شنی شنگناپور؛ بھارت کا انوکھا گاؤں جس کے کسی گھر میں دروازہ نہیں

ندیم سبحان  منگل 27 جنوری 2015
مقامی روایات کے مطابق شنی شنگناپور صدیوں سے ہر طرح کے جرائم سے پاک رہا ہے،  فوٹو: فائل

مقامی روایات کے مطابق شنی شنگناپور صدیوں سے ہر طرح کے جرائم سے پاک رہا ہے، فوٹو: فائل

آج کے دور میں کیا آپ کسی ایسی جگہ کا تصور کرسکتے ہیں، جہاں مکانات، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ بینکوں میں بھی کوئی دروازہ نہ ہو، اور جہاں نقدی اور زیورات غیرمقفل صندوق میں رکھے جاتے ہوں؟ یقیناً، آپ یہی سوچیں گے کہ لُوٹ مار کے موجودہ زمانے میں ایسی پُرامن جگہ کا ہونا ممکن نہیں۔ پر جناب اسی روئے زمین پر ایسا ایک گاؤں موجود ہے جس کے کسی بھی گھر، کسی بھی عمارت میں کوئی دروازہ نہیں اور یہاں کے باسی چین کی نیند سوتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ گاؤں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہے!

ریاست مہاراشٹر کی حدود میں واقع شنی شنگناپور نامی گاؤں کی سبھی تعمیرات بے دَر ہیں۔ داخلی دروازے نصب کرنے سے گریز کا سبب مقامی ہندو آبادی کا مذہبی عقیدہ ہے جس کے مطابق صدیوں پہلے دیوتا، شنی مہاراج نے گاؤں کے مُکھیا کو خواب میں درشن دیے اور حکم دیا کہ کسی بھی گھر میں دروازہ نہ لگایا جائے کیوں کہ میں خود گاؤں کی حفاظت کروں گا۔ اس کے بعد سے یہ گاؤں ’ بے دَر ‘ ہی چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ عوامی بیت الخلاء بھی دروازے سے محروم ہیں۔ تاہم گاؤں کی عورتوں کے مطالبے پر دروازوں پر پردے ڈال دیے گئے ہیں کیوں کہ دروازے کی تنصیب ان کے مذہبی عقیدے سے متصادم ہے۔

کچھ دیہاتی دروازے کے فریم کے ساتھ بڑے بڑے تختے ٹکا دیتے ہیں مگر ایسا صرف رات کے وقت کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی جنگلی جانوروں اور آوارہ کتوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ کوئی کسی سے ملنے کا خواہاں ہو تو اس کے گھر کے سامنے پہنچ کر نام پکارتا ہے کیوں کہ کھٹکھٹانے کے لیے دروازہ موجود نہیں ہوتا۔

گاؤں کے باسیوں کا عقیدہ ہے کہ شنی دیوتا ان کی املاک کی حفاظت کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی یہاں سے کچھ چُرا کر لے جاتا ہے تو ساری رات چلنے کے باوجود بھی صبح یہیں موجود ہوتا ہے۔ شنی دیوتا کے پیروکار اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ گاؤں کا جو بھی باسی گناہ کرے گا وہ ’ ساڑھ ستی‘ کا شکار ہوجائے گا یعنی ساڑھے سات برس تک بدقسمتی اس پر سایہ فگن رہے گی۔

شنی شنگناپور کے مندر کے سامنے ایک پمفلٹ تقسیم کیا جاتا ہے جس میں اس گاؤں کو ایک ’ مثالی گاؤں ‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے یہ جگہ چوری چکاری سمیت ہر طرح کے جرائم سے پاک ہے۔ پمفلٹ میں یہ بھی درج ہے کہ پیشہ ور چور، ڈاکو، لٹیرے اور شرابی یہاں آکر شریف بن جاتے ہیں۔

قصبے کے عجیب و غریب رواجوں کے مطابق رہن سہن کی عادت ڈالنا، یہاں بیاہ کر آنے والی بہوؤں کے لیے ابتدا میں خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ روپالی شاہ کو جب پہلی بار پتا چلا کہ اس کے ہونے والے سسرالی گاؤں کے کسی گھر میں دروازہ نہیں ہے تو وہ بڑی حیران ہوئی تھی۔ روپالی کا کہنا ہے،’’ دو سال پہلے جب معلوم ہوا کہ شادی کے بعد مجھے شنی شنگناپور میں رہنا ہوگا تو میں بہت پریشان ہوگئی تھی۔ کیوں کہ میں بنا دروازے والے گھر میں رہنے کی عادی نہیں تھی۔ جب میں بیاہ کر یہاں آئی اور میرے شوہر اور سسرال والوں نے کہا کہ کسی بھی قیمتی چیز کو تالا لگا کر نہیں رکھنا تو میں حیران رہ گئی۔ مگر رفتہ رفتہ میں اس ماحول کی عادی ہوگئی اور اب مجھے اپنے گھر میں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘

پانچ ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کو ملک گیر شہرت 1990ء کی دہائی میں ایک دستاویزی فلم سے ملی تھی۔ فلم کی ریلیز کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد اس منفرد گاؤں کو دیکھنے اور شنی دیوتا کی پوجا کرنے کے لیے پہنچنے لگی۔ اب روزانہ یہاں چالیس ہزار یاتری آتے ہیں۔ پندرہ برس قبل گاؤں کے باشندوں کا انحصار گنے کی کاشت پر ہوتا تھا مگر اب یاتریوں کی صورت میں آنے والے سیاح ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔

مقامی روایات کے مطابق شنی شنگناپور صدیوں سے ہر طرح کے جرائم سے پاک رہا ہے، تاہم پچھلے چند برسوں میں یہاں چوری کی کئی وارداتیں ہوئی ہیں۔ مقامی پولیس افسر انیل بہرانی کے مطابق گذشتہ دو سال کے عرصے میں یہاں جرائم کی شرح میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا لیکن مندر کے اطراف گاڑیوں کی چوری، جیب کاٹنے اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں ضرور ہوئی ہیں۔ ان وارداتوں کے بعد گاؤں کے کچھ باسیوں نے دروازے لگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تیس سالہ اجے بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ اجے کا کہنا ہے کہ اسے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں گاؤں والوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اہل خانہ کے تحفظ کے لیے وہ یہ اقدام کرنے پر مجبور ہے۔

گاؤں کے مذہبی عقائد کی وجہ سے یہاں واقع یونائیٹڈ کمرشل بینک کی شاخ کی عمارت کا داخلی دروازہ بنا قفل کا ہے۔ البتہ رقم اسٹرانگ رومز میں رکھی جاتی ہے۔ بینک مینیجر کاکہنا ہے کہ وہ مقامی روایات سے انحراف نہیں کرسکتے تاہم سیکیورٹی پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔

کچھ لوگ گاؤں والوں کے عقائد پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں جرائم نہ ہونے کا سبب دیوتا کی ماورائی طاقتیں نہیں بلکہ گاؤں کا دورافتادہ ہونا ہے۔ جہاں کوئی آتا جاتا نہیں وہاں وارداتیں کیسے ہوں گی۔ دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یاتریوں کی آمد گاؤں کے لوگوں کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اگر گاؤں کے جرائم سے پاک ہونے کا تصور بکھر گیا تو پھر یہاں کوئی نہیں آئے گا اور آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ چناں چہ اس تصور کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں وارداتوںکے باوجود گھروں میں دروازے نہیں لگائے جاتے۔ اس بات کی تصدیق ایک سینیئر پولیس اہل کار نے بھی کی جس کاکہنا تھا کہ وارداتیں ہوتی ہیں مگر گاؤں کے لوگوں کے دباؤ پر ان کی رپورٹ نہیں لکھی جاتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔