خواب دریچے

عارف رمضان جتوئی  جمعـء 30 جنوری 2015
کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو خوابوں کی بدولت اپنی زندگی کو نکما بنادیتے ہیں، کوئی پرائز بانڈ کا سوچتا ہے تو کوئی انعامی کوپن کا تو کوئی سونے کی مرغی اور الہ دین کے چراغ کی تلاش میں زندگی ضائع کردیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پکی پکائی کھانے والوں کی زندگی دوسروں کے لئے ہمیشہ بوجھ ثابت ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو خوابوں کی بدولت اپنی زندگی کو نکما بنادیتے ہیں، کوئی پرائز بانڈ کا سوچتا ہے تو کوئی انعامی کوپن کا تو کوئی سونے کی مرغی اور الہ دین کے چراغ کی تلاش میں زندگی ضائع کردیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پکی پکائی کھانے والوں کی زندگی دوسروں کے لئے ہمیشہ بوجھ ثابت ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

ہم اکثر و بیشتر خوابوں میں رہتے ہیں۔ یہ وہ خواب ہوتے ہیں جن کو جاگتے میں بھی دیکھا جاتا اور سوتے میں بھی۔ سوتے میں دیکھے جانے والے خواب ہی وہ حقیقی خواب ہوتے ہیں جن سے ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ جڑا ہوتا ہے۔ جاگتے میں دیکھے جانے والے خواب نہ صرف خیالی پلاو ہوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھار سبز باغ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ 

کتنے ہی ایسے افراد ہیں جنہوں نے ان خوابوں کی بدولت اپنی زندگی کو نکما بنا دیا ہے۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ کہیں ان کا پرائز بانڈ لگ جائے گا، یا انعامی کوپن کھلے گا اور وہ راتوں ہی راتوں میں مالا مال ہوجائیں گے۔ کچھ سونے کے انڈے دینی والی مرغی تو کوئی الہ دین کا چراغ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ایسے افراد زندگی میں کبھی کچھ نہیں کرپاتے۔

بنی بنائی پر آکر بیٹھنے والوں اور پکی پکائی کو کھانے والوں کی زندگی دوسروں کے لئے ہمیشہ بوجھ ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے اس قسم کے خواب دیکھنے اور دیکھانے والوں کو زندگی کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔ انہیں سراب کی زندگی سے باہر نکل کر عملی زندگی میں کچھ کرنا چاہیے، شاید تب ہی ان کی زندگی حقیقی معنوں میں ان کے لئے کوئی سونے کے انڈے دینے والی مرغی ڈھونڈ پائے گی۔

یہاں ایسے خوابوں کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جو ہم روز مرہ میں سوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جاگتے میں دیکھے گئے خوابوں کا پورا ہونے یا نہ ہونے کا تعلق تو خود دیکھنے والے اور اس کی قسمت پر منحصر ہوتا ہے۔ آیا کہ وہ جن خوابوں کو دیکھ رہا ہے وہ خود محنت اور لگن سے ان کو پورا کر پاتا ہے یا نہیں۔ بعض اوقات وہ بھی بھروپور محنت کررہا ہوتا ہے تاہم قسمت اس کے ان خواب کو پورا کرنے سے متعلق کچھ اور ہی لکھ چکی ہوتی ہے۔ قسمت کو بدلنے کے لئے اللہ سے دعائیں کی جائیں تو اللہ دعائوں کو رد نہیں کرتا۔ اس کے لئے یہ بھی ایک اچھا اور بہترین طریقہ ہے کہ اگر یوں دیکھے گئے خواب پورے نہیں ہو پارہے تو وہ ان خوابوں کے پورا ہونے کا انتظار کیے بنا ہی جو کچھ سامنے ہے اسی کو ہی اپنا خواب تصور کرلینا چاہیے ، اس طرح اس پر رضامند ہو کر زندگی کو پرسکون بنایا جاسکتا ہے۔

سوتے میں ہم بہت سے خواب دیکھتے ہیں جن کا تعلق ہماری اچھائی اور برائی سے ہوتا ہے۔ ایسے خواب فوری طور پر ہمارے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات چھوڑ جاتے ہیں جن کو ہم اگلے ایک دو دن یا پورے پورے ہفتوں تک اپنے دماغ سے جھٹک نہیں پاتے۔ خواب ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں۔ بعض خواب شیطان کی طرف سے پریشان کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور بعض خواب انسانی نفس کی گفتگو پر مبنی ہوتے ہیں۔

وہ خواب جن کا تعلق نفسی خیالات سے ہوتا ہے جیسا کہ کوئی پیشہ ور شخص پورا دن اپنے کام کے بعد جب سوتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنے پیشے سے متعلق بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

دوسری قسم ان خوابوں کی ہوتی ہے جنہیں ہم ڈراؤنے خواب کہتے ہیں، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتے ہیں۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔

تیسری قسم اچھے خواب ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کہا گیا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے۔

مختلف احادیث کے مفاہم سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی اچھا خواب دیکھے تو اس چاہیے کہ وہ اپنے کسی اچھے اور خوابوں کی تعبیر سے کچھ نہ کچھ اچھا جاننے والے کے سامنے زکر کرے۔ جبکہ اگر برا خواب دیکھے تو کسی دشمن یا دوست کے سامنے ہرگز بیان نہ کرے۔ خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ واقع نہیں ہوتا۔ اسی لئے اس کو بھول جانا ہی بہتر ہے۔

لیکن اہم بات یہاں یہی ہے کہ ان خوابوں کا عملی زندگی میں کوئی عمل دخل ہو یا نہیں لیکن ایک بات کی حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ اگر دنیا میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر ضروری ہے کہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر عملی زندگی میں پیر رکھا جائے، یہی ایک صورت ہے جو انسان کو محنت پر مجبور کرتی ہے اور یہی محنت کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے کے لیے راستے ہموار کرتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عارف رمضان جتوئی

عارف رمضان جتوئی

بلاگر ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں اور گزشتہ سات برسوں سے کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی سے تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔