کیا وائٹ ہاوس واقعی دنیا کی محفوظ ترین عمارت ہے؟

سالار سلیمان  جمعرات 29 جنوری 2015
 امریکیوں کو دنیا کی ٹھیکیداری کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہئے۔ فوٹو اے ایف پی

امریکیوں کو دنیا کی ٹھیکیداری کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہئے۔ فوٹو اے ایف پی

امریکہ، روس کو شکست دینے کے بعد دنیا کا جبری ٹھیکیدار تو بن چکا ہے لیکن فطری عمل کے تحت اُس کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ آج امریکہ ٹوٹے اور وہ محلے بھر میں مٹھائی تقسیم کریں، چاہے پوری دنیا کی معیشت اِس تباہی کے ساتھ تباہ ہوجائے اور یا اپنے ملک کی معیشت کو ڈالر کے ردی ہونے سے زوردار جھٹکا لگے، خوشی کے شادیانے بجانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایسے افراد ویسے تو ہالی ووڈ کی فلمیں نہیں دیکھتے ہیں لیکن ایسی فلمیں جن میں امریکی تباہی دکھائی گئی ہو یا پھر ایسی فلمیں جن میں امریکی زوال دکھایا گیا ہو، بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ آزادی اظہار کے ضمرے میں ایسی فلموں پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے، بلکہ وہ اگر چاہیں تو پروجیکٹر لگا کر’’وائٹ ہاوس ڈاؤن‘‘ یا ’’اولمپس ہیز فالن‘‘ یا اس جیسی دیگر فلمیں لوگوں کو بھی دکھائیں کیونکہ جمہوری ملک میں اُن کو ایسا کرنے سے کوئی نہیں روکے گا۔

امریکی بھی عجیب لوگ ہیں کہ بڑکیں مارنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے میں نے یہ پڑھا تھا کہ وائٹ ہاوس دنیا کی محفوظ ترین عمارتوں میں سے ایک ہے اور وہاں چڑیا بھی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پر نہیں مارسکتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟

ہم پہلے وائٹ ہاؤس کی حفاظت یعنی سکیورٹی کے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وائٹ ہاوس کی تاریخ 1789ء سے شروع ہوتی ہے۔  یہ امریکہ کی اہم ترین عمارتوں میں سے ایک عمارت ہے جس کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات ہوتے ہیں اور ان کو حتی الامکان فول پروف رکھا جاتا ہے۔ جان کینیڈی کے وائٹ ہاوس کے بارے میں تاریخی اقدامات کے بعد سے اب تک وائٹ ہاوس کی سکیورٹی میں پر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاوس میں داخلے سے پہلے ایک مضبوط سکیورٹی کی باڑ ہے۔ یہ باڑ لوہے کی بنی ہوئی ہے جہاں سے وائٹ ہاوس نظر آتا ہے لیکن اس کو پار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ باڑ کے بعد کنکریٹ کی چھوٹی دیواریں ہیں اور اس کے بعد سیکرٹ سروس کے افسران موجود ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاوس کی چھت اور مختلف خفیہ مقامات پر سیکرٹ سروسز کے جوان پہرہ بھی دیتے ہیں، جب کہ چھت پراسنائپر شوٹرز تعینات ہوتے ہیں۔

انہوں نے گہرے چشمے لگائے ہوتے ہیں، ان کے نام کوڈ ورڈز میں ہوتے ہیں اور یہ امریکی صدر اور اِن کے خاندان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

فوٹو؛ اے ایف پی

وائٹ ہاوس میں آنے والی تمام تر خوراک کو خصوصی اسکینر سے اسکین کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں کسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔ وائٹ ہاوس کے اوپر اور اطراف میں جہاز اور ہیلی کاپٹر تک داخل نہیں ہوسکتے بلکہ نائن الیون کے بعد وائٹ ہاوس کی فضائی حدود میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ وائٹ ہاوس کی چھت پر جدید اور خصوصی ریڈار چوبیس گھنٹے اس فضائی حدود کی نگرانی کرتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس فضائی حدود میں ایسی لہریں ہوتی ہیں کہ پرندے تک اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ وائٹ ہاوس کی کھڑکیاں، شیشے اور دیواریں میزائل پروف ہیں۔ وائٹ ہاوس میں ’ہیٹ سکینرز‘ بھی لگے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف جگہ پر انفراریڈ سکینرز بھی لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاوس کے اطراف میں ائیر فلٹر سسٹم لگایا گیا ہے یعنی وائٹ ہاوس میں داخل ہونے والی فضاء بھی صاف کی جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ وائٹ ہاوس کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے ۔

اس کے باوجود وائٹ ہاوس میں فروری 1974ء سے لیکر اکتوبر 2014ء تک جبری داخلے یا حملے کی کئی بار خبریں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سے چار دفعہ کی کوششیں تقریباً کامیاب ہوچکی تھی۔ یہ واضح رہے کہ امریکی جوہری ہتھیاروں کی معلومات جس مخصوص بریف کیس میں ہوتی ہیں، وہ اسی وائٹ ہاوس میں ہوتا ہے یعنی یہ بریف کیس صدر کی دسترس میں ہوتا ہے اور اس کو صرف صدر ہی مخصوص کوڈ لگا کر کھول سکتا ہے۔

اس وائٹ ہاوس میں گزشتہ دنوں ایک ڈرون ڈیوائس آ گری تھی۔ پہلے پہل تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ۔اس کے بعد جب کسی سیکرٹ سروس کے اہلکار کی اس ڈرون پر نظر پڑی تو وائٹ ہاوس میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا۔ وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری نے کہا کہ یہ ڈرون مسلح نہیں تھا اور بظاہر یہ ایک کھلونا ڈرون ہے۔ اس حوالے سے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ وائٹ ہاوس کے انتظامات میں تواتر سے خامیاں سامنے آرہی ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے سیکرٹ سروسز کے وائٹ ہاوس بارے اقدامات کو اُن کا میڈیا تنقید کا نشانہ بنارہا ہے۔

فوٹو؛ اے پی

امریکی تواتر سے ہمیں یہ بتاتے رہے ہیں کہ وہ سکیورٹی کے معاملات کو سب سے بہتر جانتے ہیں اور پاکستان کو سکیورٹی معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وائٹ ہاوس کی سکیورٹی میں موجود خامیوں کو کون دور کرے گا؟ امریکی ہمیں ہماری جوہری تنصیبات کی حفاظت کا درس دیتے ہیں لیکن خود کئی ایٹمی بم اور ہائیڈروجن بم اپنی نااہلی کی وجہ سے دنیا کے سمندروں میں کھوچکے ہیں۔

کیا یہ سب چیزیں دہشت گردوں کے ہاتھوں نہیں لگ سکتی؟ ہمارے وزیراعظم ہاؤس یا ایوان صدر کے بارے میں تو ایسی باتیں سامنے نہیں آتی ہیں۔ لہذا میری ناقص رائے میں امریکیوں کو دنیا کی ٹھیکیداری کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہئے، ہم نے شدید حالت جنگ میں بفضل تعالیٰ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کرکے دنیا کو بتادیا ہے کہ ہم کس قدر اہل لوگ ہیں لیکن سوال تو آپ سے پوچھنا چاہیے کہ تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود وائٹ ہاوس بھی غیر محفوظ ہے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔