امریکا اور ہماری خارجہ پالیسی

جاوید قاضی  جمعـء 30 جنوری 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

استاد بڑے غلام علی کی ٹھمری ہے ’’کنکر مار جگا گیو ہائے‘ جمنا کے چوراہے رے‘‘۔ اوباما کی دلی یاترا بھی کچھ اس طرح تھی جس طرح سندھی کی کہاوت ہے ’’کہو بیٹی کو اور سمجھے بہو‘‘ وہ یاترا تھی تو دلی کی مگر سبق ہمارے لیے تھے یہ اور بات ہے کہ ہم نیند سے اٹھتے ہیں کہ نہیں۔

26 جنوری ہندوستان کے لیے آزادی کے دن سے بھی پوتر ہے یہ وہ دن ہے جب 1950 میں ان کا آئین نافذ العمل ہوا تھا۔ ان کے بانیوں نے آئین کے اپنے مسودے کو کتنا اہم ترین بنا دیا یہ دن اس اہمیت کی روشنی کو اجاگر کرتا ہے۔ اوباما اس دن ہندوستان آنے کا فیصلہ دسمبر میں کرچکے تھے تو فوراً میاں نواز شریف کو فون بھی کردیا اور کہا کہ میرے اس دورے کے مقصد کو پاکستان اپنے لیے منفی نہ سمجھے۔ ان دو تین دنوں کے قیام میں کہیں ایک لفظ بھی پاکستان کا ان کی زبان پر نہ آیا اور نہ چین اور روس کو بھی انھوں نے کھڑے ہاتھوں لیا مگر ان کے دورے میں ہر جگہ ایک بات لبادے میں پاکستان کے لیے اوڑھے ہوئی تھی۔ وہ ہم سمجھتے ہیں، ہندوستان سمجھتا ہے اور سمجھتا تو امریکا بھی ہے۔

کہاں گیا وہ کل کا امریکا جو ہندوستان کی مذمت کرنے میں ہمیشہ ہمارے ساتھ ٹھہرتا تھا اور اب کیوں وہی امریکا ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم ہندوستان کی بالادستی قبول کریں۔ کیا دنیا تبدیل ہوگئی ہے یا پھر ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے یا وہ پاکستان جو آزادی کے وقت ہندوستان کے برابر تھا معاشی اعتبار سے 70 تک ہم ہندوستان سے آگے تھے کیا ہمارے اندرونی بحران نے ہمیں اتنا کمزور کردیا ہے۔ یہ ناکام خارجہ پالیسی اسی کا عکس ہے کیا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی اصل طاقت اسی کی تیزی سے بڑھتی پھلتی پھولتی معیشت ہے؟

کل تک دنیا میں سرد جنگ کا دور تھا اور اس سے پہلے انگریز سامراج کو یہ فکر لاحق تھی کہ روس گرم حماموں تک نہ پہنچ جائے۔ سندھ کو بھی فتح اسی تناظر میں کیا گیا کہ قندھار کے ذریعے کابل کو فتح کرکے یہاں سے ہندوستان میں برطانوی راج کے خطرات کو روکا جائے گا۔ خیر کابل میں بری طرح شکست کھا کے 1890میں ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی، پشتونوں کا بٹوارہ ہوا، آدھے ہندوستان میں رہ گئے آدھے افغانستان میں۔ اس طرح بلوچوں کا بھی بٹوارہ ہوا تھا۔

آدھے سے زیادہ ایران میں اور باقی ہندوستان میں قلات اسمبلی بنا کے بیٹھ گئے اور پھر دوسری جنگ عظیم ہوئی، سامراجی سردار برطانیہ بہت کمزور ہوا اور پھر برطانیہ نے یہ سرداری امریکا کو سونپ دی وہ تازہ توانا بھی تھا اور اس کی معیشت سب سے بڑی تھی تو دوسری طرف روس سوویت یونین کی شکل اختیار کر کے جرمنی کو شکست دینے کے بعد ایسٹ یورپ پر قبضہ کر کے کمیونسٹ حکومتیں بنانے کے بعد، افغانستان پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکا تھا ۔

بہت سے تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا بننا اس تناظر میں تھا، کانگریس سوویت یونین نواز تھی۔ برطانیہ یا امریکا پورا ہندوستان اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے اور آگے جا کے سرد جنگ کے پس منظر میں انھیں ایک افغانستان کے بارڈروں پر ایک ایسا اتحادی بھی چاہیے تھا جو سوویت یونین کے جارحانہ عزائم کو روک سکے۔ جب نہرو دنیا میں Non Aligend خارجہ پالیسی کی بنیادیں یوگوسلاویہ کے صدر ٹیٹو کے ہاتھ رکھ رہا تھا، اس وقت لیاقت علی خان امریکا یاترا پر چل دیے۔ بغیر اس ملک کو آئین دیے اور ایک پارٹی نظام دیے کہ بس امریکا کا ساتھ مل جائے ۔

جب جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا تو سب سے پہلے یہ نوید انھوں نے امریکی سفیر کو سنائی اور اسی کے جہاز پر وہ راولپنڈی سے کراچی پہنچے تھے جس طریقے سے پاکستان جمہوریت کو خیرباد کر کے امریکی سامراج کے ہاتھوں میں اس خطے کی خاص نوعیت کی وجہ سے آتا جا رہا تھا اتنا دور مشرقی پاکستان ہوتا جا رہا تھا۔ شہید سہروردی فضل حق اس کے بہت خلاف تھے۔ خلاف تو باچا خان بھی تھے تو بلوچ قوم پرست خیر بخش مری، عطااللہ مینگل بھی تھے۔ 1953 میں مسلم لیگ بنگال میں ہار گئی۔

فضل حق و نئے ابھرتے شیخ مجیب والوں نے حکومت بنائی۔ شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ جب وہ بنگال کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ کراچی آئے گورنر جنرل غلام محمد سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے شیخ مجیب کو ہنستے ہوئے کہا کہ ’’تم تو روس نواز کمیونسٹوں سے تعلق رکھتے ہو‘‘ شیخ مجیب حیران ہوگئے یہ سن کر اور جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہم تو پاکستان کے امریکا کے بہت قریب آنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ واپس جب وزیر اعلیٰ ڈھاکہ پہنچے تو ان کو ان کی جمہوری حکومت کی غیر جمہوری انداز میں رخصتی کی نوید سنائی گئی۔

ایوب کے زمانے میں ہم امریکا کے اتنے قریب آگئے کہ ان کو فوجی اڈے پشاور میں دیے گئے ، جس پر خروچیف نے یہ بات اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں دھمکی آمیز الفاظ تک کہی۔ یوں کہیے ہندوستان کو تو آزادی ملی مگر ہم آبادیاتی نظام میں برطانیہ کے راج سے آزاد ہوکے اب نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں پھنس کر امریکا کے تابع ہوگئے۔ سرد جنگ والے امریکا کو کمیونسٹ لفظ سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کمیونسٹ نوازی کا لیبل پوری جمہوری جدوجہد پر لگا دیا۔

1954 میں یہ بھی ہوا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے شہید سہروردی کو یہ کہہ کر اقتدار دیا کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہے گی باقی سب تمہارا ۔ وہ اس بات پر راضی ہوگئے۔ اس پس منظر میں نیشنل عوامی پارٹی عوامی لیگ کی کوکھ سے نکل کر بنی تھی۔ (جس کے بانیوں میں میرے والد بھی تھے۔) جب شیخ مجیب کو اس لیے بھی 1970 میں حکومت بنانے نہیں دی گئی کیونکہ امریکا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہ شیخ مجیب سوویت یونین کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا۔ سرحد میں اور بلوچستان میں نیپ کی حکومت اسی لیے ختم کی گئی کیونکہ امریکا نہیں چاہتا تھا۔ اور بالآخر بھٹو کی بھی چھٹی کروا دی گئی کیونکہ امریکا بھٹو کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی سربراہ کانفرنس سے خوش نہیں تھا اور بالآخر سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوجاتا ہے اور اس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ کی چاندی ہو گئی۔ پھر روس کو شکست دے کر امریکا یہاں سے ایسا رخصت ہوا کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ سے اتنی یاری تھی ہی نہیں۔

ضیا الحق ہوائی حادثے میں مارے گئے، اس سے پہلے اوجھڑی دھماکہ ہوا۔ پھر بے نظیر کو اس طرح اقتدار دیا گیا جس طرح شہید سہروردی کو گورنر غلام محمد نے دیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اسی دوران میں ہندوستان نے نہرو کی معاشی پالیسی کو خیرباد کہہ دیا اور من موہن سنگھ ماڈل کو اپنالیا۔ ان کی شرح نمود 7 فیصد کے تناسب سے دہایوں تک بڑھتے بڑھتے تگنی و چوگنی ہوکے اب ایک ہزار آٹھ سو ستتر ارب ڈالر کی ہوگئی۔ ہماری 2013 کے اعداد و شمار سے 236 ارب ڈالر کی ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان میں 30 کروڑ عوام جو لگ بھگ امریکا کی کل آبادی جتنی ہے مڈل کلاس سے ہے۔

شہروں میں بستے ہیں اور بہت مالدار و ہنرمند ہیں۔ آج جتنی انگریزی بولنے والا ملک انگریز ملکوں سے بھی زیادہ اگر کوئی ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ راجیو گاندھی کی 1988 میں بنگلور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے کی ہوئی نمو لگ بھگ ایک سو ارب ڈالر یا 10 فیصد مجموعی پیداوار کا حصہ ہے اور یہ سیکٹر 9 فیصد کے تناسب سے بڑھ رہا ہے۔ اور اس کا امریکا کی تجارت سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کل 100 ارب ڈالر کی ہندوستان وامریکا کی تجارت کا 30 فیصد ہے۔

ہندوستان نے نہرو کو خیرباد اس طرح کیا جس طرح ڈینگ ساؤ پینگ نے ماؤ کو کیا۔ جب سوویت یونین نے اپنے ماضی کو خیرباد کرنے کے گوربا چوف کے زمانوں میں کوشش کی اور Glasnost اور Perestroika لائے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ بدنصیبی سے ہماری خارجہ پالیسی کو ملک کی تجارت مضبوطی فراہم نہیں کر رہی۔ جس طرح ہندوستان کی تجارتی حقیقت امریکا کو ان کے قریب لائی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اب بھی کشمیر کے ایک نقطے پر گھوم رہی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہم طالبان پر ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں۔ کل جنرل مشرف کا جنرل کیانی کے بارے میں کھلے انداز میں بولنا ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے۔ پہلی مرتبہ جنرل مشرف نے یہ بھی کہا کہ اس ملک کو مارشل لا کی ضرورت نہیں۔ میں جنرل مشرف کو ماضی کا پیرمردان شاہ پگارا سمجھتا ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے ؟جو ہمیں کل پیر پگارا بتایا کرتے تھے آج کل یہ کام جنرل مشرف اوور ٹائم پرکر رہے ہیں۔

جاتے جاتے اوباما ہندوستان کو خبردار کرگئے کہ مذہبی نفرتیں اور فرقہ واریت ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوگی اور یہ وہ تھپڑ تھا ان گالوں پر جنھوں نے ہندوستان میں مذہب بیوپار کرکے اقتدار پایا ہے اور یہ وارننگ ہمارے لیے بھی تھی۔

اوباما اگر نہ بھی کہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اصل طاقت تجارت میں ہے اور اس طرح مضبوط معیشت میں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگوں کا حساب کتاب ہونا چاہیے جو مذہب کا بیوپار کرتے ہیں جس سے پشاور جیسے سانحے جنم لیتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی اب کی بار سول و ملٹری کے باہمی تعاون سے مرتب ہونی چاہیے اور ضروری ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لایا جائے اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔