آئیں مل کر سوچیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 30 جنوری 2015

جون ایلیاکہتے ہیں ’’ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کررہے‘‘ ایک ہوتا ہے ماضی کا تجزیہ کرنا اور ایک ہوتا ہے ماضی کو باربار دہرانا اور سب سے المناک ہوتا ہے ماضی کی پوجا کرنا ۔ اگرآپ صرف پجاری بن کے رہ جائیں گے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف تعصب کی فضا پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل پائے گا ۔ہم چونکہ صرف پجاری بن کر رہ گئے ہیں ۔

اس لیے ہم سب تعصبی بھی بن گئے ہیں جس وقت یورپ میں صنعتی،سماجی اور ذہنی انقلاب کے باعث زندگی کا پرانا نظام دم توڑ رہا تھا اور انسان اپنے لیے ایک نیاماحول نئی دنیا تخلیق کررہا تھا ۔ادھر برصغیر میں ہمارے مسلمان سلطان وبادشاہ ان تغیرات سے بے خبر اور بے نیاز عالی شان عمارتیں بنوانے، رقص وموسیقی کی محفلیں سجانے شعرو سخن کی مجلسیں آراستہ کرنے زرق برق لباس پہننے اورعمدہ عمدہ کھانے پکوانے میں مصروف تھے۔ سلطنت کی آمدنی کا بڑا حصہ دربارکی شان وشوکت اورمحلات شاہی کے مصارف پر خرچ ہورہا تھا، مصارف کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان علاؤالدین خلجی کے محل میں غلاموں کی تعداد پچاس ہزار تھی جو فیروز شاہ تغلق کے عہد میں بڑھ کر دو لاکھ ہوگئی۔

ان کے علاوہ نجومی،جوتشی،گویے، سازندے، بھانڈ، مسخرے ، لطیفہ گو، شاعر،مولوی اورمصاحبین الگ تھے جن کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔سلطنت کے تمام بڑے بڑے عہدوں پراہل ثروت کی ہی اجارہ داری قائم تھی، اہل ثروت بڑے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے تھے زنان خانے میں کنیزیں اور خواجہ سرا، ڈیوڑھی پر غلام ،چوبدار، دربان،دسترخوان پر مہمانوں کا ہجوم، پیادے سوار،ہاتھی،گھوڑے غرض کہ امرا سلطنت کو چھوٹے پیمانے پر سہی مگر وہ تمام نعمتیں حاصل تھیں جن سے سلطان لطف اندوزہوتے تھے عام رعایا کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانا محنت کشوں کے ذرایع آمدنی میں اضافہ کرنا یا ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ان کے لیے درس گاہیں اور شفاخانے قائم کرنا یا روزگار فراہم کرنا سلطان یا امرائے سلطنت کے فرائض میں شامل نہ تھا اور ان سب کے لیے سلطنت نے کوئی ذمے داری نہ اٹھا رکھی تھی ۔ تب ہی تو امیر خسرو نے کہا تھا کہ ’’ تاج سلطانی کے ہر موتی میں دہقانوں کی آنکھوں سے بہنے والے خون کے قطروں کی آب وتاب جھلکتی ہے۔‘‘ سلاطین کے بعد مغلوں کا دور آتا ہے لیکن سماجی اورمعاشی حیثیت سے عام مسلمانوں کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

جہانگیر دور کے عدل جہانگیری اور زنجیر عدل کی کہانیوں سے متاثر ہونے سے پہلے اس دور کے ایک یورپی سیاح پلیسے ٹرٹ کے سفر نامے پر نظر ڈال لیتے ہیں جو اس نے 1626 میں تحریر کیا تھا وہ لکھتا ہے ’’عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتاہے اور نہ ترس کھایاجاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دے دے اس سلسلے میں ججوں اور عہدے داروں کو ہی قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وبا پلیگ کی طر ح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔

چھوٹے سے لے کر بڑ ے تک یہاں تک کہ بادشاہ بھی اس میں ملوث ہے ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اس لیے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سر کار سے کچھ کام ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لیے پیسوں کا بندوبست کرے بغیر تحفہ تحائف کے اس کی درخواست پر عمل درآمد ہونا ناممکن ہے یہ اس ملک کارواج ہے۔‘‘ پیلسے ٹرٹ نے اس دور کے امیر اور غریب کا جو فرق بتایا ہے اس میں ہمیں کہیں بھی اسلامی سلطنت نظر نہیں آتی بس ایک استحصال ہے جو طاقتور کا حق اور غریب کا مقدر ہے ۔

جب ہم شاندار ماضی یا سنہری دور کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ جس میں تما م لوگ خوشحال رہے ہوں معاشرے میں مساوات، برداشت ، رواداری کا بول بالا رہا ہو وہ معاشرہ استحصال سے پاک رہا ہو جہاں عقل ودانش کی حکمرانی رہی ہو۔ بدقسمتی سے ہم کبھی سنہری دور کو نہیں پا سکے ہیں اورکسی سنہری دور یا شاندار ماضی کا ہماری تاریخ میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا کل بھی عام لوگوں کے نصیب میں جھونپڑی افلاس ، بے اختیاری ، ذلت لکھی ہوئی تھی اورآج بھی یہ ہی سب کچھ مقدر بنا ہوا ہے نہ ہمارا ماضی سنہری دور تھا اور نہ ہمارا حال سنہری دور ہے ۔

یہاں تک ایک سیدھا سادا سا سوال پیداہوتا ہے کہ کیوں ہماری فکری خانقائیں صدیوں سے اجڑی پڑی ہیں کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں ۔ہماری زمین اتنی بانجھ کیوں ہوگئی ہے آج بھی رجعت پسند اور بنیاد پرست گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل ودانش کا کوئی چراغ جلے تو جھپٹ کر اس پہ حملہ کردیں کیوں آج بھی جہالت کی تاریک کمین گاہیں آباد ہیں اور ان میں اتنی چہل پہل کیوں ہے کیوں آج بھی عقلیت پرستی اور روشن خیالی کو کفر وبدعت سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں عجیب عجیب طریقوں سے سازشوں کے قمار خانے آج بھی چلائے جا رہے ہیں کیوں ہم آج بھی عقل کو عقیدے کے زیر اثر رکھنے پر بضد ہیں کیوں ان شخصیتوں کو آج زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جنہوں نے اپنے عہد میں تفکر اور فکر اور عقل ودانش کی ہر طرح مزاحمت کی اور اہل دانش و مفکر ین کو ملزم و مجرم قرار دیا، آخر یہ کیوں سب کچھ علم و تحقیق کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ہم ماضی میں واپس جا کر اپنی غلطیوں کی تصحیح تو نہیں کرسکتے لیکن ہم اگر سنہری دور کو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہرگز ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا ہوگا اورہمیں ماضی سے چمٹنے کے بجائے حال میں رہنا ہوگا، ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا بھر کی تمام قومیں جو آج اپنے سنہر ی دور سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ان سب نے اپنے ماضی کو خیر آبادکہہ کر حال میں جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ عقل کو عقیدے کی قید سے آزادی دلوائی اس کے بعد انھیں خوشحالی، آزادی، ترقی ،مساوات نصیب ہوئی، ہمیں کیا کرنا چاہیے آئیں مل کر سوچیں لیکن یاد رکھیں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم بچا ہے ۔ قتیل شفائی نے کہا ہے۔

ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے
لیکن شب ِفراق تیرا کیا اصول ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔