طوقِ زرّیں ہمہ در گردنِ خر می بینم

رئیس فاطمہ  اتوار 25 جنوری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

خواجہ شمس الدین محمد حافظؔ شیرازی کا شمار فارسی کے بلند پایہ شعرا میں ہوتا ہے لیکن ’’لِسان الغیب‘‘ کا خطاب شاید ہی کسی اور کو ملا ہو۔ حافظؔ نے اپنے والد بہاء الدین کی قرأت سن کر قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ اسی طرح انھوں نے سعدیؔ شیرازی، نظامی گنجوی اور فریدالدین عطّار رومی کی بیشتر تخلیقات کو بھی ازبر کر لیا تھا۔ غالباً اسی مناسبت سے وہ ’’حافظ‘‘ کہلانے لگے کیونکہ انھوں نے حافظہ غضب کا پایا تھا۔ بعد میں پھر یہی ان کا تخلص قرار پایا۔

اپنے والد کے انتقال کے بعد حافظؔ نے تنگ دستی کی وجہ سے مدرسے جانا بھی بند کر دیا تھا کیونکہ والد اپنے پیچھے بہت سا قرضہ بھی چھوڑ گئے تھے۔ مفلسی کے باعث انھوں نے رفوگری کا کام بھی کیا اور بیکری میں ملازمت بھی کی۔ حافظؔ کی پیدائش 1310 اور 1325 عیسوی کے دوران ہوئی۔ ان کا انتقال 1388ء یا 1389ء کے درمیان ہوا۔ حافظ کے کلام میں جو سوچ نمایاں ہے وہ مذہبی منافقت کے حوالے سے ہے۔ حافظؔ ان انسانی رویوں کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔

جہاں دکھاوا اور فکری تضادات نمایاں ہوں۔ چند دن پہلے اچانک حافظؔ کی ایک غزل کاغذات میں سے نکلی جسے ولایت علی اصلاحی کے لیے دیوانِ حافظؔ سے نقل کیا گیا تھا۔کاغذات کی چھانٹی کے دوران غزل پھر پڑھی تو ایسا لگا کہ وہ تو واقعی ’’لِسان الغیب‘‘ تھے۔ ان پر اللہ کی مہربانی تھی کہ آج تک لوگ ان کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ غزل حافظؔ نے آج کے پاکستانی معاشرے کے لیے لکھی تھی۔ ذرا پہلے غزل ملاحظہ ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘

ایں چہ شوریست کہ در‘ دورِ قمر می بینم
ہمہ آفاق پُر از فتنہ و شر می بینم
ہر کسے روزِ بہی می طلبد از ایّام
مشکل ایں اَست کہ ہر روز تبر می بینم
ابلہاں را ہمہ شربت ز گلاب و قند است
قوتِ دانا ہمہ از خون جگر می بینم
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردنِ خر می بینم
دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر
پسراں را ہمہ بدخواہ پدر می بینم
ہیچ رحمے نہ برادر بہ برادر دارد
ہیچ شفقت نہ پدر را بہ پسر می بینم
پند حافظؔ بشنو خواجہ برو نیکی کن
زانکر ایں پند بہ از دُرّ و گُہر می بینم

سب سے پہلے شعر نمبر 4 کا مفہوم دیکھئے۔ حافظؔ فرماتے ہیں کہ اسپ تازی، یعنی اعلیٰ عربی نسل کا گھوڑا گدھے پر ڈالنے والے نمدے (پالان) سے زخمی ہو گیا اور سونے کے طوق زریں تمام تر گدھوں کی گردن میں ڈال دیے گئے۔ میں یہ سب ناانصافی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور افسردہ ہوں۔ اب اسی شعر کے پس منظر میں چند دن پہلے کی یہ خبریں یا سرخیاں ملاحظہ کیجیے۔

’’وزیر اعلیٰ سندھ کا دباؤ، ہزاروں ایکڑ اراضی واگزار کرانے والے افسر کے خلاف رشوت ستانی کا مقدمہ درج۔ ذمے دار افسر نے ہائی کورٹ کے حکم پر 6 ہزار ایکڑ اراضی واگزار کروائی لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کا دباؤ تھا کہ بااثر شخصیات کے زیر قبضہ اراضی کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔ گریڈ 20 کے صوبائی محکمہ جنگلات کے سربراہ کو وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر راتوں رات رشوت ستانی کے مقدمے میں ملوث کر دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ سادہ لباس اہلکاروں نے انھیں دفتر سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا آنکھوں پہ پٹی باندھ کر کئی گھنٹوں تک غیر انسانی سلوک بھی کیا گیا۔‘‘

کیا ہم سب نہیں جانتے کہ یہ ’’با اثر شخصیات‘‘ کون ہیں؟ ان با اثر شخصیات کا گھناؤنا کاروبار سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، گلستان جوہر کے بیشتر بلاکس اور مین یونیورسٹی روڈ اور اس سے ملحقہ اراضی ہے جہاں یہ پیر، فقیر، گدی نشین، اپنے اپنے ہتھیار بردار غنڈوں کے بل بوتے اور ’’اعلیٰ سرکاری شخصیات کی سرپرستی میں قابض ہیں یعنی گدھوں کی گردنوں میں ایوارڈ و انعامات اور ذمے دار افسران کی یہ درگت کہ وہ گدھے کی پیٹھ پہ رکھے جانے والے کھردرے کپڑے سے زخمی۔ اور اب دیکھئے شعر نمبر 3 کو۔ حافظؔ یہ دیکھ کر بد دل ہو رہے ہیں کہ احمق، ناکارہ اور بے وقوفوں کے لیے گلاب اور قند کا شربت تیار ہے، جو وہ آہستہ آہستہ آرام سے پی رہے ہیں لیکن بدنصیبی یہ کہ عقل مندوں، ذہین و فطین لوگوں کی روزی کا دارومدار صرف خون جگر پینے تک ہے۔ سرکار کے چہیتوں کے لیے ہر عیش و آرام لیکن جفاکش محنتی اور ایمان داروں کے لیے صرف سزاؤں کا عذاب۔ اب اس شعر کو ذرا اس خبر پہ منطبق کر کے دیکھئے تو مفہوم دوبالا ہو جاتا ہے۔

’’پٹرول بحران۔ وزرا کو کلین چٹ، اوگرا ذمے دار۔‘‘

کچھ چہیتے لوگوں نے اپنی سیٹیں پکی کرنے اور رشتے داریاں نبھانے کے لیے ایک نہایت معنی آفریں بیان دیا جس کے تحت ’’پٹرول کا بحران موجودہ حکومت کے خلاف ایک سازش ہے۔‘‘ کیا ہمیں بتایا جائے گا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتیں، سانحہ پشاور اور کراچی میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ بھی کیا حکومت کے خلاف ’’سازش‘‘ ہے۔ ویسے یہاں ایک محاورہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ’’طویلے کی بلا بندر کے سر‘‘ بندر طویلے میں پالے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی بلا آئے تو بندر اس کا شکار ہو۔ طویلے کے جانور محفوظ رہیں۔

اور اب ذرا مجموعی طور پر اس غزل کے مفاہیم پہ غور کیجیے۔ حافظؔ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ دور قمر میں ایک نحوست کا شور فتنہ و فساد اور شر سے پُر دور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر شخص کا عجب حال ہے کہ ہر شخص بہتر دن اور بہتر زمانہ چاہتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ میں ہر روز کو بد سے بدتر دیکھ رہا ہوں۔ یہاں گدھوں کو گھوڑوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور نااہلوں کو زیرک و دانا ایماندار لوگوں پر۔ کیسا برا زمانہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ پورا معاشرہ اتھل پتھل ہے۔ بیٹیاں ماؤں کی پرواہ نہیں کرتیں، اور ماؤں کو بھی ان کی بہتری کا خیال نہیں، جوان بیٹے باپ سے پنجہ آزمائی پہ آمادہ ہیں۔ وہ باپ کی ایک نہیں سنتے۔ تمام لڑکے باپ کے بدخواہ ہیں۔ بھائی کو بھائی پہ کوئی رحم نہیں آتا۔ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کو مصیبت میں ڈالتا ہے۔ اور اس کے لیے زندگی اجیرن کرتا ہے۔

ناکارہ، بدقماش، بے صبرے، منافق، موقع پرست لوگ بڑے بڑے عہدوں پہ مامور ہیں اور محلات میں فروکش ہیں۔ لیکن محنتی، جفاکش اور تعلیم یافتہ، ہنرمند ذلیل و خوار ہیں۔ منصب شاہی پہ وہ لوگ براجمان ہیں جن کی اوقات طویلے کے رکھوالوں کی تھی۔ افسوس، افسوس۔ اے ناسمجھ خواجہ حافظؔ کی نصیحت پہ کان دھر اور سن کہ نیکی کرنا وہ عمل ہے جو لعل و گُہر سے بھی بڑھ کر ہے ۔ اس لیے اے نادان اگر حقیقی خوشی اور عزت چاہتا ہے تو خدا سے لو لگا اور اس کے احکامات پہ عمل کر۔ نیکی کر۔ بغیر کسی غرض کے۔ کہ یہی ایک عمل تجھے جہنم کے دروازے سے دور کر کے جنت کی بشارت دے سکتا ہے۔ نیکی کر اور بھول جا۔ کہ یہی خدا چاہتا ہے۔ کہ نیکو کاروں کو حیات ابدی عطا کی گئی ہے۔ وہ جسمانی موت کے بعد بھی زندہ و تابندہ رہتے ہیں۔ صوفیائے کرام اور ولیوں کی طرح۔ پس نیکی کر کہ یہی راہ نجات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔