قوموں کی عزت ہم سے ہے

رقیہ اقبال  اتوار 25 جنوری 2015
بیتے سال کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی خواتین۔ فوٹو : فائل

بیتے سال کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی خواتین۔ فوٹو : فائل

سال 2014 میں پاکستانی خواتین کا کردار وطن عزیز کے افق پر جگمگاتے ستاروں کی مانند رہا۔

کچھ نئے چہرے اپنی کام یابیوں کے باعث اخبارات کی زینت بنے تو کچھ پرانے چہرے نئی کام یابیوں کے ساتھ منظر عام پر آئے اور صنف نازک کی عزم وہمت اور بلند حوصلے کی مثال قائم کرگئے۔

صحافتی میدان ہو یا تعلیمی سرگرمیاں، برفانی بلند وبالا چٹانوں کو زیر کرنا ہو یا مواچھ گوٹھ جیسے کچے علاقے میں علم کی شمعیں روشن کرنی ہوں، خواتین ہر دوڑ میں آگے رہیں۔ جب چٹانوں کو چٹانوں جیسے حوصلے والی لڑکی کے سامنے زیر ہونا پڑا تو اندھیروں کی کیا مجال کہ زیادہ دیر ٹھہر سکیں، سویرا آہستہ آہستہ چہار سو اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے، اس دھرتی کو منور کرنے کے لیے، پھر کبھی نہ اندھیروں میں ڈوبنے کے لیے۔

ذیل میں دنیا بھر کی اور چند پاکستانی باصلاحیت اور باہمت خواتین کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی کام یابیوں نے 2014 کو روشن کردیا ہے۔

٭عاصمہ شیرازی:
سال 2014 کا پیٹر میکلر ایوارڈ جیتنے والی عاصمہ شیرازی پاکستان کی پہلی خاتون اور پہلی صحافی ہیں۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کی جرأت مندانہ اور بااخلاق صحافت پر 23 اکتوبر 2014 کو واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں دیا گیا۔ پیٹر میکلر فرانسیسی خبررساں ادارے ایجنسی فرانس پریس (AFP) کے سربراہ اور معروف صحافی رہ چکے ہیں اور 2008 سے یہ ایوارڈ ان کی یاد میں ہر سال دنیا بھر سے کسی ایک صحافی کو گلوبل میڈیا فورم، میڈیا واچ ڈوگ رپورٹر ودھ آؤٹ بارڈرز اور اے ایف پی کے اشتراک سے دیا جاتا ہے۔

پیٹر میکلر ایوارڈ یافتہ عاصمہ شیرازی کئی معروف ٹی وی ٹاک شوز کی میزبان رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستان کی پہلی جنگی رپورٹر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ وہ 2006 میں لبنان اسرائیل جنگ، 2007 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجینسی کے نفاذ کی اور 2009 میں پاک افغان بارڈر پر طالبان کے تشدد کی رپورٹنگ بھی کرچکی ہیں۔

٭رانیہ حسین:
لاہور سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ رانیہ حسین نے کامن ویلتھ سوسائٹی کے زیراہتمام دولت مشترکہ مقابلہ مضمون نویسی 2014 کی سنیئر فاتح کا اعزاز اپنے نام کیا۔ عالمی سطح پر منعقد کیے جانے والے اس مقابلے میں دولت مشترکہ کے 44 ملکوں کے 400 اسکولوں سے تقریباً 10,000 طالب علموں نے حصہ لیا۔ اور اس مقابلے کے ججز نے لگ بھگ 3500 منتخب مضامین میں سے رانیہ حسین کے مضمون کا انتخاب کیا۔ جو کہ ایک بہت بڑی جیت ہے۔

سنیئر فاتح رانیہ حسین کو ایک ہفتے جاری رہنے والی ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر برطانیہ مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈچز آف کارنیوال کمیلا پارکر نے کینیڈ، برطانیہ، سنگاپور اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چاروں فاتحین کو بیکھنگم پیلس میں سرٹیفیکٹ اور انعامات سے نوازا نیز انہیں شاہی محل کا دورہ بھی کروایا گیا۔

٭سدرہ اقبال:
گریٹ خواتین ایوارڈ 2014 اپنے نام کرنے والی پاکستانی میزبان اور صحافی سدرہ اقبال پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ بھارتی ٹی وی اکیڈمی کی جانب سے یہ ایوارڈ مڈل ایسٹ سے تعلق رکھنے والی 16 خواتین کو دبئی میں منعقدہ جی آر ایٹ خواتین کی چوتھی سالانہ تقریب میں دیا گیا جن میں سے ایک سدرہ اقبال بھی ہیں۔ سدرہ پاکستان ٹیلی ویژن سمیت کئی نجی چینلز پر بطور میزبان اور صحافی خدمات انجام دے چکی ہیں۔

اس کے علاوہ سنگاپور میں منعقد ہونے والے بھارتی فلم انڈسٹری کے آئفا ایوارڈ 2012 میں بھی انہوں نے میزبانی کی اور ایسا پہلی بار ہوا کہ آئیفا ایوارڈز کے ریڈ کارپٹ پر ایک پاکستانی اینکر میزبانی کے فرائض انجام دیتی نظر آئیں۔

سدرہ اقبال ایک بہت اچھی مقرر بھی ہیں اور انہیں 1999 میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بہترین مقرر کی شیلڈ بھی دی گئی تھی۔ بیوٹی ودھ برین کا خطاب پانے والی یہ خاتون میزبان اور صحافی اسکالرشپ پر آکسفورڈ یونی ورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکی ہیں۔ یہی نہیں بل کہ سدرہ وہ پہلی پاکستانی تھیں جنہوں نے لندن میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل اسپیکنگ کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے 58 شرکاء کو مات دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی اور پاکستان کا نام روشن کیا، جس کی بنا پر انہیں بکھنگم پیلیس میں شہزادہ فلپ کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔

٭ڈاکٹر ملیحہ لودھی:
اقوام متحدہ میں مستقل مندوب مقرر ہونے والی ڈاکٹر ملیحہ لودھی اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون مستقل مندوب ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فارن پالیسی ٹیم میں کسی خاتون کی پہلی سنیئر تقرری ہے۔

ڈاکٹر ملیحہ 1993 سے 1996 اور 1999 سے 2002 تک دو بار امریکا میں پاکستان کی سفیر رہیں۔ وہ 2003 سے 2008 تک برطانیہ میں بھی پاکستان کی ہائی کمشنر رہیں۔ 2001 سے 2005 تک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ایڈوائزری بورڈ کی رکن بھی رہیں۔

انہیں ان کی خدمات کے صلے میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ 1994 میں ٹائم میگزین نے 21ویں صدی کا نقشہ بدلنے والے دنیا بھر کے 100 افراد کی فہرست پیش کی، جس میں پاکستان سے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام بھی شامل تھا۔ ملیحہ لودھی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں کسی اخبار کی پہلی خاتون ایڈیٹر بنیں۔

٭ملالہ یوسف زئی:
9 اکتوبر 2012 کو انتہاپسندوں کا نشانہ بننے والی گل مکئی نے نوبیل امن پرائز2014 اپنے نام کروا کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی باعث فخر ہے کہ ملالہ نہ صرف پاکستان کی دوسری نوبیل ایوارڈ یافتہ شخصیت بن چکی ہیں بل کہ وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل ایوارڈ یافتہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے یہ ایوارڈ 1979 میں ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کی خدمات کے صلے میں دیا گیا تھا۔ ملالہ نے یہ ایوارڈ بھارت سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن کیلاش ستھیارتی کے ساتھ جیتا ہے۔

مجموعی طور پر انعامی رقم 14 لاکھ ڈالر ہے ، اور ملالہ کا یہ عزم نہایت ہی قابل تحسین ہے کہ وہ اس انعامی رقم کو اپنے آبائی گاؤں سوات اور شانگلہ میں بچوں اور خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں پر خرچ کریں گی۔ ملالہ اب تک بے شمار ایوارڈز اپنے نام کرواچکی ہیں جن میں نیشنل یوتھ پیس پرائز، مدر ٹیریسا ایوارڈ، بچوں کا عالمی امن انعام ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے سفیر برائے شعورو آگہی ایوارڈ، ستارہ جرأت : پاکستان کا تیسرا بڑا شہری اعزاز برائے بہادری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملالہ کو فارن پالیسی میگزین میں دنیا بھر کے سو بہترین مفکروں کی فہرست میں شامل کیا گیا، کینیڈین حکومت نے اعزازی شہریت دینے کا اعلان کیا، اور اس کے علاوہ بھی ڈھیروں ایوارڈز عزم وہمت کا پیکر اس پاکستان کی بیٹی کو مل چکے ہیں۔

٭ثمینہ بیگ:
کوئی چوٹی ثمینہ بیگ کے حوصلے سے بلند نہیں، جنہوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کا سر بلند کردیا ہے۔ لہو جماتے برفیلے دیوقامت پہاڑ بھی پاکستان کی اس 24 سالہ چٹان جیسی لڑکی کے سامنے چھوٹے نظر آتے ہیں۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی خاتون اور تیسری پاکستانی ہیں جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا۔ یہی نہی بل کہ ان کی جستجو نے انھیں سات براعظموں کی سات بلندوبالا چٹانیں سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون اور پہلی مسلمان کا اعزاز بھی دلوادیا ہے۔ سات براعظموں کی سات چوٹیوں کو سر کرنے کا ان کا یہ آٹھ ماہ پر مشتمل مشن 24 جولائی 2014 کو صبح 9 بجے مکمل ہوا، جب انہوں نے روس میں واقع 5642 میٹر ساتویں بلند چوٹی ماؤنٹ ایلبرس کو اپنے بھائی کے ساتھ سر کرکے وہاں پاکستانی پرچم لہرایا۔

بلندی کے ہر سفر میں ثمینہ کے بھائی مرزا علی ان کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب منزل دونوں بہن بھائیوں سے محض 248 میٹر کی دوری پر تھی، لیکن بھائی نے اس مقام پر رک کر بہن کو آگے بڑھنے اور چوٹی سر کرنے کو کہا، تاکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ پاکستان کی خواتین بااختیار ہیں اور وہ بغیر کسی سہارے کے اپنے مشن کو مکمل کرسکتی ہیں۔

٭ڈاکٹر دردانہ حبیب:
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بی ایس سی (1983) کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون دردانہ حبیب نے گریس ہوپر ایوارڈ 2014 اپنے نام کرلیا۔

گریس ہوپر ایوارڈ کی تقریب خواتین کمپیوٹر تکنیکی ماہرین کے اعزاز میں دی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی گیدرنگ ہے، جو کہ اس سال فینکس میں واقع فینکس کنوینشن سینٹر، ایریزونا میں دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ریاست متحدہ ہائے امریکا کے انیتا بورگ انسٹیٹیوٹ کے تحت ہر سال آئی ٹی کی فیلڈ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کے نام کیا جاتا ہے۔

دردانہ حبیب کا کہنا ہے کہ جب 1970 میں انہوں نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا تو اس وقت انجینئرنگ میں خواتین کا تناسب بہت کم تھا۔ لیکن پھر دردانہ حبیب اور ان کی ساتھی انجینئرز نے خواتین میں اس فیلڈ کی طرف تحریک پیدا کرنے کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں آج این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباء کا ایک تہائی حصہ خواتین پر مشتمل نظر آتا ہے۔

٭حمیرا بچل:
پاکستان کے چمکتے ستاروں میں ایک نام حمیرا بچل کا بھی ہے، جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کراچی کے ایک ایسے پسماندہ علاقے سے مہم شروع کی جو کہ مواچھ گوٹھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باپ بھائیوں اور معاشرے کے مخالفت کے باوجود یہ پرعزم لڑکی اپنے مشن کو لیے آگے بڑھتی رہی اور ایک چھوٹے سے کمرے میں محلے کے بچوں کو تعلیم دے کر اپنی آنکھوں میں چھپے ڈریم ماڈل اسکول کے سپنے کی آبیاری کرتی رہی۔

میٹرک کے بعد سے جاری اس 15 سالہ لڑکی کے سفر نے دنیا بھر کو متاثر کیا اور بالآخر یہ جدوجہد سے بھرپور سفر ہی اس کی پہچان بن گیا۔ جون 2013 کو CHIME FOR CAHNGE کی جانب سے منعقدہ لندن کے ایک لائیو کنسرٹ میں میڈونا اور آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے نے اس حوصلہ مند اور پرعزم لڑکی کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا۔

ہالی وڈ کی اداکارہ سلمیٰ ہائیک نے بھی حمیرا کے اس بے لوث جذبے سے متاثر ہوکر نہ صرف خصوصی فنڈنگ کی، بل کہ انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے رواں برس ایک ڈاکیومینٹری Humaira; The game changer بھی بنا ڈالی، جسے شرمین عبیدچنائے نے ڈائریکٹ کیا ہے۔

ابتدا میں ڈریم اسکول سنگل اسٹوری بلڈنگ کے چار کمروں پر مشتمل تھا جس میں محض 300 طلباء تعلیم حاصل کرسکتے تھے، لیکن حمیرا کی انتھک محنت، میڈونا، سلمیٰ ہائیک اور ان کے پرستاروں کی مدد کی بدولت یہ اسکول 2014 میں 28 کمروں پر مشتمل چار منزلہ بلڈنگ میں تبدیل ہوچکا ہے، جس میں کمپیوٹر، سائنس لیب سمیت کھیلنے کا میدان بھی ہے، اور اب یہاں 1200 سے زاید بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

٭غزالہ سید 
غزالہ سید سندھ کی تاریخ میں پہلی خاتون ایس ایچ او ہیں جنہیں 8 اپریل 2014 کو کلفٹن تھانے میں بحیثیت ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ پاکستان میں پولیس کے شعبے میں اکثریت مردوں کی ہے۔ معاشرے اور خاندان کی جانب سے خواتین کی اس فیلڈ میں آنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ غزالہ نے پولیس میں اپنے کیریر کا آغاز 1994 سے کیا۔ اس سے پہلے وہ تدریس سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے تین سال تک شہدادپور میں پولیس کی تربیت حاصل کی۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد اے ایس آئی کے طور پر ان کی بھرتی ہوئی۔ اپنے کیریر کے دوران انہوں نے نارتھ ناظم آباد اور صدر کے شکایتی سیل میں انچارج کے فرائض بھی انجام دیے۔

2003 میں انہیں ساؤتھ زون کے خواتین پولیس اسٹیشن میں تعینات کیا گیا۔ جائے روزگار پر ہراساں کیے جانے کے خلاف 2010 میں جو قانون بنا اس کا پہلا مقدمہ درج کرنے کا اعزاز بھی غزالہ کو ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملزموں سے تفتیش کے لیے ’’اسٹریٹ اینالسٹ‘‘ کا کورس بھی کررکھا ہے جس میں مارپیٹ کے تفتیشی طریقۂ کار کے بجائے ملزم کا اعتماد بحال کرکے اس کے سچ اور جھوٹ کو جانچا جاتا ہے، لیکن اس میں استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کی لاگت 30 لاکھ ہونے کی بنا پر چند ایک تھانوں ہی میں یہ طریقۂ کار استعمال ہورہا ہے۔ پاکستان کی اس پہلی خاتون ایس ایچ او کو چند ماہ بعد ہی اعلیٰ حکام کی جانب سے بغیر کسی ٹھوس وجہ بتائے بغیر معطل کردیا گیا۔ بہرحال پاکستان پولیس کی تاریخ میں وہ پہلی خاتون ایس ایچ او کی حیثیت سے اپنا نام رقم کرگئیں۔

سویرا SAWERA :
Sawera (Society for Appraisal & Women Empowerment in Rural Areas) قبائلی علاقوں میں خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی ایک پاکستانی این جی او ہے جو کہ ایک ایسے خطے میں کام کررہی ہے، جہاں خواتین اور ان کے حقوق ومسائل پر بات کرنے والے گروہوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

لہٰذا انہی خدمات کے صلے میں سویرا دسواں front line defenders award 2014 اپنے نام کرچکی ہے۔ سویرا کو 56 ممالک سے کوئی 135 نام زد فلاحی تنظیموں میں سے منتخب کیا گیا۔ ڈبلن میں منعقدہ تقریب میں شرک بانی فریدہ آفریدی کی بہن نورضیاء آفریدی نے این جی او کی جانب سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ فریدہ آفریدی کو 2012 میں فیلڈ ورک کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔ فرنٹ لائن ڈیفینڈر ایوارڈ ہر سال دنیا بھر سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی ایک تنظیم کو دیا جاتا ہے۔

٭مریم مرزا خانی:
ایرانی نژاد مریم مرزا خانی ریاضی کے میدان میں فیلڈ میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے اپنی پیچیدہ جیومیٹری کے باعث اگست 2014 میں یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ ریاضی بہت کم لوگوں کے لیے دل چسپی کا حامل ہوتا ہے، اکثریت اسے ایک خشک اور محنت طلب مضمون گردانا جاتا ہے اسی لیے چند گنی چنی خواتین ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے اس مضمون کا انتخاب کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن مرزا خانی نے فیلڈ ایوارڈ جیت کر یقیناً دنیا بھر کی خواتین میں تحریک پیدا کی ہے۔

مریم کو یہ میڈل جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ریاضی دانوں کی بین الاقوامی کانگریس میں پیش کیا گیا۔ یہ میڈل ہر چار سال بعد ریاضی کی فیلڈ میں نمایاں خدمات انجام دینے والے چار لوگوں کو دیا جاتا ہے اور ریاضی کے شعبے میں نوبل انعام سمجھا جاتا ہے، جس کا فیصلہ آئی ایم یو (ریاضی کی بین الاقوامی یونین) کرتی ہے۔

٭Are Damon :
سی این این سے وابستہ سنیئر بین الاقوامی نامہ نگار اروا ڈیمن ان تین صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہیں نیویارک میں2014 Courage in Journalism Awardسے نوازا گیا۔

ڈیمن صف اول کی نامہ نگار ہیں جوکہ سی این این کے لیے ایک دہائی سے کام کررہی ہیں۔ یہ ایوارڈ فیلڈ میں درپیش شدید خطرات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے انٹرنیشنل وومین میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے آرگنائز کیا جاتا ہے۔ ڈیمن سی این این سے 2004 میں ایک فری لانس پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہوئیں۔ اور اب تک اسی چینل کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہیں جنگی رپورٹنگ میں ان کی ثابت قدمی، خصوصی توجہ اور پُرعزم ہونے کی بنا پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔

ڈیمن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی صحافی جو CNN جیسے کسی انٹرنیشنل نیوزنیٹ ورک سے وابستہ ہو، وہاں اسے صنف کی بنیاد پر خطرات لاحق نہیں ہوتے، بل کہ مرد اور خواتین دونوں ہی کو اپنے ادارے کی جانب سے کسی قسم کے تحفظ کے آسرے کے بغیر کام کے دوران شدید خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ اروا ڈیمن اب تک کئی ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں، جس میں بن غازی میں یو ایس قونصلیٹ پر حملے کی رپورٹنگ پر ملنے والا IRE (Investigative Reporters and Editors) میڈل ایوارڈ بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ ڈیمن سی این این کی اس ٹیم کا بھی حصہ تھی جس نے سال 2012 میں مصر کے انقلاب اور صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کی کرنٹ نیوز اسٹوریز کی براہ راست کوریج کرنے پر Emmy Award جیتا تھا۔

٭نکولا سیفی nicola scaife :
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ نکولا سیفی پولینڈ میں منعقدہ پہلی خواتین گرم ہوائی غباروں کی عالمی چیمپئن شپ اپنے نام کرچکی ہے۔ کھیلوں کے مقابلے میراتھون میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے والی نکولا گرم ہوائی غباروں کے عشق میں ایک دہائی سے مبتلا تھیں، لیکن ابتدا میں انہوں نے ایک نوکری کے طور پر ائیر بیلوننگ کی اور اس کے بعد اسے کھیل کے طور پر اپنا لیا۔

یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں شدت سے کسی ملازمت کی تلاش تھی، اسی دوران ان کا ایک ہوٹ ایئر بیلون فلائٹ میں جانا ہوا، اس میں سفر کرکے انہیں ہوائی غبارے اڑانا کوئی اپنا پرانا سپنا لگنے لگا۔ انھوں نے پائلٹ سے جاب ویکینسی کے بارے میں پوچھا۔ خوش قسمتی سے اس وقت ویکینسی تھی، لہذا پائلٹ نے اسے ہاں کردی۔ یہ نکولا کی زندگی کا ایک ایسا لمحہ تھا جس نے اس کی سمت بدل ڈالی۔ وہاں نکولا کی اپنے شوہر میتھیو سے ملاقات ہوئی جو کہ موجودہ Australian man’s champion بھی ہے۔

نکولا نے مشاہدہ کیا کہ ہوائی غباروں کے مقابلے کی دنیا میں مرد نمایاں تھے۔ عالمی چیمپئن شپ ٹورنامنٹ 1970 کی دہائی سے جاری تھے، لیکن اس سال منعقد ہونے والا یہ پہلا خواتین کا گرم ہوائی غباروں کا عالمی مقابلہ تھا۔ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے نکولا کا کہنا تھا کہ مقابلے میں عام طور پر وہ خواتین تھیں جو گھروں میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور اپنے شوہروں کا سہارا بنی ہوئی تھیں۔

ان میں چھپے حیرت انگیز فن کا مظاہرہ اور انہیں آسمان پر اڑتا دیکھ کر بہت خوش گوار احساس ہوا۔ نکولا سیفی اور اس کا شوہر اب ہنٹر ویلی میں اپنے 14 ماہ کے بے بی کے ساتھ رہ رہے ہیں، اور وہاں وہ ٹورسٹ بیلون فلائٹ چلاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دونوں میاں بیوی اب جاپان کے شہر ساگا میں منعقد ہونے والے اوپن ورلڈ چیمپئن شپ 2016 میں بھی حصہ لینے کا سوچ رہے ہیں، جس میں ایک حریف کے طور پر نہ صرف ایک دوسرے بل کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے 100 ممتاز بیلون پائلٹس کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔

٭ثانیہ مرزا:
ثانیہ مرزا اقوام متحدہ میں تعینات ہونے والی جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون ہیں خیرسگالی سفیر بن چکی ہیں۔ ثانیہ مرزا کو انڈین حکومت کی جانب سے ارجنا ایوارڈ 2004 میں، جب کہ ٹینس میں حاصل کی گئی کام یابیوں کے نتیجے میں انڈیا کا چوتھا بڑا اعزاز پدما شری 2006 میں دیا گیا۔ سال 2014 میں بھارت کی نوتشکیل شدہ 29 ویں ریاست تلنگانہ حکومت نے ثانیہ مرزا کو اپنی ریاست کا برانڈ سفیر مقرر کیا۔ اس کے علاوہ تلنگانہ کے پہلے وزیراعلیٰ چندراشیکھر راؤ نے انہیں ایک کروڑ روپے کی رقم سے نوازا اور حیدرآباد، تلنگانہ میں ایک بین الاقوامی معیار کی ٹینس اکیڈمی قائم کرنے میں تمام ضروری مالی اور بنیادی ڈھانچے کی تکمیل میں اپنی بھرپور مدد کا یقین دلایا۔

انڈیا کی نمبر ون ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا ایک جانا پہچانا نام ہے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی شعیب ملک سے شادی کے بعد پاکستانی میڈیا میں یہ نام کئی ماہ تک گردش میں رہا۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی شعیب ملک اور ثانیہ کی شادی میں کافی سرگرم نظر آئے۔ مبارک باد کے پیغامات کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات کی جانب سے انہیں سونے کے تاج جیسے بیش قیمت تحائف بھی پیش کیے گئے۔

٭لکشمی:
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی بلند حوصلہ، باہمت اور پُراعتماد لکشمی بین الاقوامی جرأت ایوارڈ برائے خواتین 2014 (International women courage award) اپنے نام کرچکی ہیں۔ یہ ایوارڈ انہیں واشنگٹن کے امریکی محکمہ خارجہ میں خاتون اول مشعل اوباما نے پیش کیا۔ یہ ایوارڈ 2007 سے امریکی محکمۂ خارجہ کے تحت ہر سال دیا جاتا ہے اور اب تک تقریباً 70 ایوارڈز دیے جاچکے ہیں۔

لکشمی کا سماج کے اس بھیانک روپ سے اس وقت سامنا ہوا جب اس کی سہیلی کے 32 سالہ بھائی نے خود کو نظرانداز کیے جانے پر اس کے خوب صورت چہرے کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا اور تیزاب پھینک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کی صورت بگاڑ دی۔ ایسی کٹھن صورت حال میں متاثرہ خواتین اپنی تعلیم روزگار سے دست بردار ہوکر سماج سے کٹ کر رہ جاتی ہیں یا انتہائی مایوسی انہیں اس دوراہے تک بھی لے جاتی ہے۔

جہاں زندگی ختم کرنے کے سوا انہیں کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن لکشمی نے ہمت نہ ہاری بل کہ اپنے چہرے کو سامنے لاکر لوگوں کے سامنے لاکر سماج کا بھیانک چہرہ بے نقاب کیا اور تیزاب حملوں کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی تحریک کا حصہ بن گئی۔ اس پرعزم خاتون نے نیشنل ٹیلی ویژن کے ذریعہ تیزاب کی فروخت کو روکنے کی عرض داشت پر 27000 دست خط جمع کیے اور اسے سپریم کورٹ تک لے گئی۔

انڈین سپریم کورٹ نے لکشمی کی درخواست پر مرکزی حکومت کو تیزاب کی فروخت کی فوری روک تھام اور اس کی نگرانی کے احکامات جاری کیے۔ لکشمی کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، بل کہ اس سفر میں اب اس کا محبوب شوہر بھی اس کے ساتھ ہے، جو کہ ایک سماجی کارکن بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔