بیمار اذہان

محمد فیصل شہزاد  جمعرات 29 جنوری 2015

یہ بات ثبوت کی محتاج نہیں کہ ابلیس لعین اور اس کی معنوی ذریت کو اس دنیا میں سب سے زیادہ عداوت اور بغض آنحضرتؐ سے ہے اور کیوں نہ ہو کہ آپؐ کی تشریف آوری سے ہی کفر و شرک کی شبِ تاریک کا اختتام ہوا۔ آپ کے لائے ہوئے دین حق کی ضیاء سے دنیا جگمگا اٹھی، ہدایت کی ہوائیں اطراف عالم میں چل پڑیں اور شیطان کی صدیوں کی محنت پر پانی پھر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد جہاں شمع رسالت کے پروانے آپ کے گرد دیوانہ وار جمع ہو گئے اور انھوں نے آپ سے محبت کا حق ادا کر دیا، اسی طرح آپ کی بعثت پر شیاطین جن و انس کے قلوب نبی رحمت ؐ کے بغض سے سیاہ ہو گئے، جس کا اظہار وہ موقع ملنے پر کرتے بھی رہے، مگر جیسا کہ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے:

’’جو نفرت ان کافروں کی زبانوں سے ظاہر ہے وہ تو تم کو معلوم ہے او ر جو بغض ان کے سینوں میں چھپا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ (آل عمران)

واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا بغض ان کی زبانوں اور کرتوتوں سے ظاہر ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ ان کے گٹر جیسے دلوں میں چھپا ہے، گٹر جب بھر جاتا ہے تو ابل پڑتا ہے… اس کے جواب میں پھر جب کوئی سر پھرا دیوانہ اٹھ کر ان بد روحوں کو جہنم کی راہ دکھاتا ہے، کوئی ان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لوگ جنھیں شرافت کا ہیضہ ہوتا ہے، اعتراض کرنے لگتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ دیکھو حضورؐ نے تو کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا…

یہ وہ مغالطہ ہے جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا کہ آپ اخلاق کی بلندی پر تھے، مگر ایک دو نہیں دسیوں واقعات سیرت کے ایسے بھی ہیں جن میں استہزا کرنے والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف نہیں فرمایا، بلکہ خود صحابہ کرام کو ترغیب دی اور ان کے خون کو مباح قرار دیا… دونوں باتیں بالکل الگ الگ ہیں۔

ایک ہے علمی تنقید… جس کا جواب تاریخ اسلام کے ہر دور میں قلم و زبان سے دیا گیا، مگر استہزا اور توہین کا علاج ہمیشہ تلوار سے ہی کیا گیا… چلیں مان لیا کہ کچھ واقعات ایسے ثابت بھی ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استہزاء کرنے والوں سے پہلوتہی کی (ان خاص واقعات کے بھی مختلف پہلو ہیں) تو پھر بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے کہ معاملہ آپ کی اپنی ذات کا تھا، لیکن آپ کے امتی انسانی نفسیات کی رو سے اس مسئلے میں معذور ہی کہلائیں گے۔ایک مثال دیکھیے۔

کوئی بدبخت آپ کے والدین کی توہین ان کے منہ پر کرے تو وہ معاف بھی کر سکتے ہیں اور ان کا معاف کرنا بہترین اخلاق کہلائے گا، مگرآپ کے سامنے آپ کے امی ابو کو کوئی گالیاں گا تو بتائیے آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ بلند اخلاقی و وسعت ظرفی کا مظاہرہ کر کے اپنے بے حس ہونے کا ثبوت دیں گے یا اپنے جذبات کا ’ٹھیک ٹھاک‘ اظہار کریں گے… تو پھر جب یہ والدین کہ ان کے جیسے لاکھوں کی عزت نبی مکرم ؐ کی ناموس کے سامنے ہیچ ہے، ان کے لیے کوئی بیٹا اپنے جذبات قابو میں نہیں رکھ سکتا تو ایک مسلمان جس کا کل سرمایہ ہی عشق رسول ہے، وہ آپ ؐکی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی بھلا کیسے برداشت کر سکتا ہے؟

ساری باتیں چھوڑئیے، یہ دیکھیے کہ خود سنت اللہ ایسے مواقعے پرکیا رہی۔ سیدالمرسلین وخاتم الانبیا  کا گستاخ بارگاہِ الوہیت میں کس حد تک گرا ہوا ہے، اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اپنی مخلوق پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، کے نزدیک یہ ایسا جرم ہے کہ قرآن پاک میںکسی بھی شخص حتیٰ کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کی بھی ذات کو نشانہ نہیں بنایا گیا، مگر جب ایک گستاخ ولید بن مغیرہ نے آپؐ کی شان میں گستاخی کی اور آپ کو نعوذ باللہ مجنون کہا تو اللہ رب العزت کا عتاب تو ذرا اس آیت میں دیکھیے:

’’اور کسی بھی ایسے شخص کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھانے والا، بے وقعت شخص ہے، طعنے دینے کا عادی ہے، چغلیاں لگاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکنے والا، زیادتی کرنے والا، بدعمل، بد مزاج اور اس کے علاوہ نطفۂ حرام بھی ہے۔‘‘ (القلم)

ان الفاظ کی شدت کو محسوس کیجیے، دل کانپ کانپ اٹھتا ہے، خصوصاً آخری لفظ ’زنیم‘ یعنی نطفۂ حرام ، ہم نے جب جب قرآن کی اس آیت کو پڑھا، بے اختیار دل سے آواز آئی کہ انبیاء پر سب و شتم ثابت النسب آدمی کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ حرکت صرف کوئی نطفۂ نا تحقیق ہی کر سکتا ہے۔

اب یہی دیکھ لیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق مغرب کی نئی نسل کی اکثریت یعنی پچپن فیصد نوجوان اپنے باپ کو نہیں جانتے۔ یہ بچے ون پیرنٹ چائلڈ کہلاتے ہیں، یعنی ان کے نام کے ساتھ باپ کے نام کی بجائے صرف ماں کا نام لکھا ہوتا ہے،  اس  پوری ایک نسل کو جب احساس محرومی گھیرتا ہے تو وہ ہذیان میں اپنی ماں، اپنے معاشرے، اپنے مذہب حتیٰ کہ تاریخ کی مقدس ترین شخصیات انبیائے کرام پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔ ان نفسیاتی بیمار اذہان کا علاج نفسیاتی اسپتالوں میں ممکن نہیں ہے، ان کا علاج تو بس وہی ہے جو صحابہ کرام نے کیا اور تاریخ اسلام کے ہر دور میں جس کی پیروی کی گئی۔

آخر میں ایک کتاب التاریخ الاسلامی سے موضوع کی مناسبت سے ایک دلچسپ واقعہ سپرد قرطاس ہے۔

1930 میں فرانس نے الجزائر پر اپنے قبضے کا سو سالہ جشن منایا اور ساری دنیا کے سامنے کہا کہ یہ جشن الجزائر میں ’اسلام کا جنازہ ‘ ہے۔ الجزائر کے لوگ اب فرانسیسی یعنی ’مہذب‘ معاشرے میں ڈھل جانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس کی دلیل کے طور پر فرانسیسی عہدیداروں نے ایک ریلی کا اہتمام کیا جس میں الجزائری لڑکیوں کو مغربی نیم عریاں لباس میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ بتایا گیا کہ الجزائر کی عوام کے ’مہذب‘ ہونے کی خوشی میں ریلی کا خرچہ فرانس اٹھائے گا۔

اس کام کے لیے فرانس کے ایک مذہبی پیشوا ’ لاکو سٹ‘ کو ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ان چند لڑکیوں کی تربیت کرے۔ اس ریلی میں عرب دنیا میں یورپی استعمار کے کئی ایجنٹ بھی شریک ہوئے تا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی الجزائر کے طرز پر مغربی تہذیب کو عام کیا جائے۔ یہ ریلی ایک تھیٹر سے شروع ہو رہی تھی، جہاں لوگوں کا بہت بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا۔ لڑکیوں کو ریلی میں شامل کرنے کے لیے جب پردہ اٹھایا گیا تو شرکا ء خصوصا ًفرانسیسیوں پر گویا بجلی گر گئی یہ دیکھ کر کہ خلاف توقع وہ سب لڑکیاں حجاب پہن کر نکلیں۔ اس سے فرانسیسی میڈیا میں ایک بحث شروع ہو گئی کہ ایک صدی تک فرانس الجزائر میں کیا کرتا رہا؟ جب ’لاکوسٹ‘ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے ایک تاریخی جملہ کہا:

’’میں کیا کر سکتا ہوں، قرآن فرانس سے زیادہ طاقتور ہے؟‘‘

ان شاء اللہ بہت جلد دنیا بھر کے انسان یہ بات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ قرآن پوری دنیا سے زیادہ طاقتور ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔