یرغمالیوں کی عجیب نسل

حسن اصغر نقوی  جمعرات 29 جنوری 2015

گزرے وقتوں کی بات ہے دنیا میں ایک عجیب وغریب علاقہ ایسا بھی تھا روایت کے مطابق جہاں لگ بھگ پندرہ‘ سولہ کروڑ یرغمالی آباد تھے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس عہد میں مردم شماری کا محکمہ اگرچہ وجود میں آ تو چکا تھا مگر بوجوہ موثر نہیں تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان یرغمالیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں راویوں کے مابین خاصا اختلاف رائے موجود رہا ہے، تاہم یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ یرغمالی فرد شماری کے بجائے پیدائش افراد پر بھرپور زور دیتے تھے۔

انھیں کس نے یرغمال بنایا تھا؟ اور یہ کیوں یرغمال تھے؟ اس بارے میں بہت کم مواد دستیاب ہے۔ تاہم شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو یرغمال کرنے والی قوتیں ایک سے زیادہ تھیں جن میں بیرونی طاقتوں کے ساتھ ان کے اندرونی جذبات‘ ہیجانات‘خرافات اور مقویات وغیرہ کا بھی خاصا عمل دخل رہا ہو گا، چنانچہ ان کی زیادہ تر حرکتیں اپنے وقت کی دوسری قوموں سے خاصی مختلف ہوتی تھیں مثلاً عام طور سے اس دور میں لوگ سر پھٹول اور جنگ و جدل کے ماحول میں غصے اور دشمنی کے اظہار کے لیے ہی فائرنگ ٹائپ کی کوئی حرکت کیا کرتے تھے۔

مگر یہ یرغمالی لڑائی جھگڑوں اور دنگے فساد کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ‘ عقیقہ‘ نکاح‘ بچہ پیدا ہونے‘ انتخابی بازی جیتنے اور سال نو کے آغاز جیسے مواقعے پر بھی دل کھول کر طمنچے بجاتے اور بارود کی بو میں ناچ ناچ کر قرب و جوار میں رہنے والی قوموں کا ناک میں دم کر دیتے تھے۔ اس زمانے کے بعض راویوں ‘ صحافیوں اور عمال دربار کے نایاب تحریری نسخوں کو دیکھ کر نتیجہ یہ ہی اخذ کیا گیا ہے کہ ان یرغمالیوں کے ہر دو طرح کہ یہ نگران ان یرغمالیوں کی جان و مال کے تحفظ اور سلامتی و خوشحالی کی خاطر کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔

چنانچہ ان یرغمالیوں کو بموں سے اڑانے‘ سر عام ذبح کرنے، ان کے جسد ہائے خاکی کو چوک کے کھمبے پر لٹکانے، کٹے ہوئے سروں سے فٹبال کی قسم کا کوئی کھیل کھیلنے اور حتیٰ کہ ان یرغمالیوں کے نگرانوں کے بچوں تک کو اغواء برائے تاوان کرنے والوں کو ان کے نگرانوں کا ایک حلقہ اور مصاحبین بڑے ادب تمیز کے ساتھ بگڑے ہوئے‘ جذباتی یا کچھ زیادہ سخت الفاظ میں شدت پسند عناصر کا نام دے کر ان سے بات چیت ‘ مکالمے اور مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے آل پارٹیزگیٹ ٹو گیدر کا اہتمام کرتے تھے۔ جن میں پیش کیے گئے کھانوں کی خبریں یہ یرغمالی بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔

ان یرغمالیوں کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انھیں انصاف بہت سستا ‘ بڑی آسانی سے اور گھر بیٹھے مل جاتا تھا اور ان کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی کا طریقہ بہت آسان کر دیا گیا تھا ۔ یعنی دور درشن پر دکھائی جانے والی ’’پٹی بردار خبروں‘‘ کے ذریعے نوٹس یا سخت نوٹس کی خبریں سرخ‘ سفید‘ سیاہ اور رنگ برنگی پٹیوں‘ حاشیوں میں انھیں دکھلا کر، انصاف کی تسلی بخش فراہمی کی بنیاد ، بر وقت رکھ دی جاتی تھی ۔

حادثات ‘جرائم ‘ قتل و غارت ‘ ڈکیتی و رہزنی اور ناگہانی اموات اس خطے میںمعمول کی سی باتیں سمجھی جاتی تھیں ۔ جرائم کی وارداتوں سے پیدا ہونے والے خوف کو کم کرنے کے لیے ان لوگوں نے عملی اقدامات کرنے کے بجائے کاغذی خانہ پری اچھی طرح کی ہوئی تھی یہ لوگ جرائم کو مختلف کیٹگریز مثلاً اہدافی قتل ‘ فرقہ جاتی قتل ‘ قسط واری قتل‘ آپس کی دشمنی کا قتل اور نا معلوم قتل وغیرہ وغیرہ میں بانٹ کر اپنے خوف کو کم کرکے ان کیٹگریز میںموجود سنسنی سے حظ اٹھاتے اور کسی حادثے سانحے کے اصل اسباب و حقائق جاننے کی الجھن میں پڑنے کے بجائے یہ کہہ کر حقائق سے منہ موڑ لیتے کہ ’’ اوپر والے کی یہ ہی مرضی تھی ‘‘ مطلب یہ کہ اوپر والے کے معاملات میں ہمارا کیا دخل ؟

یہ یرغمالی دنیا کے پرامن ترین جذبات کے حامل یرغمالی بھی کہلائے جاتے تھے ، انھیں روٹی ‘ پانی ‘ کپڑا ‘ مکان ‘ دوا دارو ‘ تعلیم روزگار ‘ ایندھن توانائی وغیرہ میسر آتے یا نہ آتے ۔ اس کی انھیں چنداں پرواہ نہیں تھی ۔ نہ ہی اپنے نگرانوں کی خواہشات کے عین مطابق ان محرومیوں پر کوئی بامقصد اور نتیجہ خیز احتجاج یا ان مشکلات اور تکالیف سے نجات کا کوئی منصوبہ ان یرغمالیوں کا مطمع نظر یا ترجیحات کا حصہ ہوتا تھا ، لیکن ہاں ایک بات تھی ان میں کہ دور کہیں کسی بیمار ذہنیت کا کوئی استعماری گماشتہ کسی نہایت فضول کارٹون یا کیری کیچر وغیرہ کے ذریعے ان کے جذبات کو چھیڑ تا تو پھر یہ قابو میں نہیں آتے تھے اور اپنی املاک کو دشمن کی املاک سمجھ کر تباہ کردیتے تھے ۔

ان لوگوں کی سوچیں بھی بڑے کمال کی تھیں ۔ یہ اپنی ‘ اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی فکر سے قطعاً بے غرض و بے نیاز رہتے تھے لیکن انھیں اپنے ماضی سے بہت پیار تھا ۔

ان لوگوں کی بعض خصوصیات کا مطالعہ کر کے محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم اور معیشت کا استحکام تو ان لوگوں کے لیے گویا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ بہت خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے۔

یا پھر نہایت بے وقوف ‘ کاہل اور نکمے چنانچہ دکانیں‘ بازار‘ کاروبار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بند کر کے معیشت کا پہیہ جام کرنا یہاں کا روز مرہ تھا، اپنے بچوں اور نسلوں کی تعلیم سے تو یہ یرغمالی اتنے مطمئن دکھائی دیتے تھے کہ نہ صرف اپنے اپنے نگرانوں کی کال پر یہ اپنے بچوں کے اسکول ‘ کالج اور یونیورسٹیاں خوشی خوشی بند کروا کر تالیاں بجاتے بلکہ اپنے نامور بزرگوں اور اسلاف جنہوں نے اپنی ساری زندگی وقت کی قدر کرکے سخت محنت اور جدوجہد سے کارنامے انجام دے کر نام کمایا تھا ۔ ان بزرگوں سے وابستہ دنوں میں بھی یہ یرغمالی سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو ہی بند کروا کے اپنے اس یقین محکم کو مزید پختہ کرتے کہ ہاں وقت کے قدر شناس ہمارے بزرگوں کے کارناموں اور قربانیوں کے طفیل ہی آج ہمارے بچے اسکول ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ایک دن کی چھٹی پر ہیں۔

تعلیم اور اسلاف کے کارناموں سے ان کی محبت اور دیوانگی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ جس نامور بزرگ کے یوم ولادت ‘ وفات یا شہادت پر تعلیمی اداروں کی چھٹی نہ ہوتی تو اس دن کے حوالے سے ان کا پہلا مطالبہ صرف اور صرف یہ ہی ہوتا تھا کہ ’’چھٹی کرو‘‘ !! بڑے ہی دلچسپ اور عجیب تھے یہ لوگ تاریخ ان جیسی کوئی دوسری اسپے شیز(Species) ابھی تک تلاش نہیں کر سکی۔

یہ اپنی نسل‘ ذات‘ زبان‘ رنگ‘ دھرم‘ عقیدے‘ علاقے‘ نظریے‘ مطالبات وغیرہ وغیرہ کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے اور ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات تو کنٹینروں کی طرح کے ہیولوں پر چڑھ کر کھڑے ہو جاتے، لیکن کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دینے پر بڑے چراغ پا ہوتے‘ بڑی بے چینی کا مظاہرہ کرتے حتیٰ کہ مخالفین کی راہ میں ٹرالر ٹائپ کی رکاوٹیں تک اڑا دیتے تھے۔ ان یرغمالیوں کی ایک اور خوبی جو انھیں دوسروں سے ممتاز و منفرد کرتی وہ یہ تھی کہ جب بھی کوئی ولایت النسل ملک و قوم ان کو اپنے ہاں سفر کا اجارہ یا لاٹری ویزا وغیرہ آفر کرتا تو پھر یہ پھولے نہیں سماتے تھے اور بڑی چستی و پھرتی کے ساتھ اگلے پچھلے تمام رشتوں ‘ تعلق اور ماضی و حال کی تمام علتوں سے جان چھڑا اسی ملک کے لیے عازم سفر ہو جاتے جسے یہ اب تک ثواب سمجھ کر گالیاں دیتے چلے آئے تھے ۔

باہر جا کر جب یہ تھوڑے سیٹ ہو جاتے تو علم کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی بناء پر یہ خود کو دوسروں سے مختلف دکھانے کے قابل سمجھتے مثلاً اپنی نسل‘رنگ‘ زبان‘ نظریہ ‘عقیدہ ‘ علاقہ وغیرہ کی عظمت انھیں پھر سے یاد آنے ‘ ستانے لگتی ، چنانچہ تمام فرنگی حقوق حاصل کر لینے کے باوجود بھی باہر جانے والے ان ‘ لوگوں میں سے بعض نیم پڑھے لکھے یرغمالی خود کو دانشور وغیرہ ثابت کرنے کی دھن میں مقالوں‘ سیمیناروں‘کانفرنسوں اورکمرشل و سوشل میڈیا وغیرہ قسم کے ڈبوں میں بیٹھ کر وقفوں وقفوں سے افتراقی اقسام کی دانشوریاں کرکے بدیسی اور دیسی یرغمالیوں کے دماغوں کو خراب کرنے کا ’’مصالحہ ‘‘ ایکسپورٹ وامپورٹ کرتے رہتے تھے ۔

نوٹ: یہ بات ابھی زیرتحقیق ہے اور محققین اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر رہے ہیں کہ … یرغمالیوں کی یہ نسل دنیا کے کس بر اعظم میں آباد تھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔