حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

انتظار حسین  جمعرات 29 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یہ صبح کا وقت ہے۔ اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑاتے دوڑاتے ایک سرخی پر نظر ٹھہر جاتی ہے۔ ارے آفاقی گزر گیا۔ علی سفیان آفاقی۔ ایک پورا زمانہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ روزنامہ ’آفاق‘ نے اپنی اشاعت کے حساب سے دو دور دیکھے۔

ہمارے حساب سے وہ دو حصوں میں بٹا پورا ایک دور تھا۔ سمجھ لیجیے کہ اردو صحافت کا ایک دور۔ کتنا بھرا پرا وہ دور تھا۔ دَیّا کہاں گئے وہ لوگ۔ اخبار بھی اپنی جگہ ایک چلتی پھرتی چھاؤں ہوتا ہے۔ آج اس چھاؤں میں کتنے یار جمع ہیں اور اس گہما گہمی کے ساتھ کہ جیسے یہ صحبت سدا اسی رنگ سے جمی رہے گی۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کبھی اخبار دغا دے جاتا ہے اور جو یار جمع تھے وہ ایک دم سے بکھر جاتے ہیں۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ اخبار اپنی جگہ قائم ہے مگر حال یہ ہے کہ جمے جمائے اخبار نویس بھی آج ہیں‘ کل سِرک کر کسی اور اخبار میں یا کسی اور ادارے میں پہنچ گئے۔

آج یہاں کل وہاں‘ یہ ہمارے یہاں اخبار نویس کی تقدیر ہے مگر وہ جو آفاق کے دفتر میں ایک کمرہ تھا وہ تادیر آباد رہا اور اس طرح کہ دو نگ بیٹھے ہیں۔ دونوں کا اپنا اپنا رنگ ہے۔ ایک سے جو بھی ملنے والے آ رہے ہیں وہ ادبی دنیا کے لوگ ہیں۔ دوسرے کے گرد جو یار و اغیار جمع ہیں وہ فلمی دنیا کی مخلوق ہیں۔ گویا اس کمرے کا نقشہ یہ تھا کہ ایک گھڑے میں دو رنگ کا پانی۔ یعنی ہم اور علی سفیان آفاقی۔ ان کا کام الگ الگ۔ ایک نے فلمی صفحہ سنبھال رکھا ہے۔

دوسرے کے ذمے جو بھی کام ہو ہر حال اس کام میں کسی نہ کسی حوالے سے ادب کا پیوند لگا ہوا ہے۔ تو اخبار سے قطع نظر اس کمرے کے حساب سے یہ رفاقت لمبی چلی۔ ویسے جس طرح اس کمرے میں فلمی دنیا کی شخصیتوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اس سے ہم نے بہت پہلے یہ قیاس کر لیا تھا کہ یہ پنچھی اچانک کسی سہانی صبح یہاں سے اڑ جائے گا۔ یہاں سے اوجھل ہو کر وہ فلمی دنیا میں ہنستا کھیلتا نظر آئے گا۔

علی سفیان آفاقی کا طور کچھ ایسا ہی تھا۔ کسی کو ماموں کے خطاب سے نوازا۔ پھر وہ پورے اخبار میں رچی بسی مخلوق کا ماموں بن گیا۔ کسی کو کسی بھلے موقعہ پر چاچا کہہ دیا۔ پھر اس اخبار والوں کے لیے وہ چاچا بن گیا۔ فلمی فیچر بھی لکھا جا رہا ہے اور فلمی مہمانوں کی تواضع بھی ہو رہی ہے۔

ایک ٹولی گئی۔ اس کے لیے چائے کا آرڈر دیا۔ ساتھ میں ہنسی ٹھٹھا کیا۔ وہ رخصت ہوئے تو تیسرا کوئی آن ٹپکا۔ پھر چوتھا۔ پھر پانچواں۔ وہ زمانہ بھی عجیب تھا۔ دفتر میں آنے جانے والوں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اب تو گیٹ میں داخل ہوتے ہی کاؤنٹر پر اپنا نام بتانا پڑتا ہے۔ پھر جس نے ملنا ہے اس کا نام بتایا جائے گا۔ اس زمانے میں یہ ٹنٹنا نہیں تھا۔ آنے والے اس تصور کے تحت آتے تھے جیسے یہ اخبار کا دفتر نہیں ہے کوئی چوپال ہے یا کوئی کلب ہے۔

ہاں آفاقی کے ملاقاتیوں میں فلمی مخلوق کے سوا ایک ادیب بھی وقتاً فوقتاً نظر آتا تھا۔ شاید ہمارے دکھانے کے لیے کہ یہ مت سمجھنا کہ ہم خالی فلمی آدمی ہیں۔ ہماری محفل کی زینت ایک ادیب بھی ہے۔ یہ منٹو صاحب تھے۔ آفاق میں ان کی جو تحریریں چھپی ہیں‘ خاص طور پر خاکے انھیں آفاقی کا لایا ہوا مال سمجھیے۔ لیکن منٹو صاحب بیٹھتے کہاں تھے۔ آفاقی کو اٹھ کر ان کی بات سننی ہوتی تھی۔ پھر وہ فوراً ہی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔

ہاں چلتے چلتے اس اخبار کے ایڈیٹروں کا احوال بھی سن لیجیے۔ اڈیٹر تو اس اخبار میں اور بھی گزرے ہیں مگر ہمارے حافظہ پر جن دو ایڈیٹروں کی نمود نقش ہے وہ ہیں یا تھے پروفیسر سرور اور مولانا غلام رسول مہر۔ یہ دونوں اپنے اپنے طور پر نرالی مخلوق تھے۔ اخبار نویس تو کسی طرف سے نظر ہی نہیں آتے تھے۔ سرور صاحب تو واقعی صحافی نہیں تھے۔ جامعہ ملیہ نے جس رنگ کی مخلوق کو جنا ہے ان کا وہی رنگ تھا۔ جامعہ کی فضا سے نکل کر جب پاکستان پہنچے تو ہر چند کہ وہ پنجاب ہی کے فرزند تھے مگر پاکستان کی فضا سے آخر وقت تک مانوس نہیں ہو سکے۔ ارے ان کا آئیڈیل تو ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔

یہاں کے دانشوروں کی چال ڈھال اور تھی۔ وقتاً فوقتاً جب ہمیں ان کے یہاں حاضری دینے کا موقعہ ملتا تو وہ ڈاکٹر ذاکر حسین کا اپنے مخصوص نوسٹالجیائی رنگ میں ذکر کرتے‘ پھر یاران پاکستان کا حوالہ دیتے اور ٹھنڈا سانس بھر کر چپ ہو جاتے۔ آفاق سے جلد ہی رخصت ہو گئے۔ اخباری مزاج جو نہیں تھا۔ پھر تصنیف و تالیف ان کا مشغلہ ٹھہرا۔ شاہ ولی اللہ کے معتقدین میں تھے۔ ان کی کچھ تصانیف ان سے بھی منسوب ہیں۔

اور ہاں مولانا غلام رسول مہر۔ وہ تو واقعی صحافی نہیں تھے۔ محقق تھے۔ غالب کے شیدائی۔ غالب کے خطوط اپنے انداز سے جمع کیے تھے لیکن پیشہ شروع سے صحافت رہا۔ مولانا عبدالمجید سالک کے ساتھ ان کی جوڑی تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے ضرور مولانا ظفر علی خاں کے سائے میں جم کر دفتر میں بیٹھتے ہوں گے۔ مگر وہ زمانہ اور تھا۔ اس زمانے کی صحافت کا رنگ اور تھا۔ اب اخبار میں اس زمانے کے لوگ کہاں۔ ان کا ہمعصر کون تھا جو وہ اخبار کے دفتر میں جم کر بیٹھتے۔ اخبار کے چیف ایڈیٹر بیشک تھے لیکن مینجنگ ایڈیٹر میر نور احمد تھے۔ پھر وہ کیوں دفتر میں بیٹھتے۔ صبح کو جانے وہ کس وقت نمودار ہوتے تھے۔ اپنے کمرے میں دروازے بند کر بیٹھتے ایڈیٹوریل لکھتے اور رخصت ہو جاتے۔

ہم جب دفتر پہنچتے تو ان کا کمرہ مقفل نظر آتا۔ حسرت ہی رہی کہ ان کا دیدار ہو۔ آخر ہم نے تحقیق کے حوالے سے ان کا نام بہت سنا تھا۔ دیدار ہو جاتا تو کیا مضائقہ تھا۔ وہ دیدار اس تقریب سے ہوا کہ جب سالک صاحب نے اپنے کالم حوادث و افکار کو بے آسرا چھوڑ کر اس اخبار سے رخصتی لی تو سوال پیدا ہوا کہ اب ویسا کالم نگار کہاں سے لائیں جس سے مہر صاحب مطمئن نظر آئیں سو جب ہمارا نام اس ذیل میں زیر غور آیا تو میر صاحب نے کہا کہ اپنا کالم پہلے مہر صاحب کو دکھاؤ۔ انھوں نے تمہیں پاس کر دیا تو پھر یہ کالم تمہارے سپرد ہو گا۔ اس تقریب سے ہم نے چار پانچ دن ان کے آستانے پر حاضری دی۔ ادھر سے منظوری ہوئی تب ہم اس اخبار کے کالم نگار بنے۔

ہاں تو ذکر آفاقی کا تھا۔ حق یہ ہے کہ اس پورے دفتر میں چہچہانے والا پرندہ ایک ہی تھا۔ باقی تو سب اپنے اپنے کام میں جتے رہتے۔ ادھر جب باہر سے کوئی فلمی ستارہ طلوع نہ ہوتا تو وہ آفاق کے ستاروں کو اس کمرے میں اکٹھا کر لیتا۔ اکٹھا وہ کرتا کہ ارے چاچا یہ سب تمہارے افسانوں کے مداح ہیں۔ ان کی تواضع کرو۔ جلدی چائے کا آرڈر دو۔ لیجیے ہم نے ڈنڈ بھرا۔ چائے آ گئی۔ چائے کا دور چل رہا ہے۔ فلمی ستاروں کے احوال سنا کر محفل کو گرمایا جا رہا ہے۔

جب آفاق ڈھلنے لگا تو ایک روز خاموشی سے دفتر سے غائب ہو گیا پھر اس کی خیریت کی خبر فلمی دنیا سے آئی۔ جب تک فلمی دنیا میں رہا تو اتنا خوش خرم کہ مڑ کر ہماری طرف دیکھا ہی نہیں۔ جب وہاں سے فراغت ہوئی تو پیچھے رہ جانے والوں کی یاد آئی۔ پھر جب ڈیرا نوائے وقت کے فیملی میگزین میں کیا تو بھولا بھٹکا کبھی فون آ جاتا تھا کہ یار پچھلے دنوں کی بہت یاد آ رہی ہے۔ آؤ اور ملو۔ سو ہم کبھی کبھار ادھر جا نکلتے۔ اور اس کی تسکین ہو جاتی کہ ابھی کوئی ہے جس سے بات کی جا سکتی ہے۔

اور ہاں ابھی پچھلے دنوں ایسا ہی ایک فون آیا تھا۔ ملنے کے لیے بہت بیتابی تھی۔ مگر ادھر معذوری تھی کہ ہنوز زیر علاج ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھنے سے ڈاکٹر نے منع کیا تھا۔ ارے ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ آخری فون ہے اور ادھر سے ہمارے لیے یہ آخری بلاوا ہے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔