بُک شیلف

شاید بہت سوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ بلوچستان میں اتنے بلوچ آباد نہ ہوں گے جتنے کہ سندھ میں۔  فوٹو: فائل

شاید بہت سوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ بلوچستان میں اتنے بلوچ آباد نہ ہوں گے جتنے کہ سندھ میں۔ فوٹو: فائل

علامہ محمد اقبالؒ
( رہوڈز لیکچرز دینے کی دعوت)
مصنف: پروفیسر ریاض حسین
ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
صفحات:192


مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے بارے میں اگرچہ بے شمار کتب منظر عام پر آچکی ہیں لیکن ان کی شخصیت، ان کے افکار اور ان کی سوانح کے حوالے سے ابھی بہت سے گوشے اور پہلو ایسے ہیں جو مخفی ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی انہی چھپے گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے۔

جس پر حضرت اقبالؒ سوانح نگاروں کی نظر نہیں پہنچ سکی اور یہ پہلو شاید اسی طرح مخفی یہ رہتا اگر پرویفسر ریاض حسین کی عمیق نظر اس جانب نہ پڑتی اور پھر ان کی جستجو، شوق اور محنت ہی کی بدولت حضرت اقبالؒ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹ کے ذمہ داروں کے درمیان1933اور1935کے دوران رہی۔ رہوڈز ٹرسٹ ایک بہت بڑا ادارہ تھا جو ہر سال دنیا کے نامور اور معروف صاحبانِ علم و دانش کو مدعو کرتا اور ان کے لیکچرز کا اہتمام کرتا تھا جو علمی و فکری اور فلسیانہ موضوعات پر اظہار خیال کرتے تھے۔

اس ادارے میں حضرت علامہ اقبالؒ کو بھی آکسفورڈ یونیورسٹی میں خصوصی لیکچرز دینے کی دعوت دی جو حضرت اقبال نے اگرچہ بوجوہ قبول نہ کی لیکن اس دوران ان کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی وہ اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کتاب کے مندرجات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ حضرت اقبالؒ اسلام پر ایک جامع کتاب تصنیف کرنا چاہتے تھے۔ کتاب کا جو خاکہ ترتیب دیا گیا تھا اس کو دیکھ کر ہی قائد اعظمؒ کسی مسلم اسکالر سے اسلام پر علامہ کی سوچ کے مطابق ایک کتاب تحریر کروانا چاہتے تھے۔ اس کتاب کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب اقبالیات کے علم میں اضافہ کا باعث ہے اس کے ذریعے اقبالیات کے حوالے سے نئے مباحث بھی سامنے آئے ہیں جن پر اب تک توجہ نہیں دی جاسکی۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ کتاب اقبالیات کے ضمن میں ایک نادر دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔

ہمیں صاحب کتاب پروفیسر ریاض حسین کا ممنعن ہونا چاہیے کہ جنہوں نے مطالعہ اقبال کے حوالے سے ایک چھپے گوشے کو بے نقاب کیا اور اس کے نتیجے میں اقبال کے مداحوں کے لیے سوچ کے نئے زاویے سے روشناس کرایا اور ان کے سوانح نگاروں کے لیے بالخصوص تحقیق کے نئے دروا کر دیئے ہیں اور انہیں اس میدان میں مزید غوروفکر کے لیے رہنمائی میسر آگئی ہے۔

نام کتاب: ذرا نم ہو۔۔۔۔۔

مصنف: قاسم علی شاہ

ناشر: منزل پبلی کیشنز،520-aگلشن راوی، لاہور
صفحات:111
قیمت:300روپے


قاسم علی شاہ شعبہ تدریس سے منسلک ہونے کے ساتھ پروفیشنل ٹرینر اور مصنف بھی ہیں۔ سیلف ڈیویلپمنٹ،کریئر کونسلنگ، موٹی ویشن اور روحانیت کے موضوعات پر ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتےہیں۔ زیرِ نظر کتابــ ذرا نم ہو۔۔۔۔ــ مختصر جملوں کے انتخاب پر مبنی ہے، جو ان کے لیکچرز سے اخذ کیے گئے ہیں۔
ایک جملے کا بامعنی ہونا بنیادی شرط ہے، جبکہ بہتر ابلاغ، خوبصورت الفاظ، بیان کی خوبصورتی ، ایجاز و اختصار، حکمت و دانائی اور معنی آفرینی جملے کا حسن ہوتے ہیں۔ مصنف کے مختلف لیکچرز سے کشید کیے ہوئے ان جملوں سے لوگوں میں مثبت تبدیلی لانے اور اچھائی کی ترغیب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگرچہ اس انتخاب کے لیے کسی خاص معیار کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
بات کہنے کا ڈھنگ ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے، اور کوئی نہیں جانتا ہے کہ کب، کون سی بات، کس کے دل میں اتر کر زندگی کا دھارا بدل دے۔اس اعتبار سے یہ کتاب قارئین کی توجہ کی مستحق ہے۔ کتاب میں شامل جملوں میں سے چند ایک یہ ہیں:
٭ ہر جیتنے والا اپنی جیت کے لیے تیاری کرتا ہے اور ہارنے والا اپنی جیت کے لیے صرف انتظار کرتا ہے۔
٭ فائدہ تو فائدہ لوگ لاشعوری طور پر اپنے نقصان کے لیے بڑی محنت کر رہے ہوتے ہیں۔
٭ جن کا اندر مضبوط ہو، باہر کے طوفان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
٭ استاد کا کام سوالات کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ کچھ نئے سوالات کو پیدا کرنا بھی ہوتا ہے۔
٭ بہت سی کتابیں اور ان کتابوں کا علم کسی کام کا نہیں اگر زندگی میں کوئی ایسا مقصد نہیں، جس کے لیے آپ علم اکٹھا کر رہے ہوں۔
٭ زندگی بدلنی ہو تو ایک جملے، ایک واقعہ اور ایک استاد سے بدل جاتی ہے… نہ بدلنی ہو تو ہزار کتابیں، کئی واقعات اور دانشور مل کر بھی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔

نام کتاب: تذکرہ بلوچان سندھ
مصنف: کامران اعظم سوہدروی
قیمت:550 روپے
ناشر: تخلیقات،6، بیگم روڈ، مزنگ،لاہور


بلوچوں کے بارے میں بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک عرب قبیلہ ہیں۔ یہ لوگ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں جو مہروفا، صدق و امانت، مساوات اور بھائی چارے کے جذبات سے بھر پور ہو۔ اس اعتبار سے بلوچ قبائل کے ساتھ وقت گزارنا، ان کے بارے میں جاننا بہت دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب کے مصنف نے’بلوچ قبائل‘، ’ بگٹی قبیلہ‘، ’مری قبیلہ‘ اور’ تاریخ بلوچ و بلوستان‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر اپنے آپ کو بلوچ قبائل کے محقق کے طور پر منوا لیا ہے، اب ان کی کتاب’تذکرہ بلوچانِ سندھ‘ اس اعتبار سے خاصی دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے سندھ کے بلوچ قبائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

شاید بہت سوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ بلوچستان میں اتنے بلوچ آباد نہ ہوں گے جتنے کہ سندھ میں۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں35فیصد بلوچ ہیں یعنی سندھ کی کل آبادی ساڑھے3کروڑ میں ایک کروڑ5لاکھ بلوچ ہیں۔ یہاں بسے ہوئے بلوچ قبائل بلوچستان سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے ۔ اس سے پہلے یہ حلب( شام) سے ایران(کرمان) سے مکران آئے۔ یہ16ویں صدی کا قصہ ہے۔جب سندھ میں آئے تو وہ سندھی بولنے لگے۔ ان میں احمدانی، عالمانی، بجارانی، بلیدی، بلتی، چانڈیو، جاگیرانی، جسکانی، جمالی، جروار، جتوئی، کھوسو، کلپر، کلمتی، لاشاری ، لغاری، لنڈ، مگسی، مری، مزاری، میرانی، مرجت، نظامانی، ننکانی ،رند، تالپور ، عمرانی،زرداری اور زور شامل ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے ان تمام قبائل کے بارے میں نہاہت تفصیل سے تاریخ اور ان کی مشہور شخصیات کا ذکر کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تاریخ کے طلبا کے لیے یہ کتاب خاصی مفید ثابت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔