امریکا بھارت قربتیں!! پاکستان کو بھی اپنی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھانا ہوگا

احسن کامرے  جمعـء 30 جنوری 2015

امریکی صدر اوباما کے دورۂ بھارت سے اس خطّے کی سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ دورہ خطے کی جیو سٹریٹجک تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان چین کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کا دروازہ کھولنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جبکہ امریکا اور بھارت پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط سے ناخوش ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتیں نئے اتحاد بنا رہی ہیں اور امریکا بھارت قربتیں بھی اسی کا پیش خیمہ ہیں۔ امریکی صدر اوباما کے حالیہ دورۂ بھارت کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان کے اس دورے کے خطے پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

جاوید حسین (سابق سفارتکار)

امریکا اس وقت سپر پاور ہے اور وہ دنیا کی سپر پاور ہی رہنا چاہتا ہے، چین دنیا کی بڑی پاور بن کر ابھر رہا ہے اور امریکا کی ساری توجہ اس پر مرکوز ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2027ء تک چین کا معاشی حجم امریکا کے معاشی حجم سے بڑھ جائے گا تاہم ملٹری پاور میں چین امریکا سے ابھی بہت پیچھے ہے ۔ امریکا کے جو اتحادی ممالک ہیں اگر انہیں ملایا جائے تو چین کے مقابلے میں امریکا کے پاس بہت بڑی طاقت ہے ۔امریکا یہ جانتا ہے کہ اگر چین کی معاشی طاقت اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر اس کی ملٹری طاقت بڑھے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے نئے اتحادی بنیں گے اور وہ مزید مضبوط ہوجائے گا۔

لہٰذا اس وقت امریکا چین کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کے لیے وہ دنیا بھر میں نئے الائنس بنا رہا ہے اور اس خطے میں اس نے بھارت کو اپنے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر منتخب کیا ہے لہٰذابھارت کے ساتھ دوستی چین کی طاقت کو روکنے کیلئے ہے اور امریکا نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو ہائی لیول پر رکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بھارت رقبے اور معیشت کے لحاظ سے ہم سے بڑا ہے اور جیسے جیسے اس کی معاشی حالت مضبوط ہورہی ہے وہ اپنی ملٹری طاقت کوبھی بہتر کررہا ہے۔

امریکی صدر کے دورہ بھارت سے ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ امریکا بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اس خطے میں بھارت کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کبھی بھی بھارت کی برتری اور تسلط قبول نہیں کرے گا۔ اب ہمارے لیے ضروری یہ ہے کہ ہم ان کے تعلقات کو سمجھیں ، اس حوالے سے اپنی پالیسی وضع کریں اور اقدامات بھی کریں۔ امریکا بھارت مشترکہ سٹریٹجک ویژن میں امریکا کا اصل مقصد چین کے کردار کو کم کرنا ہے اور بھارت جنوبی چین میں اپنے کردار کو بڑھانا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ امریکا اور بھارت ایک دوسرے کیلئے بڑی مارکیٹ ہیں، بھارت کے پاس 1.2بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے جبکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اوردونوں آپس میںتجارت کو بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی بھارت کے ساتھ حقیقی دوستی نہیں ہوسکتی، ہم نے یہ ملک دوقومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا، پاکستان اور بھارت الگ الگ تہذیب سے تعلق رکھتے ہیںاور بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت ہمارے بہت سارے مسائل ہیں۔ بھارت یہاں اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے اور اس خطے میں ہونے والے تمام فیصلوںپر اپنا فیصلہ مسلط کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ابھی تک ’’سارک‘‘ سے کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکالہٰذا میرے نزدیک پاکستان کو سارک کی بجائے ’’ای سی او‘‘ کی طرف جانا چاہیے۔

اس کے دس ممبر اسلامی ریاستیں ہیں ، اس کا حجم اور جی ڈی پی سارک سے کہیں زیادہ ہے، وہاں ہمارے تجارتی مفادات بھی زیادہ ہیں لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرلیں۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں ، دونوں کواپنے مسائل پرامن طریقے سے حل کرنے چاہئیں کیونکہ دونوں ابھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ چین کے خلاف بھارت اس کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اس لیے وہ سکیورٹی کونسل میں اس کی مستقل نشست کی حمایت کررہا ہے اس سے اقوام متحدہ میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔

امریکی صدر نے دورہ بھارت سے قبل ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو میںکہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ممبئی حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور ان کی پشت پناہی نہ کرے ۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے اور ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اوباما کے ان الفاظ سے ہمارے مقابلے میں بھارت کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔

امریکا چاہتا ہے کہ اس خطے میں اس کا سب سے بڑا حمائتی ’’بھارت‘‘  سلامتی کونسل کا حصہ بنے۔اس کے علاوہ امریکا ہمارے سے مختلف طریقے سے ایسے کام کروانے کی کوشش کرے گا جس سے آہستہ آہستہ خطے میں بھارت کا تسلط قائم ہو اوراس وقت ہماری بھی ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ ہم امریکا کی دشمنی مول لے سکیں لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چین کے ساتھ اپنا معاشی و سٹریٹجک الائنس مضبوط بنائیں لیکن ہماری امریکا کے ساتھ جو پرانی دوستی چلی آرہی ہے اسے بھی ساتھ ساتھ رکھیں کیونکہ چین کو سپر پاور بننے میں ابھی نصف صدی سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ اب پاکستان اور امریکا کے تعلقات بالکل ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کی سیاسی و معاشی مضبوطی امریکا کے مفاد میں ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے اندورنی معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنی پالیسی نئے سرے سے وضع کرنا ہوگی، ہمیں ایسی پالیسی اختیار کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے جس سے ہمیں سکیورٹی یا معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔

ڈاکٹر عاصم اللّٰہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

اوباما کا دورہ بھارت اچانک نہیں ہے ، یہ ایک عمل ہے جو کافی عرصہ سے چل رہا ہے ۔ اوباما کاحالیہ دورہ، بھارت کو علاقے میں بطور ایس ایچ اومتعارف کروانے کی ایک کڑی ہے۔امریکا چین کی تجارت کے راستے میں رکاوٹ ڈال کر اسے کمزور کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ کسی بھی ملک کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت بعد میں ملٹری طاقت کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔اس لیے اس نے اس خطے میں بھارت کے ساتھ الائنس بنایا ہے اور اسے اپنا سٹریٹجک پارٹنر قراردیا ہے۔

امریکا کے ساتھ دوستی کے بعد اب بھارت کو ایسے کئی معاملات کیلئے خود کو تیارکرنا ہوگا جو امریکا کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں ہوتے ہیں اور اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا بغیر مفادکے کسی کی مدد نہیں کرتا۔ امریکا نے بھارت سے نیوکلیئر معاہدہ اس صورت میں کیا ہے جب بھارت نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی تمام شرائط تسلیم کرلی ہیں اور اب اس حوالے سے بھارت میں شدید تحفظات پائے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا کا بھارت کے ساتھ تجارت کو سو بلین ڈالر سے بڑھا کر پانچ سو بلین ڈالر تک لے جانے کا مقصد چین کو یہ بتانا ہے کہ اس کا متبادل بھی موجود ہے، لیکن یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اتنی بڑی تجارت کس چیز کی کرے گا اور ان سے کیا خریدے گا۔

اس وقت افغانستان میں داعش اور طالبان کے حوالے سے جو نئی صورتحال بن رہی ہے اس میں افغانستان یہ سمجھتا ہے کہ اس کا فائدہ صر ف بھارت کو ہوگا اور نقصان افغانستان اور پاکستان دونوںکو ہوگا ۔ میرے نزدیک اب پاکستان اور افغانستان بھی مل کر آگے چلیں گے اورپاک افغان تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ اوباما کے دورہ بھارت میں پاکستان کی ڈپلومیٹک کامیابی یہ ہے کہ اس میں پاکستان پر بحث نہیں ہوئی، اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ چین بھی اہمیت کا حامل ہے۔ وسیع دائرہ کار میں دیکھیں تو آرمی چیف نے امریکا ، برطانیہ اور چین کا دورہ کیا۔

اس سے ہم دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم دنیا کے زیادہ ممالک کے لیے قابل قبول ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان بہتر طریقے سے کھیلا ہے اور ہماری پوزیشن زیادہ بہتر ہے۔امریکا اور بھارت کے مشترکہ سٹریٹجک ویژن میں پاکستان کو دیکھنا یہ ہوگا کہ اس نے اپنے مفادات کو محفوظ کیسے رکھنا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا اور بھارت کا ایک پراجیکٹ زمینی راستے کا ہے جو جاپان سے شروع ہوگا پھر میانمر، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، افغانستان سے ہوتا ہوا وسطی ایشیا سے جا ملے گا۔ پاکستان نے اس روٹ سے انکار کردیا ہے۔

اس وقت چین، پاکستان کے ذریعے وسطی ایشیا سے منسلک ہونا چاہتا ہے، ہمیں اس کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہیے اور اس سب میں ہمارا دشمن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گالہٰذاپاکستان کو اس بارے میں محتاط رہناہوگا۔ سلک روٹ بننے سے خطے میں پاکستان کا کردار اہم ہوجائے گا اور پھر یہ پاک چین سٹریٹجک پارٹنرشپ خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ امریکا سے تعلقات قائم کرنے کے بعد بھارت پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے اور اسے امریکا کے بہترین پارٹنر کے طور پر اپنی حیثیت کو منوانا ہوگا۔

خالد محمود رسول (تجزیہ نگار)

امریکی صدر کا دورۂ بھارت ، کاروباری لوگوں سے ملاقاتیں ، مختلف معاہدے اور جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کے اس دورے میں سفارتی، سکیورٹی اور تجارتی حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے ۔اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا میں انڈین نژادلوگوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور اب وہ لوگ سیاست میں بھی حصہ لے رہے ہیں، ان میں سے گورنربھی ہیںاور سینٹ اور کانگریس میںبھی ان کی نمائندگی موجود ہے ۔ کاروباری حوالے سے’’ سلیکون ویلی‘‘ میں بھارتی لوگ نمایاں ہیں لہٰذا ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑھنا لازمی عمل ہے۔

ہم امریکا بھارت تعلقات کوایک ہی نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں ، ہمیں ان کے تعلقات پر حساس ضرور ہونا چاہیے تاہم اس میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکا ایک سپر پاور ہے، اس کے دنیا میں مفادات ہیں اور اسی لحاظ سے اس نے اپنے تعلقات اسطوارکیے ہوئے ہے ۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے اور ایشیا کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے لہٰذا امریکا اپنے تجارتی مفادات کے لیے بھارت سے تعلقات بہتر بنا رہا ہے۔ ہمیں اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے کیا ہے۔

92ء میں جب سرد جنگ کا سلسلہ ختم ہوا اور مختلف ممالک اپنے اپنے انداز میں چلنا شروع ہوگئے تو پھر تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اس کے بعد دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی،’’ڈبلیو ٹی او‘‘ شروع ہوا جس پر تمام ممالک متفق ہوگئے اور پھر مختلف ممالک کے درمیان تجارت میں تیزی آگئی۔ 9/11 کے بعد دنیا کے سکیورٹی منظر نامے میں تبدیلی آئی پھر 2008ء میں یورپ میں جو معاشی بحران آیا ہم نے اسے اہمیت نہیں دی مگر اس کے اثرات عالمی سیاسی، سفارتی اور تجارتی پالیسیوں پر مرتب ہوئے ۔ 1992ء سے 2008ء کے دوران دنیا میں سیاسی، سفارتی اور معاشی اعتبار سے جو صف بندیاں ہوئیں، اب ان کی ترتیب تبدیل ہورہی ہے اور نئے اتحاد بن رہے ہیں۔

اس نئے الائنس میں ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اپنی اپنی حیثیت ہے، میرے نزدیک ہمیں ہر چیز کو پاک بھارت دشمنی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے ۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ امریکا ،چین کے کردار کو کم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کررہا ہے۔ ستمبر2014ء میں چینی صدر کے دورہ بھارت کے دوران ہی بھارتی فوج اور چینی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی اور اس دورے سے بھارت کو بعدازاںکوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ میرے نزدیک چین اور بھارت کے تعلقات میں اعتماد کی کمی ہے اور ان کے جغرافیائی اور سیاسی مسائل عرصہ دراز سے چلتے آرہے ہیں۔

اگر مختلف ممالک کے درمیان بننے والے تعلقات کی روح دیکھیں تو قریباََ تمام تعلقات تجارت کی بنیاد پر بن رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ہم اس وقت دہشت گردی و دیگر مسائل کا شکار ہیں ، ہمیں انرجی بحران کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے جی ایس پی پلس سٹیٹس سے بھی ہم کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی باہر سے کوئی انوسٹمنٹ یہاں آئی ہے۔ لہٰذا جب تک ہمارے ملک میں کسی دوسرے ملک کو تجارتی فائدہ نظر نہیں آئے گا ہمارا اتحاد نہیں بنے گا۔

افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ پایاجاتا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی بھارتی ہاتھ ملوث ہے لہٰذا ان مسائل کی وجہ سے اس خطے کی معاشی ترقی نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ریاست کمزور ہوتی گئی ، انتہا پسندی نے زور پکڑنا شروع کیااور دنیا کے سامنے ہمارا امیج خراب ہوگیا۔میرے نزدیک پاکستان کوامریکا بھارت تعلقات پر توجہ دینے کی بجائے اپنے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے،اگر ہم اپنی اندرونی حالت بہتر کرلیں تو ہمیں اس سے بہت فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

چین اور روس کے لیے بھی پاکستان بہت اہم ہے اوراگر بھارت وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ اس لیے اگر ہم اپنے مسائل ختم کرلیں تو ہمارے لیے ترقی کا راستہ کھلا ہے۔ میرے نزدیک امریکا بھارت تعلقات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا اور بھارت کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا پڑیںگے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

نریندر موودی جب بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کے حوالے سے امریکا کوبھی تحفظات تھے ۔ گجرات کا واقعہ اورموودی کی اقلیتوں کے بارے میں سوچ کو امریکا نے بھی ناپسند کیا اورپھر موودی کو امریکا جانے کی اجازت بھی نہیں ملی تھی ۔ امریکی صدر نے اپنے حالیہ دورہ بھارت میں موودی کی سیاسی بصیرت کی تعریف کی ہے۔ میرے نزدیک اس دورے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے امریکا اور بھارت کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس دورے کی نیچر تجارت کے حوالے سے ہے تاہم اس نے ہمارے لیے بہت سے چیلنجز کھڑے کردیے ہیں۔

امریکی صدر کا دورہ ،بھارت کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے اور بھارت اس میں اپنی تجارتی اہمیت منوانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ بھارت امریکا کیلئے اسلحہ کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور اب وہ امریکا سے اسلحہ خریدرہا ہے۔2008ء میں جب بھارت کو نیوکلیئر ری ایکٹر دینے کی بات ہوئی تو اس حوالے سے دنیا بھر میںبہت سے تحفظات سامنے آئے تھے کیونکہ بھارت نے ’’این پی ٹی‘‘معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ کانگریس کااس حوالے سے بڑا سخت موقف تھا کہ بھارت کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی بلکہ بھارت یہ ضمانت دے گا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کوصرف توانائی کے لیے استعمال کرے گا اور اس سے وارہیڈز نہیں بنائے گا۔

بھارت اس شق کے خلاف تھا اور اب اوباما نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھارت سے سول جوہری معاہدے میں ٹریکنگ سسٹم کی پابندی ختم کردی ہے ، جس کے بعد بھارت کو کھلی چھوٹ ہے اور اب وہ نیوکلیئر ری ایکٹر کوآسانی سے بڑھا کر ایک بڑی نیوکلیئر پاور بن سکتا ہے۔اس کے علاوہ اوباما نے سکیورٹی کونسل میں بھارت کی مستقل نشست کی حمایت کی ہے، سکیورٹی کونسل کے چار ممبریورپی ممالک ہیں اور بھارت کو ان کی حمایت حاصل ہے۔اس کونسل کا پانچواں ممبرچین ہے اور وقتاً فوقتاً چین نے بھی اس حوالے سے بھارت کی حمایت کی ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کا بھارت کے حوالے سے واضح موقف ہے لہٰذا یہ بھارت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بلاشبہ بہت اہم ہیں اوراب ہمیں چین کے ساتھ تعلقات کو اور زیادہ اہمیت دینا ہوگی ،آرمی چیف کے دوہ چین میں نئے ٹرینڈ سامنے آئے ہیں اور اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں سول حکومت سے زیادہ فوج کے پاس طاقت ہے۔ میرے نزدیک،اگر یہ وزیر اعظم کا دورہ چین ہوتا یا چینی صدر کا دورہ پاکستان ہوتا تو اس کے اثرات کچھ اور ہوتے۔

ہمیں اس چیز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ دور میں تجارتی مفادات سب سے زیادہ اہم ہیں،چین پاکستان میں اکنامک کوریڈور بنانا چاہتا ہے اور اپنے تجارتی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اسے عملی جامہ پہنانے کی حالت میں ہیں ؟ ہمارے اندرونی مسائل اور دہشت گردی میں کیا یہ پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گا ؟ چین گوادر کو بھی اہم سمجھتا ہے اور وہاں سے بھی اپنی تجارت کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اب چین کے ساتھ تجارتی مفادات پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ امریکا کا بھارت کے ساتھ تجارتی حجم بہت بڑا ہے اورا ب وہ اسے مزید بڑا کرنا چاہتا ہے، اگر بھارت اور چین کی تجارت دیکھیں تویہ تجارت بھی سو بلین ڈالر ہے جسے اب یہ مزید بڑھا رہے ہیں۔

امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تیار کررہا ہے تاکہ چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ ابھی تک امریکا اور چین میں براہ راست کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان کے آپس میں بھی تجارتی مفادات ہیں لہٰذا اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس جگہ پر کھڑے ہیں ، ہمارے پاس تجارت کرنے کے لیے کیا ہے ، ہم تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف مالی امداد کے لیے دیکھتے ہیں اور یہ ادارے دنیا میں ہمارے سیاسی اثرورسوخ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اب ہمیں اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، اگر ہم اسی طرح امریکا کی ڈکٹیشن پر چلتے رہے اور اسی کے مفادات کیلئے کام کرتے رہے تووہ ہمیں اسی طرح دنیا کے سامنے رسوا کرتا رہے گا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری اس غلط پالیسی نے ہی ہمیں اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے اور جتنی مالی امداد امریکا نے ہمیں دی ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارا نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں بھارت کو اپنا قابل اعتمادساتھی قرار دیا ہے ۔امریکا یہ بخوبی جانتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کے حوالے سے پاکستان کوتحفظات ہیں لیکن وہ اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے میں بھارت کے کردار کو اہم سمجھتا ہے۔امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں ہمارے لیے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کا راستہ کھلا ہے۔

ہمیں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ چین اور روس کے لیے گوادر پورٹ اہمیت کا حامل ہے لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دیناہوگی اور ہمیں اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کیلئے سوچنا ہوگا۔ اگر ہم امریکا کے مفادات کے لیے ہی کام کرتے رہے تو ہم دنیا میں اپنی اہمیت نہیں منوا سکتے۔ میرے نزدیک بھارت نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی سے وہ سب کچھ حاصل کیا ہے جو اس کے ملکی مفاد میں ہے لیکن ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے، ہم امداد کیلئے چین کی طرف دیکھ رہے ہی لیکن چین کبھی بھی ہمارے لیے بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کے خلاف نہیں جائے گا۔

اس دورے سے بھارت کی پوزیشن پاکستان کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے اور اب ہمارے پاس واویلا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس وقت بھارت امریکا اور چین دونوں سے مفادات حاصل کررہا ہے اور ابھی بھی روس کے ساتھ اس کے تعلقات ہمارے سے بہتر ہیں اور وہ بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بیلنس رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے پیسے کیلئے ہمیشہ اپنے ملکی مفادات کو نظر انداز کیا ہے جبکہ موودی اپنی قوم کے لیے کام کررہا ہے لہٰذاہمیں اپنے اندر قومی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہماری لیڈر شپ کو قربانی دینا ہوگی۔

بریگیڈیئر(ر) نادر میر (دفاعی تجزیہ نگار)

عراق ، افغانستان اور دیگر جگہ آپریشنز کی وجہ سے امریکا کی معیشت تباہ ہوگئی ہے اور اب چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر سامنے آیا ہے لہٰذا امریکا کا اصل مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور طاقت کو روکنا ہے اور اس کے لیے اسے نئے الائنس اور نئے سٹریٹجک پارٹنرکی ضرورت ہے۔ وسطی ایشیا میں اس کا ایک مستقل پارٹنر اسرائیل ہے جبکہ باقی تمام پارٹنر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں وہ بھارت پر مہربان ہورہا ہے، اوباما کا دورہ بھارت یہ ثابت کرتا ہے کہ اس خطے میں اس کا پارٹنر بھارت ہے۔

نریندر موودی کا جارحانہ انداز ہے اور وہ قوم پرست آدمی ہیںا س لئے امریکا انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔امریکا نے ہمیشہ دوسرے ممالک کو ناقص ٹیکنالوجی دی ہے اور بھارت کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ محض ایک لالی پوپ ہے۔ اس وقت بھارت کے لیے مشکل صورتحال ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ دوستی بھی بڑھارہا ہے اور چین کے ساتھ تعلقات بھی خراب نہیں کرنا چاہتا ۔اس کے علاوہ وہ پاکستان سے جنگ کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ نہ صرف بھارت بلکہ اس کا ساتھ دینے والے ممالک کا بھی مقابلہ کرسکتا ہے۔

امریکا، بھارت تعلقات کی ایک بڑی وجہ افغانستان کی صورتحال بھی ہے ۔ عراق ، افغانستان کے تجربے کے بعدامریکا نے نئی پالیسی بنائی ہے کہ وہ اب کسی بھی ملک میں براہ راست زمینی فوج سے کارروائی نہیں کرے گا کیونکہ برَی فوج کو بھیجنے سے اس نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وہ اس خطے میں بھارت کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات حاصل کرسکے۔اس معاہدے کے بعد ایسا نہیں ہے کہ بھارت ایک بڑی طاقت بن گیا ہے لیکن اس سے بھارت کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اسی تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بھی تبدیلی آئے گی۔

بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا اپنے مفادات کے بغیر کسی سے تعلق قائم نہیںکرتا، ہم عرصہ دراز سے امریکا کے دوست رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا تجربہ ہے لہٰذا یہ بھارت کی خوش فہمی ہے کہ اب اس کے لیے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس وقت ہمارے لیے اہم یہ نہیں ہے کہ اوباما یا موودی کیا کررہے ہیں ، ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت سوئی ہوئی ہے جبکہ بھارتی قیادت اپنے ملکی مفادات کیلئے کام کررہی ہے۔ کسی بھی ملکی معاملے میں سیاسی قیادت کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن ہماری سیاسی قیادت اس بارے میں سرگرم نظر نہیں آرہی۔

بی جے پی اگر اقتدار میں نہ بھی ہو تب بھی وہ پاکستان کے خلاف ہوتی ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتیںبھارت سے دوستی کرنا چاہتی ہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ جس ملک کے ساتھ ہمارا کشمیر پر جھگڑا ہے ، جو ہمارے شہروں پرمزائل داغ رہا ہے اس سے یکطرفہ دوستی ہوجائے لہٰذا بھارت کے ساتھ جو جھگڑا ہے پہلے اسے حل کرنے کی کوشش کریں دوستی اگلا مرحلہ ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہاںچین کے مفادات ہیں۔ ہمیں امریکہ، بھارت یا اسرائیل سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آرمی چیف کے دورہ چین کی علامتی و سٹریٹجک اہمیت ہے اور چین نے پاکستان کو اپنا فولادی بھائی بھی قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا جتنا بھارت کے قریب ہوگا ، پاکستان چین کے ساتھ اتنے ہی زیادہ روابط بڑھائے گا۔اس وقت پاکستان کو چین کے علاوہ روس کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات کی وجہ سے روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کے لیے راستہ کھلا ہے اورہمارا گوادر پورٹ روس کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں امریکا کے ساتھ بھی تعلقات میں توازن قائم کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔