چوہدری سرور کا استعفیٰ اورحکمرانی کا نظام

سلمان عابد  جمعـء 30 جنوری 2015
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کا استعفیٰ غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ جس مزاج اور سیاسی سوچ و فکر کے آدمی ہیں ان کے لیے اس عہدے پر طویل عرصے تک رہنا ممکن نہیں تھا۔  اگرچہ ہمارے سیاسی نظام میں گورنرکا عہدہ اب محض ایک نمائشی عہدہ بن کر رہ گیا ہے۔

بالخصوص 18 ویں ترمیم کے بعد صوبہ میں اختیارات کی اصل طاقت وزیر اعلی کے پاس ہوتی ہے۔ لیکن اس عہدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ گورنر بنیادی طور پر ہمارے صوبائی نظام میں ریاست کا نمایندہ ہوتا ہے او راس کے مفادات کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ چوہدری محمد سرور بڑی خواہش، ولولہ اور جوش کے ساتھ پاکستان کے سیاسی نظام کا براہ راست حصہ بنے تھے۔

میاں صاحبان نے پارٹی میں بعض دوستوں کو ناراض کر کے چوہدری محمد سرور پر بطور گورنر پنجاب اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ کیونکہ گورنر کا عہدہ نمائشی ہے، تو چوہدری محمد سرور ان کے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا نہیں کریں گے۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ ہوا، وہ حکمران طبقے کی خواہشات کے برعکس نکلا، اور نتیجہ ان کے استعفیٰ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

پاکستان میں کسی کا گورنر بننا اہم نہیں ہوتا لیکن اس منصب پر بیٹھ کر کسی بھی شخص کا اس نظام کے خلاف بغاوت کرنا اہم ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر چوہدری محمد سرور کا خیال تھا کہ وہ بطور گورنر ‘پنجاب کے وزیر اعلی اور کابینہ کی مشاورت سے مل کر پنجاب کو مثالی صوبہ بنا سکیں گے۔ لیکن چوہدری محمد سرور یہ بھول گئے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست عدم مرکزیت سے زیادہ مرکزیت کے نظام کے گرد گھومتی ہے۔ چوہدری محمد سرور سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ پاکستان کے سیاسی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں اور بالخصوص آمرانہ حکمرانی کے نظام پر سخت رنجیدہ نظر آتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کو پریس کانفرنس میں کہنا پڑا کہ یہاں گورنر کے منصب سے زیادہ بڑا منصب مافیا کا ہے۔ یہ معاملہ محض گورنر کے عہدے تک محدود نہیں، بلکہ عمومی طور پر ملک کے تمام بڑے سیاسی و انتظامی عہدے اب عملاً مافیا کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں، یا مافیا اور حکمران طبقات کے گٹھ جوڑ نے سیاست اور جمہوریت کو بھی مافیا میں تبدیل کر دیا ہے۔ پنجاب کو میڈیا کی مدد سے چاروں صوبوں میں سب سے بہتر حکمرانی کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس مثالی صوبہ کی اصل حکمرانی کے نظام کو چوہدری محمد سرور نے کسی فرد کا نام لیے بغیر سب کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ ان کے بقول پنجاب کے سیاسی نظام میں قبضہ اور لینڈ مافیا اصل حکمران ہیں جو بڑی طاقت رکھتے ہیں۔

چوہدری محمد سرور نے قوم کے ایک اخلاقی مسئلہ کا بھی خوب ذکر کر کے سب کو جھنجھوڑا ہے۔ ان کے بقول اس ملک کے سیاسی، انتظامی، قانونی، معاشی اور اخلاقی نظام میں سچ کا قحط ہے۔ دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں سے انھوں نے براہ راست معافی مانگی، ان کے بقول جس محنت سے پاکستانی باہر سے بیٹھ کر پیسہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں، ہم نے ان کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو قبضہ اور لینڈ مافیا سمیت بدعنوان لوگوں اور اداروں کے رحم و کر م پر چھوڑ دیا ہے۔

ایک بار چوہدری محمد سرور نے ایک نجی محفل میں برملا کہا کہ وہ بنیادی طور پر نظام، سسٹم اور اداروں کی تشکیل کے حامی ہیں۔ وہ معاشرے کے ہرطبقے سے رابطہ میں رہتے تھے، ان کے بقول وہ سب نظام کا ماتم کرتے ہوئے ان کے سامنے پیش ہوتے اور وہ بطور گورنر سوائے بے بسی کے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔چوہدری محمد سرور کو سب سے زیادہ افسوس مقامی حکومتوں کے نظام سے متعلق حکمران طبقات کی سوچ سے تھا۔ وہ موروثی سیاست کے خلاف تھے۔

ایک محفل میں انھوں نے بعض ایسے سیاست دانوں کے سامنے جن کی اولادیں، رشتہ داریاں اور بیویاں سیاسی نظام کا حصہ تھیں، بغیر کسی خوف کے تنقید کی۔ انھوںنے مثال دی کہ جب ان کے بیٹے نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، تو انھوں نے خاندان کی مشاورت سے طے کیا کہ اب بیٹے کی انتخابی سیاست میں شمولیت کے بعد وہ خود انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ ایک خاندان سے محض ایک فرد کی انتخابی عمل میں شمولیت کے حامی تھے۔

چوہدری محمد سرور کو گلہ تھا کہ ان سے صوبائی حکمران مشاورت کرنے کے بجائے نہ صرف نظرانداز کرتے تھے، بلکہ ان پر کئی سیاسی معاملات پر عدم اعتماد بھی کیا گیا ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا سیاست پر جب انھوں نے مصالحت کا کردار ادا کرنا چاہا تو سمجھا گیا کہ وہ پس پردہ کسی سازش کا حصہ ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی کو ایک خاص ہدایت کے ساتھ چوہدری محمد سرور سے فاصلہ رکھنے کو کہا گیا اور ان کے منصوبوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

ارکان اسمبلی اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے ان کے تعلق پر بھی کئی کہانیاں بنائی گئیں۔ وہ جب حکومتی معاملات پر تنقید کرتے تو سمجھا جاتا کہ وہ حکومت سے بغاوت کر رہے ہیں، کیونکہ حکمران طبقہ جب یہ اجازت اپنے وزرا اور ارکان اسمبلی کو دینے کے لیے تیار نہیں، تو چوہدری محمد سرور کے سچ اور حقایق کی اس سیاسی نظام میں کیسے جگہ بن سکتی تھی۔عموماً کہا جاتا ہے کہ سیاستدان اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں، لیکن چوہدری محمد سرور نے اقتدار کے بجائے نظام کی تبدیلی کو اپنی سیاست کا محور بنایا، انھوں نے اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کر کے خود کو بطور مجرم پیش کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔

دراصل ان کے استعفیٰ کو ان کے اورحکمرانوں کے درمیان کسی سیاسی رسہ کشی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کو ایک روایتی، مفاداتی، کرپشن، بدعنوانی اور عدم انصاف پر مبنی سیاست کے خلاف سمجھنا چاہیے۔ گورنر چوہدری محمد سرور کے استعفیٰ میں سب کے لیے سبق ہے جو اس ملک میں سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر مبنی نظام کے خواہش مند ہیں۔

اچھی بات ہے کہ چوہدری محمد سرور مایوس ہو کر واپس برطانیہ جانے کے بجائے اسی نظام کے خلاف لڑنے کی بات کر رہے ہیں جس کو انھوں نے اقتدار کی قربانی دے کر چیلنج کیا ہے۔ ان کی اگلی سیاسی منزل کیا ہو گی، اس کا فیصلہ تو انھوں نے کرنا ہے یا وہ کر چکے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ ایک متحرک اور فعا ل سیاسی کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔

وہ واقعی اگر روایتی سیاست میں پڑنے کے بجائے اس نظام اور حکمرانی میں جو بڑی بڑی خرابیاں یا موذی امراض کے مجموعی نظام کو چیلنج کر کے آگے بڑھیں تو یہ ہماری سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ لیکن کیا اقتدار سے نکل کر چوہدری محمد سرور کوئی بڑی سیاسی جدوجہد اور لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں، اس کا فیصلہ بہت جلد ہو گا کہ وہ عملًا کہاں کھڑے ہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔