خادم حرمین نے مسلمانوں کی عزت رکھ لی

عبدالقادر حسن  جمعـء 30 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اسلامی دنیا کے حکمرانوں اور بڑے بڑے رہنماؤں سے بے حد معذرت کے ساتھ یہ ایک کمزور سا مسلمان عرض پرداز ہے کہ خادم الحرمین الشریفین نے نہ صرف مسلمانوں کی لاج رکھ لی ہے بلکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے محترم ملک کا بادشاہ ہونے کا وقار بھی قائم رکھا ہے۔

عالم اسلام کے مقدس ترین ملک کی ابھی چند روزہ سربراہی میں ہی وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ پہلے مسلمان ہیں پھر کچھ اور۔ آج کی دنیا کا کوئی مسلمان سربراہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے ہاں دنیا کے طاقت ور ترین شخص کی مہمان داری کے تمام تکلفات اور روایات کو پرے رکھ کر اپنا کوئی اسلامی فرض ادا کرنے میں مصروف ہو جائے گا اور یہ بڑا آدمی حیرت کے ساتھ یہ دیکھتا رہ جائے گا کہ کمزور مسلمان دنیا میں کوئی حکمران مہمان نوازی کا ہر تکلف اور ادب بالائے طاق رکھ کر اس سے اس قدر لاپرواہی بھی برت سکتا ہے۔ حیران مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

ہم پاکستانیوں کو انتہائی مایوس اور روتا دھوتا چھوڑ کر امریکا کا صدر اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ بھارت کے پر جوش دورے کے بعد ہماری طرف ایک غلط انداز نگاہ بھی ڈالے بغیر سعودی عرب چلا گیا جہاں وہ مرحوم شاہ کی تعزیت کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک رسمی سرکاری دورہ تھا اور ائیر پورٹ پر عام سرکاری استقبالی تکلفات موجود تھے، بینڈ استقبالی دھنیں بجا رہے تھے کہ اس دوران نماز کی اذان بلند ہوئی۔

سعودی بادشاہ جو مہمان کے استقبال کے لیے بذات خود موجود تھا، یہ اذان سنتے ہی معزز مہمان سے معذرت کر کے کہ وہ نماز کے لیے جانا چاہتا ہے مہمان میاں بیوی کو اکیلے چھوڑ کر چلا گیا جس کے ساتھ ہی وہاں موجود تمام سعودی حکام بھی نماز کے لیے چلے گئے اور اس طرح مہمان اپنے میزبانوں کے بغیر تنہا کھڑے رہے۔ امریکی صدر اوباما چونکہ عقیدتاً مسیحی مگر نسلاً مسلمان ہیں اس کے لیے ممکن ہے انھیں مسلمانوں کی اس پنج وقتی عبادت کی اہمیت کا کچھ اندازہ بھی ہو لیکن انھیں یہ توقع نہیں تھی کہ نماز کے لیے ان کے ساتھ اس طرح کی بے اعتنائی برتی جائے گی اس طرح کی انتہائی رسمی تقریب میں ایسا واقعہ اپنی مثال آپ قرار پائے گا۔

سنا ہے سعودی ٹی وی نے دنیا بھر کو یہ سارا واقعہ لفظ بہ لفظ اور قدم بہ قدم دکھایا اور یقیناً فخر کے ساتھ دکھایا ہو گا ویسے مسلمانوں کے ہاں نماز کی پابندی اور بروقت ادائیگی کوئی خبر نہیں ہے ایک معمول ہے۔ سعودی عرب میں نماز کے وقت تمام کاروبار بند ہو جاتا ہے، دکانیں کھلی چھوڑ کر دکاندار قریب کی مسجد میں نماز ادا کرنے چلے جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں ایک الگ محکمہ بھی اس مقصد کے لیے قائم ہے کہ نماز کے وقت کوئی اس سے غفلت کا مرتکب نہ ہو اور ہو تو سزا پائے۔ نئے سعودی فرمانروا نے اپنے ایک معمول پر عمل کیا ہے اور چونکہ اسے موخر کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی اس لیے وہ دنیا بھر کے لیے یہ غیر معمولی عمل کرنے کے لیے چلے گئے اور پھر واپس آ کر مہمان داری کی باقی ماندہ رسم ادا کی۔

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمین بوس ہوئی قوم حجاز

نماز انتہائی معذوری کی حالت میں بھی اشاروں کے ذریعہ بھی ادا ہو سکتی ہے لیکن موخر نہیں ہو سکتی جب کہ اس کے ساتھ کا دوسرا فرض یعنی روزہ قضا بھی ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں نے روزہ کے ساتھ جنگیں بھی لڑیں اور جہاد میں ہر دوسری مشقت بھی برداشت کی لیکن کسی معذوری کی وجہ سے جس کا ہر مسلمان خود فیصلہ کرتا ہے روزہ قضا کیا حضرت امام ابن تیمیہ سفر میں روزہ نہ رکھ سکے اور اس کی شرعاً اجازت تھی چنانچہ واپس دمشق پہنچ کر انھوں نے برسرعام کھانا شروع کر دیا لوگ امام کی سخت طبیعت کی وجہ سے خاموش ضرور رہے لیکن پسند نہ کیا کہ وہ رمضان میں دن کے وقت کھائیں پئیں۔

غازی صلاح الدین اپنی زندگی کی آخری جنگ کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے بعد میں زمانہ امن میں وہ روزے قضا کر رہے تھے کہ خبر ملی کہ فاتح لشکر دمشق کے قریب پہنچ گیا ہے وہ اس خوشی میں باوجود سخت موسم کے شہر سے باہر نکلے کہ لشکر کے استقبال کے لیے پہنچ گئے اس سے طبیعت بگڑ گئی اور اسی مرض میں انتقال ہو گیا۔ روزے میں تو قضا کی گنجائش ہے لیکن نماز میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سعودی فرمانروا نے اپنا یہی فرض بروقت پورا کیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عزت رکھ لی ہے۔ فی الوقت اس بحث میں پڑے بغیر کہ اسلام میں ملوکیت کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں سعودی بادشاہ نے اپنی عزت دنیا بھر میں قائم کر دی۔ سچ ہے کہ عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

بدگمانی کیوں کریں اگر کسی دوسرے مسلمان ملک میں صدر اوباما نماز کے وقت مہمان ملک کی طرف سے استقبالی مصروفیات میں مصروف ہوتے تو ان کے میزبان مسلمان صدر یا سربراہ مملکت ایسی جرات نہ کرتے وہ امریکا کی عالمی فوجی طاقت اور ڈالر کی طاقت سے کانپ رہے ہوتے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان کی خوشنودی کے لیے ہم کیا کریں۔ اگر صدر اوباما پاکستان نہیں آئے اور انھیں پاکستان کی طویل بلکہ عمر بھر کی خدمات کا خیال بھی نہیں آیا تو اس لیے کہ ہم نے اپنے آپ کو اس قدر کمزور کر لیا ہے کہ ہماری طرف اب کوئی دیکھتا بھی نہیں لیکن ہمارا جعلی نخرہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ہو بھارت کے مقابلے میں ہمیں خاص اہمیت دے اور ہماری قدر کرے۔

لیکن عام انسانی تعلقات میں بھی دوستی اور تعلق کو اپنے آپ کو اس کے قابل بنا کر ہی قائم رکھا جا سکتا ہے ورنہ آپ کی قدر باقی نہیں رہتی بہر حال سعودی عرب کے خادم الحرمین نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جس منصب پر فائز ہوئے وہ اس کی قدر جانتے ہیں اور اس کے لیے کسی انسان کی خواہ وہ کوئی بھی ہو پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ماضی کی غربت سے نکال دیا ہے اور آج وہ دنیا کے خوشحال ملکوں میں شمار ہوتے ہیں اس کا شکر وہ ادا کر رہے ہیں اور شکر کرنے والوں کو خدا مزید نوازتا ہے۔ آج پورا عالم اسلام بے پناہ مسرت اور حیرت سے اپنے اس بادشاہ کو دیکھ رہا ہے جس نے صرف ایک ملک کی نہیں پوری اسلامی دنیا کی عزت رکھ لی ہے۔ اللہ اس حکمران کو خوش اور مطمئن رکھے اور اسے ان بلاؤں سے محفوظ رکھے جو ان کے ایک عزیز بادشاہ شاہ فیصل کو لے گئی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔