خدا کے واسطے جاگو

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 27 جنوری 2015

میری کہانی کا آغاز مارچ 1981میں ہوتا ہے، یہ وہ دن تھا جب میری زندگی بالکل بدل گئی تھی، ایک ایسا دن جس کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا، میں ہوائی جہاز کے حادثے میں شدید زخمی ہو گیا تھا اور مفلوج حالت میں اسپتال میں داخل تھا، میری ریڑھ کی ہڈی بالکل تباہ ہو گئی تھی اور اس کا دوسرا اور تیسرا مہرہ ٹوٹ گیا تھا، خوراک نگلنے کے میرے پٹھے بے کار ہو چکے تھے اور میں کچھ بھی کھانے پینے سے قاصر تھا، میرا ڈایافرم بھی تباہ ہو چکا تھا، میں سانس بھی نہیں لے سکتا تھا، میرے جسم کی واحد حرکت آنکھوں کا جھپکنا تھی۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میری ساری زندگی بستر پر ہی گزرے گی، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میں صرف اپنی آنکھیں ہی جھپکا سکوں گا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ وہ میری اس حالت کا تصور ہی کر سکتے تھے لیکن ان کے سوچنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں سوچ سکتا تھا، میں خود کو دوبارہ ایک نارمل انسان کے طور پر دیکھ سکتا تھا، میں خود کو چلتے پھرتے اور اسپتال سے فارغ ہوتے تصور کر سکتا تھا۔

اسپتال میں میری جو واحد چیز کام کر رہی تھی وہ میرا دماغ تھا اور جب آپ کا دماغ زندہ اور کام کر رہا ہو تو آپ چیزوں کو ایک بار پھر جوڑ سکتے ہیں۔ مجھے سانس لینے کے لیے مشینوں پر لگا دیا گیا اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میں کبھی بھی اپنے آپ سے سانس نہیں لے سکوں گا، لیکن ایک کمزور سی آواز مجھے یہ ہی کہے جاتی تھی کہ گہرا سانس لو، گہرا سانس لو، اور آخرکار میں سانس لینے لگا۔ تمام ڈاکٹر حیران اور ہکا بکا رہ گئے۔ میں اس بات کا متحمل نہیں تھا کہ کسی ایسی چیز کو اپنے دماغ میں آنے کی اجازت دوں جو مجھے میرے ہدف یا میرے وژن سے ہٹا دے۔

میں نے یہ ہدف بنا رکھا تھا کہ کرسمس تک اپنے پیروں پر چل کر اسپتال سے جاؤں گا اور میں کامیاب رہا۔ میں اپنے دونوں پیروں سے چل کر اسپتال سے باہر گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے۔ میں اس دن کو کبھی بھی بھول نہیں سکوں گا، اس وقت جو لوگ یہاں موجود ہیں اور جو لوگ زخمی ہیں یا بیمار ہیں، میں ان کے سامنے اپنی زندگی کا مختصر خلاصہ پیش کرنا چاہوں گا، میں مختصر الفاظ میں لوگوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ وہ زندگی میں کیا کر سکتے ہیں، میں اس کو آٹھ لفظوں میں بیان کروں گا۔ ’’آدمی وہی بنتا ہے جو وہ سوچتا ہے‘‘۔

یہ مصنف اور مقرر مورس گڈمین کی کہانی ہے، جسے کرشماتی آدمی کہا جاتا ہے، جو اپنے اندر موجود طاقت کے بارے میں جانتا تھا، جس کی وجہ سے مورس گڈمین نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج کو سب سے بڑے تحفے میں تبدیل کر دیا۔ ہنری وان ڈائیک اپنی نظم میں لکھتا ہے ’’میرا یقین ہے کہ خیالات جیتی جاگتی چیزیں ہیں، ان کا جسم ہے، وہ سانس لیتی ہیں اور اڑتی ہیں اور جنہیں ہم آگے بھیجتے ہیں، جن کے اچھے یا برے نتائج دنیا دیکھتی ہے‘‘۔

آپ اپنے خیالات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں، آپ صرف وہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں، آپ اپنی سوچ کے غلام ہیں، غلام وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا آقا اسے کہتا ہے، بدترین بیماری جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے، جسمانی بیماری سے صرف ایک شخص متاثر ہوتا ہے جب کہ ذہنی بیماری کے جراثیم کروڑوں لوگوں کو بیمار کر دیتے ہیں۔

ہماری قوم کو تعصب، نفرت، جہالت توہمات، عدم برداشت، عدم رواداری کی جو بیماریاں لاحق ہیں، ان کے خالق وہ ہی بیمار ذہن ہیں جو ہمارے سماج میں جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں، جنھیں رجعت پسند یا قدامت پسند کہتے ہیں، جو ہر نئے خیال یا سوچ کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ اپنی حالت پر قائم رہنے کے لیے ہر قسم کی سختی، تشدد اور زبردستی کو جائز سمجھتے ہیں۔

جو ماضی کو پکڑے رہنا پسند کرتے ہیں، جن کے نزدیک وقت کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ زندگی کا یہ اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ سفر کرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے چلا جائے گا، اور پھر آپ کبھی بھی وقت کو پکڑ نہیں سکیں گے۔ ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے، ہم ان ہی رجعت اور قدامت پسندوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ سفر کر ہی نہیں پائے، اسی وجہ سے ہم اپنے سفر کے آغاز کے بعد ہی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور وقت میلوں دور، میلوں آگے نکل گیا ہے۔ اب ہم لاکھ کوشش کرتے ہیں اسے پکڑنے کی، لیکن ہر بار ناکام وہیں آغاز پر لوٹ آتے ہیں۔

ہم گزشتہ 67 سال سے اسی چوراہے پر بیٹھے ساری دنیا کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں، ہر وقت اپنے علاوہ ہر ایک کو کوستے رہتے ہیں، اصل میں ہمیں اپنے حقیقی مجرموں کو برا بھلا کہنے کی ہمت ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی جرأت ہے اور نہ ہی انھیں مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی طاقت ہے۔ یہ سب کچھ تو چھوڑو ہمیں ان کے خلاف بات کرنے کے خیال سے بھی جھرجھری آ جاتی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا کو مجرم قرار دیتے پھرتے ہیں۔ ایک شخص نے گھوڑا خریدا اور اس نے اصطبل پر لکھوا دیا ’’دنیا کا سب سے تیز رفتار گھوڑا‘‘۔ جب اس نے گھوڑے کو گھڑدوڑ میں دوڑایا تو سب سے آخری نمبر پر آیا، اب اس شخص نے عبارت یوں لکھوائی ’’دنیا گھوڑے سے تیز رفتار ہے‘‘۔

بے عملی سے یا کرنے والے کام نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ناکام ہوتے ہیں اور الزام قسمت پر دھر دیتے ہیں۔ اور یہ ہی حال ہمارا بھی ہے، جو کام کرنے کے ہیں وہ کرنا نہیں ہیں اور الزام قسمت اور دنیا بھر کو دیتے پھرتے ہیں۔ جھوٹی سچی کہانیاں سننا ہمارا قومی مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔ روشنی سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں یں سر ٹکرا رہے ہیں، سوچنے سے ہمیں نفرت سی ہو گئی ہے۔

ماضی میں رہنا ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ غور و فکر سے ہمیں کراہت آ جاتی ہے، منفی اور زہریلے خیالات ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیارے ہو چکے ہیں۔ دانش مندی اور سمجھ داری کی باتیں ہمیں بے وقوفی لگتی ہے۔ دنیا بھر کے عقل مند اور دانش مند چلا چلا کر ہمیں کہہ رہے ہیں کہ خدا کے واسطے جاگو! بربادی، تباہی اور ذلت کا سیلاب تمہارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم ہیں کہ اندھے اور بہرے بنے پھر رہے ہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آسمان کانپ رہا ہے، زمین تھرتھرا رہی ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو سقراط، رومی اور ارسطو سمجھے بیٹھے ہیں۔ یاد رکھو! آدمی وہی بنتا ہے، جو وہ سوچتا ہے۔

خدا کے واسطے اپنی سوچ کو بدلو۔ اپنے خیالات کو تبدیل کرو۔ یہ کام ہم نے خود کرنا ہے، اگر ہم اپنے عذابوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو، ورنہ زندگی تو ان عذابوں میں بھی گزر ہی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔