ناقص زرعی منصوبہ بندی

ایم آئی خلیل  جمعـء 30 جنوری 2015

پاکستان میں ناقص زرعی منصوبہ بندی ہونے کے باعث اکثر و بیشتر سبزیوں اور پھلوں کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پیاز کی قیمت 100 روپے فی کلو سے زائد ہوچکی تھی۔

کبھی ٹماٹر 200 روپے کلو بھی فروخت ہوتا رہا ہے اور جب نئی فصل بڑی تعداد میں اس لیے بوئی جاتی کہ بہت اچھی قیمت مل جائے گی پھر انھی اشیا کی قیمت اتنی لگتی کہ بعض اوقات کاشت کار مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ فصل کو کھیت میں ہی تلف کر دے۔ کچھ عرصہ قبل ٹماٹرکی قیمت بہت بڑھ چکی تھی پڑوسی ملک سے ٹماٹر درآمد کیا جانے لگا پھر کاشتکار اس جانب متوجہ ہوا کہ ٹماٹر کی فصل بوئی جائے اورجب فصل کی بہتات ہوگئی تو 5 روپے کلو ٹماٹر بازار میں بکنے لگا اب اگر کاشت کار ٹرک بھر کر ٹماٹرمنڈی لے کر آتا تو اسے ایک روپے کلو بھی نہیں ملتا لہٰذا وہ ٹرک کا کرایہ کیسے ادا کرے چنانچہ فصل کو کھیت میں ہی تلف کردیاجاتا۔

چند ماہ قبل کی بات ہے جب پیاز 80 روپے فی کلو دستیاب تھا اور ٹرک بھر بھر کر انڈیا سے منگوائے جارہے تھے کیونکہ ملک میں پیاز کی شدید قلت پیدا ہوچکی تھی۔ پیاز کی قیمت بڑھتی رہی پھر جب یہ صورتحال دیکھ کر کاشتکاروں نے وسیع پیمانے پر پیاز کی فصل تیار کرلی تو اب پیاز 10 روپے فی کلو بھی فروخت ہورہا ہے۔

اب یہاں جب کاشت کار کو اپنی فصل کا اتنا بھی معاوضہ نہ ملے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرسکے لہٰذا اس صورت میں وہ اگلی فصل بونے سے پہلوتہی کریگا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک دفعہ پھر پیاز کی فصل کم ہوگی جس کے نتیجے میں ملک میں پیاز کی قلت پیدا ہوگی اور پھر پیاز درآمد کی جانے لگے گی اور قیمت 100 روپے فی کلو سے بھی زائد ہوچکی ہوگی۔

یہ سب کچھ ناقص زرعی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے جس سے صارفین متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان کاشتکاروں کو اٹھانا پڑتا ہے اس طرح ملک میں آئے روز کبھی پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن، آلو کی قیمت میں یکدم تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور جب ملک میں فصل کی بہتات ہو جاتی ہے تو انھی اشیا کی قیمت اتنی گرجاتی ہے کہ کاشتکار انتہائی مفلوک الحال اور بدحال ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں گنے کے ریٹ کے معاملے میں کاشتکاروں کا رخ اسی جانب موڑا جا رہا ہے کہ مل اونرز کی جانب سے استحصالی سلوک کے باعث گنے کے کاشتکار آیندہ برس کم گنا پیدا کرنے کی جانب مائل ہوجائینگے ۔

جس سے بالآخر ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح کپاس کے پیداکاروں کو بھی کپاس کی مناسب قیمت نہ مل سکی۔ اس طرح نقد آور فصل بونے کے باوجود جب ان کی آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا تو اس سے ان میں مایوسی اور بد دلی پھیلے گی۔ اس سلسلے میں زرعی پالیسی سازوں کو فعال ہونا پڑے گا اور اس قسم کی زرعی منصوبہ بندی کی جائے جس سے کسی بھی شے کی قلت نہ پیدا ہو یا پھر کسی بھی شے کی اتنی بہتات نہ ہوجائے کہ وہ شے کوڑی کے دام بکنے لگیں یا پھر کاشتکار اس فصل کو ہی تلف کردے۔

گزشتہ دنوں امریکا سے آئے ہوئے ایک ماہر معاشیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ترقی پذیر ملکوں میں پالیسی سازوں کا اہم ہدف دیہات کے غریب طبقے کی مالی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے اختراعی طریقے اختیار کرنا ہے، پاکستان میں کاشتکاروں کو بعض اوقات فصل اگانے کے لیے جب قرض کی ضرورت ہوتی ہے تو جن ذرایع سے وہ قرض حاصل کرتے ہیں ان کی شرح سود اتنی بلند ہوتی ہے کہ غریب کاشتکار منافع بخش طور پر نقد آور فصلیں نہیں اگاسکتے پھر ایک طرف ان کی نقد آور فصلوں کی قیمت کم ملتی ہیں پھر نقد آور فصل اگانے کے باعث بعض اوقات خوراک کی فصلوں سے ہی منہ موڑ لیتے ہیں۔

جس کے باعث نہ ہی اپنے لیے خوراک پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی ملکی عوام کے لیے اور ایک طرف اس خوراک کی فصل کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور خوراک مہنگی بھی ہوجاتی ہے در آمد کرنا پڑتی ہے، پاکستان اکثر و بیشتر گندم درآمد کرتا رہا ہے۔کبھی چینی درآمد کرتا تھا، پالیسی سازوں، زرعی ماہرین کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب کسانوں کو ابھی فصل اٹھانے کی ترغیب دی جاتی ہے تو وہاں پر انھیں ایسی کیڑے مار ادویات استعمال کرنے باہر کی امپورٹڈ کھاد کے استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جب کہ ان کی نسبت دیگر کیڑے مار ادویات اور سستی کھاد سے بھی بھرپور فصل اٹھائی جاسکتی ہے۔ اس طرح مہنگی اشیا کے استعمال سے یقینی طور پر ان کا منافع بھی بہت کم ہوجاتا ہے جس سے ان کی آمدن گھٹ جاتی ہے۔

بعض اوقات کسانوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں فصل میں بہت زیادہ منافع ہے تو وہ اسے بونے کے لیے اونچی شرح سود پر ادھار لے لیتے ہیں اور اشتہار بازی سے متاثر ہوکر مہنگی کھاد اور مہنگے کیڑے مار ادویات وغیرہ خریدلیتے ہیں اور اس آس پر رہتے ہیں کہ فصل کے اچھے دام لگتے ہی قرض اور سود بھی اتر جائے گا اور منافع بھی خوب حاصل ہوگا لیکن فصل اٹھانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دام بہت گر گئے ہیں۔

اس طرح پاکستان میں غربت کی شرح میں اچانک اضافہ بھی یوں ہی ہوتا ہے کہ ایک دم سے کروڑوں افراد انتہائی غربت میں چلے جاتے ہیں کیوں کہ کسانوں کو اچانک ہی جب اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کی فصل سے اتنی رقم بھی نہیں ملے گی جس سے موجودہ فصل کی لاگت ہی وصول کرسکیں تو ایسے کاشت کار غربت کی کھائی میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں ایسی زرعی منصوبہ بندی کرنا چاہیے جس سے کاشت کاروں کو اس قسم کی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کپاس کے کاشت کار اسی قسم کی صورت حال سے دو چار ہوئے۔

اب گنے کے کاشت کاروں کو سرکاری نرخ بھی نہیں وصول ہورہے، جس کے باعث اندرون سندھ کے کاشتکار اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرارہے ہیں لیکن مل اونرز اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں اگر اس سال گنے کے کاشتکاروں کو اتنی معمولی رقم بھی وصول نہ ہوپائے تو کیا وہ آیندہ سال گنے کی فصل بوئیںگے؟ اسی طرح بہت سی سبزیوں کی کاشت کے بارے میں اچھی طرح آگاہی نہ ہونے یا دیگر وجوہات کی بنا پر کبھی فصل اتنی زیادہ بودی جاتی ہے کہ اس کے دام بالکل گرجاتے ہیں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک کی دیہی آبادی ہنوز غربت و افلاس، مفلوک الحالی کا شکار ہے۔

ان کی آمدن میں بھی اضافہ نہیں ہورہاہے نہ ہی ان کی غربت میں کمی واقع ہورہی ہے ان کی فصل کا اصل منافع غیر ملکی کیڑے مار ادویات کی کمپنیاں، کھاد فروخت کرنے والے کمیشن ایجنٹ، درمیانی لوگ، ٹرک اونر اور دوسرے لوگ بٹور لیتے ہیں اس کو اپنا منافع انتہائی کم حاصل ہوتا ہے یا پھر وہ انتہائی نقصان میں چلے جاتے ہیں جس کے باعث ان کی غربت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ملک کو اس قسم کی زرعی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے کسان، کاشت کار خوشحال ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔