اماں

ندیم جاوید عثمانی  جمعرات 29 جنوری 2015
یہ خیال آتا تھا شاید اماں زیادہ کھاتی ہے بچا کر رکھتی ہے ساری روٹی ہمارے اُٹھنے پر کھاتی ہے۔ فوٹو: فائل

یہ خیال آتا تھا شاید اماں زیادہ کھاتی ہے بچا کر رکھتی ہے ساری روٹی ہمارے اُٹھنے پر کھاتی ہے۔ فوٹو: فائل

ایک ماں، چار بچے اور پانچ روٹیاں

جہاں بھوک کے مقابلے میں روٹیوں کی تعداد ہمیشہ ہار جاتی تھی!

اور بھوک وہ اُستاد ہے۔ جو ہمیشہ، تمہیں اپنے لئے دوسروں سے چھیننے کا درس دیتی ہے

لہذا اسی اُستاد کی ترغیب پر۔ اپنی روٹی ختم ہونے کی صورت میں

مزید ایک دو لقموں کی خواہش پر، میرا ہاتھ دیگر بہن بھائیوں کی روٹی کی جانب بڑھنے لگتا تو

اماں کے پاس دھری چھڑی ہمیشہ میرے ہاتھوں پر ایک نشان چھوڑ جاتی تھی

اور اپنی روٹی سے ایک نوالہ چھن جانے کے خوف کے باعث

بہن بھائیوں میں جلد از جلد اپنی روٹی ختم کرنے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی تھی

خیر نوالہ چھننے کا خوف تو مجھے بھی اپنے آخری نوالے تک ستاتا تھا

اور میں اکثر اس خیال سے روٹی کو گھورنے لگتا تھا

ابھی اس کے پاؤں نہیں تو یہ ہم سے کتنا بھاگتی ہے اور جو کسی روز اس کے پیرنکل آئے

تو ہم سے بھاگنے کی اس کی رفتار کا کیا عالم ہوگا؟

بہن بھائیوں کی ختم ہوتی ہوئی روٹی دیکھ کر

مجھ پر ایک مایوسی سی چھانے لگتی تھی اور پھر میری نظریں

اماں کی چنگیر میں جوں کی توں دھری روٹی پر ٹک جاتی تھیں

تو میرے من میں اکثر یہ خیال آتا تھا شاید اماں زیادہ کھاتی ہے

بچا کر رکھتی ہے ساری روٹی ہمارے اُٹھنے پر کھاتی ہے

اور شام ہونے پر صبح کی کھائی ہوئی وہ اکلوتی روٹی کھیل کود میں جب ہضم ہوجاتی تھی تو

پیٹ پھر سے بھوک کی تسبیح پر

روٹی ھو۔ روٹی ھو۔ کا ورد کرنے لگتا تھا

اور شام میں جب کالی چائے کے ہمراہ اماں ہتھیلی پر

روٹی کا ایک ایک چوتھائی حصہ رکھتی تو

مجھ کو ایسا لگنے لگتا تھا جیسے صبح ہتھیلی پر پڑنے والی اُس چھڑی کی ٹیسوں پر

اس روٹی کے ٹکڑے کی صورت، مرھم رکھنے کی ایک ناکام سی کوشش ہو

پھر ایسا ہی روٹی کا ایک چوتھائی حصہ باقی تینوں بہن بھائیوں کی ہتھیلی میں دبا نظر آتا تو

نجانے کیوں

اماں کی چنگیر میں وہ اُس کے حصے کی روٹی اکثر مجھ کو یاد آنے لگتی تھی

ہاں۔ جوں کی توں دھری رہ جانے والی وہ ایک روٹی

جس کو دیکھ کر میں سوچا کرتا تھا

شاید اماں زیادہ کھاتی ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔