آپ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 24 جنوری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کسی ملک کا بادشہ شکار پر گیا مگر کسی جانور کا پیچھا کرتے کرتے وہ اپنے مصاحبوں سے آگے نکل گیا اور اس کاگھوڑا جنگل سے نکل کر قریبی آبادی کے نواح میں ایک باغ میں چلا گیا۔

باغ میں اناروں کے درختوں کے جھنڈ کے پاس اسے ایک نوجوان لڑکی نظر آئی بادشاہ نے اسے پکارا اور اس سے پانی مانگا، لڑکی نے یہ نہ جانتے ہوئے کہ ملک کا بادشاہ اس سے مخاطب ہے، پوچھا کہ پانی کی بجائے اگر وہ انار کا رس پینا چاہے، تو!! بادشاہ نے حامی بھری تو لڑکی نے دو لال انار توڑے اور انھیں نصف کر کے اپنے ہاتھ سے دبا کر رس نکالا، پیتل کا بڑا سا گلاس لبالب بھر گیا، اس نے گلاس اجنبی کی طرف بڑھایا جسے وہ اجنبی چند منٹ میں غٹاغٹ خالی کر گیا، ’’ واہ کیا لذیذ رس ہے!‘‘ بادشاہ نے تعریف کی، دل ہی دل میں سوچا کہ ایسے انار تو اس کے شاہی محل کے باغات میں ہونے چاہئیں۔

لڑکی نے پوچھا کہ اگر اسے ایک اور گلاس انار کا رس چاہیے تو… بادشاہ نے انکار نہیں کیا اور گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ اس لڑکی نے دوبارہ دو خوبصورت انار توڑے اور انھیں پہلے کی طرح دو ٹکڑے کر کے اپنے ہاتھوں سے دبا کر رس نکالا، اس کی حیرت دیدنی تھی جب گلاس بمشکل نصف تک بھر سکا۔ اس نے اجنبی کی طرف گلاس بڑھایا، اس کے چہرے پر سوچ تھی۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ پہلی بار تو اناروں سے گلاس لبالب بھر گیا تھا اور دوسری دفعہ میں اسی طرح کے دو اناروں سے گلاس آدھا کیوں بھر ا تھا !! لڑکی نے منہ ہی منہ میں بڑ بڑا کر کہا، ’’ لگتا ہے کہ اس ملک کے بادشاہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے ‘‘ بادشاہ اس لڑکی کے فقرے پر حیران رہ گیا، ’’ جب کسی ملک کے بادشاہ کی نیت میں فتور آ جاتا ہے تو اس ملک سے برکت اٹھ جاتی ہے!‘‘ یہ واقعہ ہمارے ملک کے حالات کے تناظر میں کس قدرحقیقت ہے۔

پٹرول کا حالیہ بحران، ملکی تاریخ کے بد ترین بحرانوں سے بھی بڑھ کر واقع ہوا ہے، ابھی اس سے آگے کئی اور مصائب ہمارے منتظر ہوں گے مگر اس حالیہ مسئلے نے حکومت کی بد نیتی کو ہم پر ثابت کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں پٹرول دن بدن سستا ہو رہا ہے اور جونہی قیمت گرتی ہے، نئی قیمت کا اطلاق ہو جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں ایک مہینے کی پانچ تاریخ کو اعلان کیا جاتا ہے کہ آیندہ ماہ کی یکم کو پٹرول مزید دس روپے سستا کر دیا جائے گا، یکم تک پرانے نرخوں پر تیل کمپنیاں اور حکومت اپنی ملی بھگت سے ہمیں لوٹتے رہتے ہیں اور یکم کو قیمت پانچ سے چھ روپے تک کم کر دی جاتی ہے۔ اس میں سے کتنا مال کس کس کی جیبوں میں جاتا ہے، شاید سبھی جانتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں آنے والا ہر حکمران ملک سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا رہا ہے، ہم نے ماضی میں بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، بہت بچپن میں ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب آٹا، گھی اور چینی بھی راشن ڈپوؤں پر راشن کارڈ پر درج کوٹے کے مطابق ملتی رہی ہے۔ جب ہم اپنے ملک میں پیدا ہونیوالے اناج کی اسمگلنگ کر دیں گے تو یہی ہو گا، پھر وہ ادوار بھی دیکھے ہیں جب کسی جنس کے نرخ اس کی وافر پیداوار کی وجہ سے کم ہو جاتے ہیں تو لوگ اسے بیچنے کی بجائے ذخیرہ کر کے اس کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر وہی جنس عوام کے مطالبے اور ضرورت کے باعث مہنگے داموں بکنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس کی بہت اہم وجہ یہ ہے کہ ان اجناس کے بڑے بیوپاری عموما ہمارے حکمران ہی رہے ہیں، ملک چلانے سے زیادہ فکر انھیںاپنی آٹے اور چینی کی ملیں چلانے کی ہوتی ہے، وہ ملک کی ہر بڑی انڈسٹری کے مالکان ہیں، نہ صرف ملک میں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ان کے کاروبار ہیں۔ جن مماک میں ان کی فیکٹریاں ہیں ان ممالک سے ان کے تعلقات دوستانہ ہیں اور اس دوستی میں وہ ہر حد تک جانے کو تیار ہیں کیونکہ یہی ممالک انھیں اس وقت پناہ دیتے ہیں جب اقتدار کی کرسی انھیں دغا دے جاتی ہے۔

کوئی سابقہ حکمران اگر یہ دعوی کرے کہ ان کے دور حکومت میں پٹرول پر انتہائی حد تک سبسڈی دی جاتی رہی ہے تاکہ عوام کو ریلیف ملے، درست ہے مگر ان کے ادوار میں ملک کسی اور بحران کا شکار رہا، آٹے اور چینی کا بحران رہا ہو گا، کیونکہ آپ لوگوں نے جان لیا ہے کہ اس ملک کے عوام کو مسائل میں الجھا کر ہی اپنا دور حکومت پورا کیا جا سکتا ہے۔کوئی قدرتی آفت آتی ہے یا سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے تو حکومت بے بسی کا اظہار کر دیتی ہے، دوسرے ممالک سے بھیک مانگی جاتی ہے یا عوام کو اپنے مسائل خود ہی حل کرنا پڑتے ہیں، ان کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ جانے ان کے دستر خوان پر تیس ڈشیں ہوں گی کہ نہیں۔ کیا دور ہے اور دنیا ہماری طرف کس طرح دیکھتی ہے جب وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے سربراہ اپنے ساتھ غیر ملکی دوروں پر اپنے باورچی بھی ساتھ لے جاتے ہیں ۔

سرکار… ذرا اپنے محلوں سے نکل کر اس ملک کی سڑکوں کی حالت دیکھیں ، میٹرو کے منصوبوں سے اہم کیا مسائل ہیں ان پر نظر کریں، اس ملک کے نظام تعلیم، علاج معالجے کے مسائل اور اسپتالوں کی صورت حال دیکھیں، کبھی دیکھیں کہ موجود سڑکوں کی حالت زار کیا ہے کہ نہ صرف گاڑیوں بلکہ انسانوں کے کل پرزے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ پٹرول کے بحران سے کتنے گھروں میں چولہے نہیں جلتے… آپ نہیں جانتے، کیونکہ آپ جاننا ہی نہیں چاہتے۔

آپ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار اسکیموں میں ٹیکسیاں ، رکشے اور ویگنیں تو دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں چلانے کے لیے پٹرول اور سی این جی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے بچے کتنے دنوں سے اسکول نہیں جا سکے ہیں، پہل ے سیکیورٹی کے مسائل کے باعث آپ نے اسکول بند رکھے اب گاڑیوں میں پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث۔ آپ کسی ایسے آسمان پر رہتے ہیں جہاں سے عوام زمین پر رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں کی طرح بھی دکھائی نہیں دیتے ، ان کے مسائل کیا نظر آئیں گے؟؟

پانی، بجلی، گیس، دوائیں، اجناس، پٹرول وغیرہ ہماری بنیادی ضروریات ہیں اور حکومت کی ذمے داری کہ وہ عوام کو ان اشیاء کی ترسیل بلا تعطل کرے مگر جہاں حکمران اپنے مفادات کے پجاری ہوں وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے، جہاں ملک کو انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں بلکہ کاروباری مرکز سمجھ لیا جائے وہاں وہی ہوتا ہے جو اس ملک میں ہو رہا ہے۔ آپ اپنی استراحت گاہوں سے نکلیں، ملک کا جغرافیہ لاہور سے باہر بھی ہے۔ یہ جانیں، تو آپ کو علم ہو کہ کسی گھر میں فاقہ ہو تو رات کس طرح کٹتی ہے، افلاس میں بیماری کا تڑکا بھی ہو تو زندگی کس طرح جہنم بنتی ہے، اگلے پل کہاں سے گولی لگ جائے یا کون لوٹ لے، بچے گھر سے کھیلنے نکلیں یا تعلیم حاصل کرنے… لوٹ کر آئیں گے یا نہیں!! ایسی بے یقینی ہو تو ذہنی اور جسمانی عارضے کیسے لاحق ہو جاتے ہیں۔ آپ کے عوام تو کال کوٹھڑیوں جیسے حالات میں جی رہے ہیں، آپ سکون سے سو کیسے جاتے ہیں ؟؟؟

خود کو بڑے کامیاب حکمران سمجھ رہے ہوں گے آپ!!! جو اس وقت آپ کے ساتھ ہیں، وہ آپ کے کرسی سے اترتے ہی اپنی پارٹیاں تبدیل کر لیں گے تا کہ جونکوں کی مانند ہمارا خون چوستے رہیں اور کچھ نہیں تو کچھ خوف خدا کا کریں کہ جس کے رو برو آپ نے ایک دن کھڑا ہونا ہے اور ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے… تھر میں غذائی قلت سے مرنیوالا ایک شیر خوار بھی آپ کا گریبان پکڑے گا ، وہ بھی کہ جسے طبی سہولتیں میسر نہ تھیں اور وہ آپ کی غفلت کے باعث موت کا شکار ہو گیا اور وہ بھی جو پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث ایمبولنس نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا… اتنا لال دامن لے کر آپ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔