… یہ انقلاب ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 23 جنوری 2015

بستائیل کی تباہی کے لیے جمہوریت پسند آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں ۔ بستائیل چلو ، بستائیل چلو ہر کسی کی زبان پر ہے۔ دی لانی بستائیل کی حفاظت پر مامور ہے ۔ جمہوریت پسند بستائیل پہنچ چکے ہیں ۔ لو انھوں نے بڑا دروازہ بھی توڑ لیا۔ قیدی آزاد ہو رہے ہیں ۔ کاغذات جلائے جارہے ہیں ۔ بستائیل مسخر ہوگیا۔ شہر میں ہنگامہ بپا ہے لیکن لوئی اپنے دادا کے ورسائی میں مزے لوٹ رہاہے ، درباریوں ، امیروں اور وزیروں نے اسے حالات سے بے خبر رکھا۔

پیرس میں انقلاب کے شعلے بلند ہوچکے ہیں لیکن ورسائی کو اس کی خبر نہیں ہے ۔ میرا بیو کوشش کرتا ہے کہ لوئی کو تمام حالات سے واقف کرے ۔ درباری۔ اعلیٰ حضرت ! میرا بیو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ لوئی ۔ٹہرو ۔ نہیں ، نہیں بھیج دو ( قدموں کی چاپ ، میرا بیو اندر داخل ہوتاہے ) کہو ، میرابیو کیسے ہو ؟ میرا بیو ۔ اچھا ہوں اعلیٰ حضرت ۔ لوئی ۔ کتنا اچھا موسم ہے ۔ میرا بیو ۔ اعلیٰ حضرت ۔ لوئی ۔ اتنے سہمے ہو ئے کیوں ہو؟ میرا بیو۔ اعلیٰ حضرت موسم اچھا ہے لیکن ۔۔ لوئی کی آواز ۔یہ سب چیزیں اٹھا کر لے جاؤ ۔ ملکہ کے کپڑے ۔ ملکہ کا ہار اور تین لاکھ فرانک کا بل ، سب لے جاؤ ، تخلیہ ۔ (قدموں کی چاپ ) لوئی ۔ لیکن کیا ؟ میرا بیو ۔ پیرس میں موسم ٹھیک نہیں ، اعلیٰ حضرت ! لوئی۔ اورسائی اور پیرس میں ایک ہی موسم ہونا چاہیے کچھ زیادہ فاصلہ تو نہیں ؟ میرا بیو ۔ اعلیٰ حضرت پیرس اور ورسائی میں بہت فاصلہ ہے ‘‘ ۔ لوئی ۔یعنی۔ میرا بیو ۔ اعلیٰ حضرت پیرس میں لوگ انقلاب کی تیاریاں کررہے ہیں۔

آج ۴۱ جولائی ہے سنا ہے کہ آج جمہوریت پسند بستائیل پر حملہ کرنے والے ہیں ‘‘قدموں کی چاپ ۔انطونیہ اندر داخل ہوتی ہے ۔ قدموں کی چاپ انطونیہ ۔ مانشور میرابیو کیسا حملہ ۔ اعلیٰ حضرت ! پیرس کے باغیوں کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ انطونیہ ۔ جمہوریت پسندوں کو کچل دیا جائے گا ۔ مجلس ملی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔ میرابیو۔میں فرانس کے تاج و تخت کا محافظ ہوں ۔ لیکن میں ان درباریوں کی طرح نہیں ہوں جو اعلیٰ حضرت اور ملکہ معظمہ کو صحیح واقعات سے غافل رکھیں ۔میرے نزدیک تو عوام کے مطالبات تسلیم کرنے سے تاج و تخت اور مضبوط ہوتا ہے۔ انطونیہ ۔ ہاں تو مانشور میرابیو حملہ کہاں ہو رہا ہے ۔ اعلیٰ حضرت ، بستائیل پر۔ انطونیہ بستائیل؟جمہوریت پسند ایسا نہیں کرسکتے ۔ وہ کمزور ہیں ۔ وہ اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں ۔ بستائیل کا محافظ اعلیٰ دی لانی ان اطلاعات کو غلط ثابت کرچکاہے ۔ بستائیل کے بہادر پہرہ دار لاکھوں جمہوریت پسندوں کو موت کی نیند سلاسکتے ہیں۔ میرا بیو ۔ اعلیٰ حضرت ! فرانس کے دامن پر بستائیل ایک بد نما داغ ہے ۔

پیشتر اس سے کہ انقلاب کا خونیں ہاتھ اس داغ کو مٹانے کے لیے سارے دامن کو سر خ کر دے شا ہ فرانس کو بڑھ کر اس دھبے کو مٹا دینا چاہیے ‘‘ لوئی۔ میں بھی اسی مسئلہ پر غور کر رہاہوں ۔ انطونیہ ۔ بستائیل کا خالی ہوجانا تاج فرانس کا زمین پر گر پڑنا ہے ۔لوئی ۔ مانشور میرابیو ! عوام میں آپ کا کافی رسوخ ہے کیا آپ کچھ مدد نہیں کرسکتے ؟ میرا بیو ۔ اعلیٰ حضرت ! میں حاضر ہوں ۔ انطونیہ ۔ ہمیں فرانسیسی فوج کی سنگینوں پر بھروسہ ہے ۔ میں ان جمہوریت پسندوں کو ایک پل میں کچل دوں گی ۔ خادم اندر داخل ہوتا ہے ۔ قدموں کی چاپ ۔ خادم ۔ اعلیٰ حضرت ! جو ہری شر ف ملاقات کے لیے حاضر ہو ئے ہیں ۔ انطونیہ ۔ انھیں بٹھا ؤ ۔ ملکہ دوسرے کمرہ میں چلی جاتی ہے ۔

قدموں کی چاپ۔ لوئی ۔ مانشور میرا بیو ! ان حالات میں کیا کیا جائے ؟ میرا بیو۔ اعلیٰ حضرت ! میرے سامنے بہت سی دشو اریاں ہیں ۔ میں انسانیت کی خد مت کے لیے کمربستہ ہوں۔ لیکن میرا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ۔ صرف حق و صداقت میرے ہتھیار ہیں ۔ حق و صداقت کا دشمن میرا دشمن ہے ۔ میں عوام اور بادشاہت میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں ‘‘ْ لوئی (گھبرا کر ) یہ کیسا شور ہے ؟ میرا بیو۔ اعلیٰ حضرت پیرس میں آج جمہوریت پسند جمع ہو رہے ہیں ۔ کچھ ادھر سے گذر رہے ہوں گے ‘‘ شہزادی اندرداخل ہوتی ہے قدموں کی چاپ۔ شہزادی ۔ پاپا ، لوگ باہر کیوں شور مچا رہے ہیں ؟ لوئی ۔ روٹی مانگتے ہیں بیٹی ، شہزادی ۔ اُنہہ ، روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔ لوئی ۔ میرا بیو ! معاملہ کچھ ٹیڑھا نظر آتا ہے ۔ جونو ۔اعلیٰ حضرت ! جمہوریت پسندوں نے بستائیل پر قبضہ کر لیا ۔ لوئی۔ غدر ہوگیا کیا ؟ میرابیو ۔ نہیں اعلیٰ حضرت ، یہ انقلاب ہے ۔

فرانس کا انقلاب دنیا کا پہلا عوامی انقلاب تھا جس نے دنیا کو بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا اوراس کے جراثیم پوری دنیا میں پھیل گئے ۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے متعدد ممالک میں عوامی حاکمیت قائم ہوگئی ، یہ انقلاب ایک دن میں نہیں آیا بلکہ یہ سالوں کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ تھا پہلے پہل فلسفیوں اور ادیبوں نے سالوں اپناکام کیا ۔ جب عوام ذہنی طورپر تیار ہوگئے تو انقلاب لے آئے ۔ انقلاب کے لغوی معنی تبدیلی ،دوررس تبدیلی کے ہیں ایسی تبدیلی جو تاریخی، روایتی ، سماجی اور نظریاتی پس منظر کو یکسر بدل ڈالے اور معاشرے کے افراد کی زندگیوں کو نئے قالب میں ڈھالنے کا موجب ہو۔

انقلاب کا پہلا لازمہ وہ قربانیاں ہوتی ہیں جو مقصد کے حصول کے لیے دی جاتی ہیں، سماجی انقلاب سے پہلے فکری انقلاب لانا پڑتا ہے ۔ انقلاب ضروری ہے کیونکہ ایک تو غاصب طبقے کو اس کے سوا کسی اور طریقے سے ہٹایا ہی نہیں جاسکتا دوسرے انقلاب کے دوران میں عوام اپنے آپ کو پرانے معاشرے کی گھن سے پاک کرکے نئے معاشرے کی تعمیر کرسکتے ہیں ، انقلابی صورت حال کی تین شرائط ہیں ۔ (۱)  عوامی غربت اور بدحالی (۲) عوام کا بڑھتا ہوا سیاسی شعور (۳) مقتدر طبقے کا بحران جو ان کے قصر اقتدار کو متزلزل کر دیتا ہے۔

ارسطو کہتا ہے کہ انقلاب بڑی بڑی باتوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں کچھ عرصے سے انقلاب اور تبدیلی کی باتیں ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکی ہیں ۔ انقلاب اور تبدیلی کی خواہش رکھنا ایک مثبت عمل ہے لیکن صرف خواہش سے نہ انقلاب آتا ہے اور نہ ہی تبدیلی ،بڑے بڑے محلوںاور شاہانہ زندگی گذارنے والوں سے انقلاب اور تبدیلی کی باتیں عجیب معلوم ہوتی ہیں کیونکہ جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بھوک ، غربت اور افلاس کس بلا کا نام ہے ۔ دھکے کھانا، ذلیل و خوار ہونا ترسنا اور تڑپنا کیا ہوتا ہے۔

انقلاب کا لبادہ اوڑھنے والے یہ نام نہاد انقلابی بے نقاب ہوچکے ہیں عوام ان ڈھونگیوں کو اچھی طریقے سے جان چکے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام اپنا کام خودکر رہے ہیں عوام کا بڑھتا ہوا سیاسی شعور اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ انقلاب کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں وہ موجودہ بدبودار ، گھناؤنے، شرمناک معاشرے کو پاک کرکے نئے معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں ، کامیابی ان کا مقدر ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔