قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کا اعلان

ایڈیٹوریل  ہفتہ 31 جنوری 2015
حکومت کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں کا معیار بلند کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں، اس طریقے سے ہی وطن عزیز کو ترقی دی جا سکتی ہے، فوٹو : فائل

حکومت کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں کا معیار بلند کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں، اس طریقے سے ہی وطن عزیز کو ترقی دی جا سکتی ہے، فوٹو : فائل

وفاقی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی مرتب کر لی ہے جسے رواں سال کے آخری ماہ یعنی دسمبر2015ء تک حتمی شکل دے دی جائے گی۔ قومی نصاب کونسل سیکریٹریٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے اور پلاننگ ڈویژن نے فنڈز بھی جاری کر دیے ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت ملک کے 10 فیصد تعلیمی اداروں کو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوشن (یعنی فنی تعلیم کے اداروں میں تبدیل کر دیا جائے گا اور 10 فیصد کو ترکی کے ماڈل اسکول کی طرز میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمن کا کہنا ہے کہ جلد فنی تعلیم و تربیت کی شر ح 15 فیصد تک لے کر جائیں گے، اور دینی و دنیاوی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے نیز معیاری و یکساں تعلیمی نصاب کے لیے بھی اقدام کیے جائیں گے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں بین الصوبائی وزرا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں چاروں صوبوں بشمول آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے وزرائے تعلیم اور دیگر متعلقہ اداروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ بند کمرے میں ہونے والی ایجوکیشن کانفرنس چھ گھنٹے جاری رہی جس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوبائی وزرائے تعلیم نے شرکت کی جب کہ سندھ اور پنجاب کے وزرائے تعلیم کی جگہ صوبائی حکومتوں کے نمایندوں نے شرکت کی۔ وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت میاں بلیغ الرحمن نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں صرف 5 فیصد اداروں میں فنی تعلیم دی جا رہی ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 14 فیصد تک ہے۔

چنانچہ پاکستان فنی تعلیم و تربیت کی شرح 15 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ حکومت کا یہ فیصلہ بہت اہم ہے کہ ملک میں فنی تعلیم کے اداروں کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے برابر لائی جائے تا کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع میں معتدبہ اضافہ ہو سکے اور ہنر مند افرادی قوت کی بیرون ملک بھی بہت مانگ ہوتی ہے اور انھیں تنخواہیں بھی عام بی اے ایم اے پاس نوجوانوں سے کہیں زیادہ بہتر ملتی ہیں نیز ہنر مند افراد وطن عزیز میں بھی زیادہ بہتر روزگار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ آزادانہ طور پر اپنا کام بھی کر سکتے ہیں۔

صنعتی ترقی کے حوالے سے جرمنی کا دنیا میں نہایت نمایاں مقام ہے، اسی لیے تعلیم کے وزیر مملکت نے بھی جرمنی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تعلیمی اعتبار سے جرمنی دنیا بھر میں بے مثال ترقی کا حامل ہے۔ پاکستان میں فروغ تعلیم کے حوالے سے سب سے ٹھوس اور آسان ترین تجویز یہ ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں فی الفور سیکنڈ شفٹ شروع کر دی جائے جس سے ہماری موجودہ شرح تعلیم راتوں رات دو گنا ہو سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں رائج دہرا نظام تعلیم بھی ختم کیا جائے اور نصاب تعلیم میں بھی عصرحاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر تبدیلیاں کی جائیں تاکہ طلباء میں دوسروں کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہو سکے۔ حکومت کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں کا معیار بلند کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں، اس طریقے سے ہی وطن عزیز کو ترقی دی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔