پانے والے۔ شعور اور آگہی مطالعے سے پیدا ہوتا ہے۔ آئے دن نت نئی بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں۔

ابتدا میں جب اکا دکا کیسز سامنے آتے ہیں تو انھیں اہمیت نہیں دی جاتی۔ لیکن جب آدھا ملک اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ تب میڈیا بھی جاگتا ہے اور عام آدمی بھی۔حکمران پھر بھی سوتے رہتے ہیں۔ البتہ مدہوشی کی ہی حالت میں ایک آدھ بیان دے کر اپنی ذمے داری پوری کردیتے ہیں۔ ہیپاٹائٹسB اور C، کانگو وائرس، ڈینگی وائرس اور بے شمار بیماریوں کا اس وقت نوٹس لیا گیا جب امراض خطرناک حد تک بڑھ گئے۔

اور اب یہ ’’گلوٹین الرجی‘‘ جس کی سب سے زیادہ خطرناک بات یہ سامنے آئی کہ جن والدین کو اپنے بچوں میں ایک مخصوص ٹیسٹ کے ذریعے اس الرجی کا پتا چلا  انھوں نے سب سے اس بیماری کو چھپایا۔ جن ڈاکٹر صاحبہ کا پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا۔ انھوں نے جب بچی کی ماں سے بیماری چھپانے کی وجہ پوچھی تو وہ بولیں کہ اگر لوگوں کو پتا چل گیا تو اس کی شادی نہیں ہوگی۔ بہت خوب۔ یعنی شادی دھوکا دے کر کی جائے اور بیماری کو شادی ہونے تک چھپایا جائے۔

بعد میں کیا ہوگا؟ کیا جب اس بیماری کا علم شوہر کو ہوگا تو یہ شادی قائم رہ پائے گی؟ لیکن اس مسئلے کا حل بھی یقینا والدہ محترمہ ڈھونڈ ہی لیں گی کہ عزیز و اقارب میں سسرال والوں اور شوہر کو مورد الزام ٹھہرا دیا جائے گا۔ یہ ایک آسان نسخہ ہے اپنی بلا داماد کے سر ڈالنے کا۔ لیکن یہ تو مستقبل کا نقشہ ہے۔ والدہ نے اس طبی حقیقت کو یکسر فراموش کردیا کہ روز مرہ کی زندگی میں گندم کا استعمال وہ گھر میں تو ختم کرچکی ہیں لیکن اسکول میں اور تقریبات میں جہاں گندم سے بنی اشیا کی موجودگی ناگزیر ہے وہاں جب ان کی بچی ان اشیا سے اجتناب برتے گی تو وہ لوگوں کے سوالوں کا کیا جواب دیں گی؟اس لیے والدین کے لیے بہتر یہی ہے کہ اگر ان کے بچوں میں سے کوئی بچہ ’’گلوٹین الرجی‘‘ کا شکار ہے تو وہ پوری طرح اس کی آگاہی دیں، اسکول کے فنکشن میں بھی وہ اساتذہ کو بتا سکتی ہیں کہ ان کے بچے کو ایسی چیز کھانے کو دی جائے جس میں گندم بالکل شامل نہ ہو۔

اب بات آتی ہے حکومتی ذمے داری کی تو معاف کیجیے گا بہت سے قصیدہ نگاروں کو شاید یہ بات بہت بری لگے کہ جو حکومت آج تک صرف مسائل پیدا کرتی آئی ہو، پٹرولیم، بجلی، گیس، لوڈشیڈنگ، امن وامان، ٹارگٹ کلنگ، صفائی کا فقدان ، دہشت گردی اور دیگر مسائل پہ قابو نہ پاسکی ہو اس کے لیے ایسے طبی مراکز کھولنا جہاں معقول اور مناسب معاوضے پر گلوٹین الرجی کے ٹیسٹ ہوسکیں، ایک لایعنی بات ہے کیونکہ یہ اژدہوں جیسے منہ اور مگرمچھوں جیسے معدے والے اپنی اور اپنے بچوں کی خوراک امریکا اور یورپ سے منگوا سکتے ہیں۔ ترکی سے سیخ کباب، ایران سے چلِّو کباب، سعودی عرب سے دم پخت دنبہ، افغانستان سے کابلی پلاؤ، اور سالم بھنا ہوا بکرا۔ ان کے لیے منگوانا کون سی بڑی بات ہے۔ ان کے سیخ کبابوں کے لیے جہاز لیٹ کردیے جاتے ہیں۔ سنگاپور میں بیٹھ کر سندھی بھنڈی منگوائی جاسکتی ہے۔

نہاری، پائے اور حلیم پکانے والے ہمہ وقت بیرونی دوروں میں سرکاری خرچ پہ ساتھ جاتے ہوں تو انھیں اس سے کیا دلچسپی کہ امریکی گندم کھانے سے انسانی صحت کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں عوام اور پرائیویٹ سیکٹر ہی کو کچھ کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جو آٹا اور اشیا ’’گلوٹین فری‘‘ کے نام سے بیچی جا رہی ہیں۔ ان سے اجتناب برتا جائے کیونکہ جہاں ’’ایمان برائے فروخت‘‘ ہو وہاں کسی بھی قسم کے لیبل پہ بھروسہ کرنا حماقت ہوگی۔ البتہ یہ اشیا اگر مغربی ممالک کی ہیں تو بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وہاں زائد المیعاد  خوردنی اشیا فوراً ضایع کردی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ تاجر حضرات منافع کمانے ہی کی خاطر دیسی گندم اگانے اور فروخت کرنے کا کاروبار کرسکتے ہیں۔ جو بھی اس گندم کو خریدنا چاہے وہ خود لے کر اس کا آٹا پسوا سکتا ہے۔ شنید ہے کہ پنجاب اور سندھ کے اکثر وڈیرے اور جاگیردار اپنی گندم خود اگاتے ہیں۔ ان سے کسی انسانی ہمدردی کی امید رکھنا تو محض دیوانے کا خواب ہی ہوگی۔ لیکن وہ سامنے آئے بغیر اپنے کسی ’’فرنٹ مین‘‘ کے ذریعے دیسی گندم کا صاف ستھرا کاروبار کرسکتے ہیں۔ جب کرپشن کے بڑے بڑے ٹھیکے خود سامنے آئے بغیر اپنے اپنے ’’فرنٹ مین‘‘ کے ذریعے نہایت کامیابی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں تو گندم کے کاروبار میں ہچکچاہٹ کیوں؟

ایک اور بات جس کی جانب عالیہ ایوب  نے ای میل میں توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ پاکستان میں صارف کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ عالیہ  گزشتہ دس سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اور وہاں معمر افراد کے لیے علاج و معالجے اور صارف کے حقوق دیکھ کر ابتدا میں تو بے حد حیران ہوئیں، لیکن جب دو سال قبل وہ پاکستان آئیں اور یہاں مختلف سپرمارکیٹوں سے لے کر عام دکانوں تک ہر جگہ ایکسپائری ڈیٹ کی چیزیں بکتی دیکھیں تو بہت آزردہ ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی نمایندے جو بقول ان کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں تو وہ اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد عوام کے مسائل سے نظریں کیوں چرانے لگتے ہیں۔

جس جانب عالیہ صاحبہ نے توجہ دلائی ہے وہ تو اب ہماری زندگیوں کا روز کا رونا ہے۔ دواؤں سے لے کر مشینری اور خوردنی اشیا تک کوئی بھی چیز خراب نکلنے کی صورت میں نہ تبدیل ہوگی نہ واپس۔ کیونکہ پورا ملک تاجروں کی جیب میں ہے۔ جس چیز کی جی چاہے قیمت بڑھا دو۔ صارف اعتراض کرے تو ناک چڑھاکر کہو۔ جاؤ جاؤ جہاں سستی ملے وہاں سے لے لو۔ کوئی سوال پوچھے تو کہو۔ بھائی! وہ قیمت تو کل کی تھی آج تو اسی ریٹ پر مال ملے گا۔ بھلا قیمت کس نے بڑھائی؟ جواب ملے گا۔ ہم نے اور کس نے۔ کرلو جو کرنا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ پٹرول کی قیمت کم ہوئی تو وہ کہاں گیا؟جواب تو سب جانتے ہیں۔

محاورے میں کہیں تو یوں کہ ’’گھی کہاں گیا؟ کھچڑی میں کھچڑی کہاں گئی؟ پیاروں کے پیٹ میں ‘‘۔ اب اس کی وضاحت نہ مانگیے گا کہ گھی اور کھچڑی کا کیا مطلب ہے؟ اور ’’پیاروں‘‘ سے مراد کون ہیں؟ البتہ ایک سیاسی پارٹی کے سینئر وزیر اور تجزیہ کار نے اتوار کی شب حالیہ پٹرولیم بحران کے لیے کہا تھا کہ پٹرول نیلی پیلی فضائی سروس والے لے گئے۔ اگر کسی نے وہ پروگرام دیکھا ہوگا تو ان کی سمجھ میں مندرجہ بالا محاورہ بھی آگیا ہوگا۔

کہتے ہیں کہ ظلم کی سیاہ رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، لیکن ختم ضرور ہوتی ہے، لیکن پاکستانی قوم اب اس قول پہ یقین نہیں کرتی کیونکہ جب ہم خود بدعنوان، بدکردار، خودغرض اور انا پرست لوگوں کو اپنے اپنے فائدے کی خاطر اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں تو رحمت خداوندی بھی اپنا دست شفقت اٹھا لیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔