اسرائیلیوں کی ’’رحم دِلی‘‘

محمد عثمان جامعی  ہفتہ 24 جنوری 2015
جب اسرائیلی فوجیوں نے  لوگوں کو نقل مکانی کا حکم دیا تو بوڑھی اور کم زوری کے باعث ہڈیوں کا ڈھانچا بن جانے والی خاتون نے یہ سوچ کر حکم ماننے سے انکار کردیا۔ کہ آخر اسرائیلی ہیں تو انسان ہی نا، اس کے بڑھاپے پر انھیں ترس آہی جائے گا۔ فوٹو: ایجنسیز

جب اسرائیلی فوجیوں نے لوگوں کو نقل مکانی کا حکم دیا تو بوڑھی اور کم زوری کے باعث ہڈیوں کا ڈھانچا بن جانے والی خاتون نے یہ سوچ کر حکم ماننے سے انکار کردیا۔ کہ آخر اسرائیلی ہیں تو انسان ہی نا، اس کے بڑھاپے پر انھیں ترس آہی جائے گا۔ فوٹو: ایجنسیز

یہ تصویر دیکھیے، اسرائیلی فوجی کس احترام اور کتنی محبت سے بوڑھی فلسطینی خاتون کو پانی پلا رہا ہے۔ اگر آپ یورپ اور امریکا کی سرد اور فلسطینیوں کے لیے سرد ترین فضا میں رہتے ہیں، گورے ہیں، مسلمان نہیں، تو اسرائیلیوں کی رحم دلی پر آپ کی نیلگوں آنکھوں میں نمی تیر جائے گی اور دل کہہ اٹھے گا کہ ’’کتنے اچھے ہیں اسرائیلی، اور کیسے ظالم ، بے مہر، وحشی یہ غزہ کے باسی جو اِن شریف النفس لوگوں پر راکٹ برساتے ہیں۔‘‘ اور اگر آپ کسی مسلم دیس کے اسرائیل سے متنفر ہیں تو بھی اسرائیلیوں کے لیے دل کچھ نہ کچھ تو نرم ہو ہی جائے گا، ہے نا۔

اُسی نمی اور اِسی نرمی کے لیے تو یہ تصویر بنائی گئی ہے اور یہ رحم دلی اس منظر کو عکس بند کیے جانے تک ہی ہے، جانتے ہیں یہ تصویر اترتے ہی کیا ہوا؟ اس 74 برس کی بوڑھی ناتواں عورت کو تصویر کردیا گیا۔ جن ہاتھوں نے اُس کی پیاس بجھائی تھی، اُن ہی نے ہاتھوں نے تصویر اُترواتے ہی اِس کے سفید سر میں گولی اتار دی۔

یہ ذکر ہے گذشتہ سال کے موسم گرما کا، جب اسرائیل سے اُڑنے والے طیارے بموں کی صورت میں غزہ کی پٹی پر اپنی نفرت برسا رہے تھے، اسرائیلی شیل فلسطینی بچوں کو خون میں نہلارہے تھے اور صہیونی ریاست کے فوجی ارض غزہ پر دندناتے اور ظلم کی داستانیں رقم کرتے پھر رہے تھے۔ شاید ہوا یوں کہ ان دندناتے فوجیوں میں سے کسی ایک نے جنوبی غزہ کے قصبے خُزاعۃ میں ضعیف فلسطینی عورت غالیہ ابو ردا کو کھلے آسمان تلے بے یارومددگار بیٹھے دیکھا اور اس کے نجیب الطرفین سازشی ذہن نے یہ منصوبہ بنایا، یا پھر اُن اسرائیلی فوجیوں کو امن کی فاختہ ثابت کرنے کے لیے اس نوعیت کی کارروائی کی ہدایت ملی تھی، جو بھی ہو، فوجی بوڑھی اور نحیف غالیہ کے پاس گیا اور اپنی پانی سے بھری بوتل اس کے ہونٹوں سے لگادی۔ اِدھر غالیہ کے ہونٹ تر ہوئے اُدھر اس کا بدن اپنے خون سے تربہ تر ہوگیا۔ پتا نہیں اسے پیاس بجھنے پر خدا کا شکر اور پانی پلانے والے کا شکریہ ادا کرنے کا موقع بھی ملا یا نہیں یا وہ ہونٹ پیاس کے ساتھ ہی بجھ گئے۔

آن کی آن میں ’’بوڑھی فلسطینی عورت کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلاتے اسرائیلی سپاہی‘‘ کی تصویر اسرائیل پہنچ گئی اور اسرائیلی فوج کے ترجمان Avichay Adraee نے اس تصویر کو ٹوئٹر پر شیئر کیا، اسرائیلیوں کی انسان دوستی اور رحم دلی کے مظہر کے طور پر۔

صہیونیوں کی نام نہاد انسانیت کا پردہ اس وقت چاک ہوگیا جب الاقصیٰ ٹی وی سے وابستہ صحافی احمد قدیح سچ سامنے لے آئے جو اس سفاکانہ پروپیگنڈا مہم کے عینی شاہد تھے۔احمد قدیح کہتے ہیں،’’غالیہ احمد ابو ردا اسی علاقے میں رہتی تھی جہاں میں رہائش پذیر ہوں اور میں نے اس واقعے پر ایک ٹی وی اسٹوری بنائی‘‘۔

اولاد کی نعمت سے محروم بڑھاپا گزار کر سنگ دلی سے مار دی جانے والی غالیہ کے بھتیجے ماجد ابوردا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ غالیہ تقریباً نابینا تھی اور بہ مشکل دیکھ پاتی تھی۔ جب غزہ پر ہلہ بولنے والے اسرائیلی فوجیوں نے خزاعۃ میں داخل ہوکر اس قصبے کے باسیوں کو نقل مکانی کا حکم دیا، تو بوڑھی اور کم زوری کے باعث ہڈیوں کا ڈھانچا بن جانے والی غالیہ نے اپنا چھوٹے چھوٹے سفید اُجڑے بالوں والا سر ہلا کر یہ حکم ماننے سے انکار کردیا۔ اس نے اپنا گھر نہیں چھوڑا، شاید یہ سوچ کر کہ اسرائیلی ہیں تو آخر انسان ہی نا، اس کے بڑھاپے پر انھیں ترس آہی جائے گا۔

یہ واقعہ اسرائیلی پروپیگنڈے کا شاہ کار ہے۔ ایسی تصویریں اسرائیل کا ہم درد مغربی میڈیا بڑی چابک دستی سے صہیونی ریاست کے مکروہ چہرے کو روشن بنانے کے لیے پیش کرتا ہے، مگر یہ تصاویر پوری حقیقت ساری کہانی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہیں اور یہ سب صرف اسرائیلی ہی نہیں کررہے بلکہ پروپیگنڈے کی اس دنیا میں ہر استحصالی اور ظالم قوت ایسی ہی عیاری سے اپنے شیطانی کرتوتوں کی نقاب پوشی کرتی اور خود کو فرشتہ صفت بناکر پیش کرتی ہے۔

تو صاحب! یاد رکھیے، ہم ’’جھوٹ یُگ‘‘ میں جی رہے ہیں، جہاں ہزار الفاظ پر بھاری تصویر اتنا ہی بڑا جھوٹ ہوسکتی ہے، جہاں اسکرین پر متحرک منظر محض فریب نظر ہوسکتا ہے اور لفظوں کا تو کیا کہنا ۔۔۔۔۔ جھوٹ کے بیوپاری لفظوں کا کھیل اس کمال سے کھیلتے ہیں کہ روشن حقائق بھی جھوٹ کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ سو ہمیں اس جھوٹ یگ میں جیتے ہوئے سماعت اور بصارت پر ہر لمحے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو فوقیت دینا ہوگی۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔