مغربی جرمنی میں ایک برس

رفیع الزمان زبیری  منگل 27 جنوری 2015

محمد کاظم اپنی انجینئرنگ فرم کی طرف سے ٹریننگ کے لیے جرمنی بھیجے جا رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی اور مشرقی جرمنی مل کر ایک نہیں ہوئے تھے۔ یورپ میں موسم گرم تھا۔ کاظم کی ٹریننگ کی مدت ایک سال تھی لیکن اس سے پہلے انھیں دو ماہ گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں رہ کر جرمن زبان سیکھنی تھی۔ یہ دو ہفتے ان کی زندگی میں یادگار تھے، کبھی نہ بھلائے جانے والے۔ ان دنوں کی کہانی یہ کتاب ہے جو پہلے ’’فنون‘‘ میں قسط وار شایع ہوئی اور پھر کئی سال بعد ’’جرمنی میں ایک برس‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں سامنے آئی۔

محمد کاظم اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں ’’آٹھ ہفتوں کا یہ عرصہ میں نے شوق و انبساط کی ایک ایسی کیفیت میں گزارا جو بہت گمبھیر تھی۔‘‘

گوئٹے انسٹیٹیوٹ کوہ الپس کے دامن میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں آخن موہلے میں تھا۔ یہ ایک پرفضا وادی تھی جہاں دنیا کے مختلف ملکوں سے طلبا اور طالبات جرمن زبان سیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ محمد کاظم نے یہاں نہ صرف جرمن زبان سیکھی بلکہ ان لوگوں کا گہرا مطالعہ بھی کیا۔ ان کے سفرنامے میں چند ایسے طلبا اور طالبات کا تذکرہ ہے جن کا انھوں نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے خود اپنے آپ کو سب سے زیادہ بے نقاب کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس کتاب میں کوئی مکالمہ خیالی اور فرضی نہیں ہے۔ میں نے اسے کسی مقام پر بھی جھوٹ اور افسانے سے آلودہ نہیں ہونے دیا ہے۔‘‘

فرینکفرٹ کے قریب اپنی فرم کے صدر مقام من ہائیم پہنچنے کے بعد محمد کاظم نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا شیو کا نیا خرید کردہ سامان نکالا اور اپنے علی گڑھ کے دنوں کی ڈالی ہوئی چہرے کی نقاب اتار ڈالی۔ لکھتے ہیں ’’آئینے میں اب میرا چہرہ صاف اور روشن نکل آیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اپنی ڈاڑھی کے کھچڑی بالوں کے ساتھ میں نے اپنی عمر کے چند سال بھی پانی کی راہ بہا دیے تھے۔‘‘

من ہائیم سے جب محمد کاظم آخن موہلے کے گوئٹے انسٹیٹیوٹ پہنچے تو وہ پیر کا دن تھا اور ان کے آٹھ ہفتوں کے جرمن زبان کے کورس کا پہلا دن۔ طلبا اور طالبات کچھ آ چکے تھے اور کچھ آ رہے تھے۔ ان کے لیے سب چہرے اجنبی تھے۔ پھر تعارف ہونے لگا۔ کاظم کے ساتھ ان کے دو ساتھی بھی ٹریننگ کے لیے آئے تھے۔ یہ تینوں اس گروہ میں تھے جسے بالکل ابتدا سے جرمن زبان سیکھنی تھی۔ لکھتے ہیں ’’جرمن زبان کا پہلا سبق براہ راست جرمن زبان میں شروع ہوا۔ ہم نے اپنے کاغذ قلم سنبھال لیے اور ذہنوں کے دریچے ایک بالکل نئی سمت میں وا کر دیے۔‘‘

محمد کاظم کی کلاس میں سات لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں۔ ان میں سوائے ایک الجزائری لڑکے بلیلی کے کوئی ایسا نہ تھا جو اپنے چلبلے پن اور شخصیت کی چمک دمک سے کلاس کے ماحول کو زندہ اور بشاش رکھے۔ پھر ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا، یہ کاظم کی زبان سے سنیے ’’ہماری کلاس کا دروازہ کھلا اور اس میں ایک نووارد یوں داخل ہوئی جیسے کسی پرسکون اور اونگھتی ہوئی محفل میں کوئی پاؤں میں گھنگھرو باندھے چلا آئے۔ ہماری کلاس کی منجمد فضا میں اچانک زندگی اور حرارت کی لہر دوڑ گئی۔

اس نے پیازی رنگ کا ایک باریک اور گھاگرے دار منی فراک پہن رکھا تھا اور آدھی ران سے نیچے اس کی گوری اور ہری بھری سڈول ٹانگوں میں ایک ایسی کشش تھی کہ نگاہیں بار بار ادھر کو اٹھتی تھیں۔ یہ لڑکی جس کے بال گہرے سنہری تھے اور جس نے آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک لگا رکھی تھی، بے جھجک جرمنی بولتی تھی۔ یہ ہمارے لیے بڑے اچھنبے کی بات تھی اگرچہ خوش آیند کہ اسے اوپر کے کسی درجہ سے اتار کر ہماری اس ابتدائی کلاس میں بھیج دیا گیا تھا۔ وہ ترکی سے آئی تھی اور اس کا نام ہجراں بوئیک مرزا تھا۔‘‘

ہجراں کے آنے سے نہ صرف کلاس کی فضا ہی بدل گئی بلکہ کاظم کو کمرہ پہلے سے زیادہ روشن نظر آنے لگا اور سامنے کی پہاڑیوں کا منظر بھی زیادہ خوبصورت اور بامعنی ہو گیا۔

محمد کاظم نے اپنے انسٹیٹیوٹ میں گزارے ہوئے دنوں کی داستان روزنامچہ کی صورت میں لکھی ہے۔ 8 جولائی کے روزنامچے میں لکھتے ہیں ’’رات کو جب میں سونے کے لیے بستر پر دراز ہوا تو دن کے سفر کے مناظر ایک فلم کی طرح تصور میں چلتے رہے۔ روزہائیم (ایک قریبی گاؤں) میں، میں نے جو کچھ دیکھا اس سے میرا یہ یقین اور بھی راسخ ہو گیا ہے کہ مغربی جرمنی میں نسوانی حسن کی اتنی فراوانی ہے کہ اگر اسے تمام عالم پر تقسیم کر دیا جائے تو ہر ملک کے حصے میں اس کی اچھی خاصی مقدار آئے گی۔ ایک دوسرا خیال جو رہ رہ کر میرے دل میں انگڑائیاں لیتا رہا یہ کہ ہماری کلاس کی ہجراں بوتیک مرزا جس راہ پر جا رہی ہے نہ وہ ہماری کلاس کے لیے باعث فخر ہے اور نہ اس کے اپنے ملک اور قوم کے لیے۔ لیکن میں اس کے بارے میں اتنا سوچتا ہی کیوں ہوں۔‘‘

کاظم نے اپنے ساتھیوں کی شخصیت نگاری جس انداز سے کی ہے اس سے ان کے مشاہدے کی گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ہم جماعت لڑکیوں کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور بڑی بے باکی سے ان کے کردار کی خوبیوں اور کمزوریوں کا اپنے انداز فکر کے مطابق تجزیہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ ایک ایرانی لڑکی، پروانے بھی تھی۔ اس سے ان کا دل چاہتا تھا کہ اس کی اپنی زبان فارسی میں جو انھیں نہیں آتی تھی باتیں کریں۔ لکھتے ہیں ’’مجھے فارسی زبان نہ سیکھنے کا اتنا افسوس زندگی میں کبھی نہیں ہوا جتنا اب ہو رہا تھا آہواز کی اس سانولی سلونی ذہین حساس اور تنہا لڑکی کے ساتھ ایک پائیدار دوستی قائم کرنے کا نادر موقع تھا جو میرے ساتھ سے نکلا جا رہا ہے اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

زبانوں کے معاملے میں کاظم کی پہلی محبت عربی زبان سے تھی۔ اس میں وہ اس وقت گرفتار ہوئے جب ابھی ان کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور وہ علی گڑھ میں انجینئرنگ کے آخری سال میں تھے۔ اس محبت میں وہ کامیاب و کامران رہے۔ عربی خوب بولتے تھے۔

گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں تیسرا ہفتہ شروع ہوا تو کاظم اور ان کی کلاس کی ایک امریکی لڑکی، ڈورتھی ولیمز نے فارغ اوقات میں اکٹھا پڑھنا شروع کیا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست اور ہم نشین تھے۔ ایک دن وہ ان سے اچانک کہنے لگی ’’کظیم! ایک بات بتاؤ۔ تم ہجراں میں کہاں تک دلچسپی رکھتے ہو؟‘‘ کاظم لکھتے ہیں ’’مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اندر کوئی دیوار دھڑام سے بیٹھ گئی ہو۔ ایسے ڈائریکٹ سوال کے لیے میں قطعاً تیار نہیں تھا۔ میں نے بہ مشکل اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے اور ایک سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا، مس ڈورتھی! یہی بات میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ بتاؤ تمہارا مشاہدہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولی۔ ’’مجھے اس کا ٹھیک جواب دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا، اس لیے کہ تم اس معاملے میں کافی خاموش اور منہ بند ہو۔‘‘

پھر یہ ہوا کہ ہجراں کی خواہش پر کاظم ڈورتھی کو چھوڑ کر اس کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگے۔ شاید ان کو اسی کا انتظار تھا۔ لیکن یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور جب اکٹھی پڑھائی کے دوران ایک دن ہجراں نے اپنے ایک لبنانی کلاس فیلو نعمان کے بارے میں کاظم سے کہا کہ وہ اس کا جگری دوست ہے تو کاظم کے اندر سوچ کا ایک طویل عمل شروع ہو گیاکہ اگر نعمان ہجراں کا جگری دوست ہے تو ہجراں نے یہ بات کاظم کو ہی بتانا کیوں ضروری سمجھی۔ اس رات کاظم کو دیر تک نیند نہ آئی۔

اب گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں پڑھائی کا وقت پورا ہو رہا تھا۔ حالات کی گردش نے یوں بھی اس نام کی جو کبھی کاظم کے حواس پر چھایا ہوا تھا اور جس کے گرد ان کے خوابوں کی ایک دنیا آباد تھی، تاثیر ختم کر دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں ’’اچھا ہوا کہ کوئی حادثہ رونما ہونے سے پہلے ہی میرا وہ خواب ٹوٹ کر بکھر گیا اور میں اپنی پہلے والی سادہ، باہوش اور خوددار زندگی میں واپس آ گیا۔ مجھے اپنے قدموں تلے پھر سے زمین کی موجودگی کا احساس ہونے لگا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔