خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
دنیا کے تمام بڑے مذاہب درحقیقت مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور آپس میں متصادم ہیں۔
ہمارے بزرگ ہمیں تہذیب سکھاتے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہم نے کھڑے ہو کر پانی پینا اور اوندھے لیٹ کے کتاب پڑھنا نہ چھوڑی۔ ہم تو پیدائشی ناخلف تھے جس میں ہماری ہٹ دھرمی نے مہمیز کا کام دیا تھا لیکن جب طیب اردگان اپنے وزیراعظم کی پیرس مظاہرے میں حاضری کے بعد بڑی تشویش سے کہتے ہیں کہ دنیا تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے اور جب اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کہتے ہیں کہ عالمی تہذیب کو بچانے کے لیے سب کو مل کے داعش کو روکنا ہو گا تو ان کی سادگی پہ قربان ہونے سے پہلے یہ دریافت کرنے کو جی چاہا کہ قبلہ آپ بھی پیدائشی ایسے ہی تھے یا بزرگوں نے ہی ہاتھ اٹھا لیا تھا؟
سموئل ہنگ ٹنگٹن کی تہذیب یا سوئلائزیشن کی تعریف اب بدل چکی ہے ساتھ ہی تہذیبوں کے تصادم کی بھی۔ John O. Voll جو Prince Talal Center for Muslim-Christian Understanding. میں پروفیسر ہیں، سموئیل کی شہرہ آفاق تھیوری ـ ''تہذیبوں کے تصادم ــ'' سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود تمام تصادم یا ٹکراو کی بنیاد، دراصل کسی چینی، عرب، ایشیائی، مغربی یا غیر مغربی تہذیبوں کے تضادات میں نہیں بلکہ مذاہب میں ہے۔
دنیا کے تمام بڑے مذاہب درحقیقت مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور آپس میں متصادم ہیں۔ تصادم کا تعلق اگر تہذیب سے ہوتا تو ایک ہی خطے میں ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والی قوتیں آپس میں برسرپیکار نہ ہوتیں۔ دنیا کو مغربی اور غیر مغربی بلاک میں تقسیم کرنا غیر حقیقی سی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئرلینڈ، سری لنکا اور مشرقی تیمور میں ہونیوالے خونی فسادات کوئی تہذیبی تصادم نہیں تھے۔ اسی طرح عراق میں جاری خانہ جنگی کونسی تہذیبوں کا ٹکراو ہے۔
نائیجیریا میں مسلم عیسائی فسادات اسلامی اور مغربی تہذیبوں کا تصادم نہیں ہیں بلکہ مذہبی تنازعات ہیں جو ایک ہی تہذیب کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔ بخدا ہماری کوئی اوقات ہوتی تو ہم بھی سیموئل کی ٹھڈی میں ہاتھ دے کے ایسے ہی سوالات سے اسے عاجز کر دیتے۔ آگے چل کے موصوف کہتے ہیں اور کیا ہی خوب نکتہ آفرینی کرتے ہیں کہ دراصل یہ تنازعات یا تصادم، تہذیبی نہیں، مذہبی بھی نہیں بلکہ قدیم اور جدید تہذیب کا جھگڑا ہے اور یہی وہ جھگڑا ہے جسے نبٹانے لے لیے دنیا کو گلوبلائزیشن کا خواب دکھایا گیا تھا تا کہ نہ نو من تیل ہو نہ رادھا ناچے۔ یہ اور بات ہے کہ تیل بھی رادھا لے گئی اور ناچی بھی رج کے۔
اب داعش نے تیل پہ قبضہ کیا تو گلوبلائزیشن کی رادھا نے بھی سارے آدرش ایک طرف رکھے اور کنستر ہاتھ میں لے کے لائن میں لگ گئی۔ خیر یہ تو ہم نے یونہی حسب عادت بیچ میں کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ کلی پھندنے لگائے ہیں لیکن پروفیسر موصوف بضد ہیں کہ یہ جدید دنیا کا اس قدامت سے تصادم ہے جس پہ کچھ لوگ خوامخواہ اصرار کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں سے مراد رجعت پسند مسلمان ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے تمام مسلم دنیا کو ان ہی فسادی گروپوں پہ محمول کر لیا جو جو جگہ جگہ پنگے لیتے پھر رہے ہیں تو ہم مسلمانوں کی اس بڑی تعداد کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہونگے جو جمہوریت اور جدت پہ یقین رکھتی ہے۔
یہی وہ جدیدیت ہے جو cultural globalization کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائی گئی۔ آپ ایک طرح سوچیں گے تو قدامت اور جدیدیت کا جھگڑا ختم ہو گا۔ پچاس سال پہلے ـجدیدیت کچھ اسی طور متعارف کروائی گئی تھی کہ دنیا اتنی ہی ہم آہنگ ہو گی جتنی کہ وہ ماڈرن ہو گی اور یاد رکھئے کہ ماڈرن ازم کے معیار وہی متعین کرینگے جن کے ہاتھ میں اس بھینس کے لیے لاٹھی ہو گی یعنی مغرب یعنی بات گھوم پھر کہ وہیں آ گئی ہے کہ تصادم جدیدیت کا قدامت سے ہو یا مغرب کا باقی دنیا سے بات ایک ہی ہے البتہ تہذیب کی تعریف مختلف ہو گئی ہے اور وہ جغرافیائی کلچر سے آگے بڑھ کے ایک ہم آہنگ مشترکہ تہذیب میں ڈھل گئی ہے۔
جس کے تمام تر معیارات مغرب نے متعین کیے ہیں۔ سیموئل بھی یہی نکتہ کچھ اس طرح بیان کر چکے ہیں کہ مسئلہ ان ملکوں کا ہے جو مغربی دنیا میں شامل تو ہونا چاہتے ہیں لیکن اپنی روایات کو ترک نہیں کرنا چاہتے۔ جیسے چین، جاپان، ترکی اور روس۔ چونکہ سیموئل مذہب کو تہذیب کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دیتے ہیں لہٰذہ ان کا خیال ہے کہ ایسے ممالک اپنا ایک الگ بلاک بنائیں گے اور معاشی اور فوجی طاقت اسی مغرب سے حاصل کرینگے اور ایسا ہوا بھی ہے لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر پاتے کہ ترکی یورپی یونین میں شامل نہیں ہو سکا جب کہ وہ مغرب کا حصہ ہے۔
یہاں وہ مذہب کے عنصر کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ترکی کا اسلامی ہونا ہی اس میں رکاوٹ ہے ۔ ایسا وہ اس لیے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ترکی کے صدر ترگت اوزال ایسا کہہ چکے ہیں۔ پھر بھی وہ ترکی کو ایک بٹے ہوئے ملک کے طور پہ دیکھتے ہیں جو مغرب میں شامل بھی ہونا چاہتا ہے اور اپنی اسلامی شناخت کھونا نہیں چاہتا، نتیجہ یہ ہے کہ وہ نیٹو میں تو شامل ہے لیکن یورپی یونین میں نہیں اور اب حالیہ عراقی بحران میں جب داعش نے سب کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے، امریکا اور نیٹو نے ترکی کو اس کے مطلب کے علاقوں پہ تھانیدار بنا کر اسے ایک کنفیڈریشن کے خواب دکھانے شروع کر دیے ہیں جہاں ترکی کا اسلامی ضمیر بھی مطمئن ہو اور مغرب کو ایک مسلمان چوکیدار بھی میسر آ جائے۔
یہاں پہنچ کے دونوں درویشوں کی کہانی ختم ہوتی ہے گو بحث ابھی جاری ہے۔ اگر یہ تہذیبوں کا تصادم ہے اور ہم مغرب کو بالادست ہونے کی وجہ سے اس تہذیب کا حاشیہ بردار تسلیم کرتے ہیں جس کے معیارات خود اسی نے تشکیل دیے اور گلوبلائزیشن کو ایک طرز زندگی کے طور پہ متعارف کروایا تو ہم ان جہادیوں کو کس کھانچے میں فٹ کرینگے جو فرانسیسی بولتے ہیں، پیرس میں پیدا ہوئے لیکن ایک بالکل اجنبی سرزمین عراق پہ عربی بولنے والوں کے ساتھ جہاد میں مصروف ہیں۔ ان برطانوی نوجوانوں کو کہاں لے جائینگے جو اسی مغربی تہذیب میں پلے بڑھے، تعلیم حاصل کی اور القاعدہ میں شامل ہو گئے۔
یہی صورتحال بیلجئم، ناروے، جرمنی، ہالینڈ اور آسٹریا کی ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو کسی قدامت پرست مدرسے کی پیداوار نہیں ہیں۔ بالآخر ان کی نفسیاتی گتھیاں سلجھانے سے عاجز مغربی دنیا نے ان کے لیئے ایک اور اصطلاح وضع کی جسے ریڈیکل گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔ جس کے مطابق ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تکلیف میں دیکھتا ہے پھر کچھ نہیں دیکھتا۔ یہ ان کی اپنی گلوبلائزیشن ہے۔
یہاں ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ اگر جمہوریت جدیدیت کا استعارہ ہے تو 1992ء میں الجزائر میں انتخابات کے نتیجے میں سیکولر ایف ایل این کو شکست فاش دے کر متوقع طور پہ برسراقتدار آنے والی اسلامی محاذ آزادی ( ایف آئی ایس) کو بزور فوجی قوت کیوں روک دیا جاتا ہے؟ مصر میں اخوان کی جمہوری حکومت کا تختہ فوج کیوں الٹ دیتی ہے؟ اس کا مطلب ہے مسئلہ کچھ اور ہے۔ تصادم کہیں اور ہے، یہ نہ جدت میں ہے نہ قدامت میں، نہ تہذیب میں نہ جغرافیہ میں، نہ جمہوریت میں نہ آمریت میں۔ مسئلہ تو ان سے ہے جو مغرب کے خود تراشیدہ معیارات ان کے منہ پہ مارکے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں یا ووٹ ڈال کر اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی قدامت پسند ٹھہرتے ہیں اور تہذیب کو ان سے ہی خطرہ ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جب امین و صادق ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پہ فوقیت نہیں اور تم میرے بعد ایک حبشی کی بھی اطاعت کرنا اگر وہ تمہیں اللہ کے راستے پہ قائم رکھے اور یہ کہ رنگ و نسل کے تمام بت میرے قدموں تلے ہیں آج سے تم ایک قوم ہو تو تہذیبوں کا تصادم اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جسے کوئی سموئیل سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتا اور کوئی جان اوویل طرح دے جاتا ہے۔ تب خاکے بنائے جاتے ہیں، تمسخر اڑایا جاتا ہے اور آزادی اظہار رائے کے نام پہ دل کے پھپھولے پھوڑے جاتے ہیں کہ تکلیف بھی تو بہت ہے۔