Love Marriage.......

 ہفتہ 31 جنوری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہم ہر روز جاگتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس وقت ملک بحران کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، کوئی دن کم از کم گزشتہ چالیس پنتالیس برسوں سے دیکھنے کو نہیں ملا جس دن اس ملک کے عوام نے سکون کی سانس لی ہو کہ کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔

اس ملک کو مسائل کی ایک تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے، آج ہم کہہ رہے ہیں کہ اس وقت ملک کو مہا مسائل کا سامنا ہے مگر در حقیقت یہ مسائل کے انبار ہر روز بڑھ رہے ہیں اور ہم اپنی نئی نسل کو جانے کتنے مزید بحرانوں بھرا پاکستان دے کر جائیں گے۔ اس ملک کے پہلے گورنر جنرل، ہمارے قائد… وہ شخص ہیں جو نیک نیت تھے اور جنھیں کم از کم یہ علم تھا کہ ملک انھوں نے کس طرح اور کس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا ، انھوں نے کتنی ان تھک محنت کی اور اپنی روز بروز گرتی ہوئی صحت کی پروا نہ کی اور بالآخر اس ملک کی تخلیق کے سال بھر بعد ہی وہ ہماری کج ادائیوں اور سازشوں کے باعث اس دنیا سے چل بسے۔

ان کے بعد اس ملک کو دو ایک کے سوا کوئی ایسا حکمران نہیں ملا، جس کا کوئی وژن ہو، اسے علم ہو کہ ملک کی باگ ڈور اور نظام کس طرح چلایا جاتا ہے۔ پرانے زمانوں میں ایک بادشاہ کے مر جانے کے بعد کہا جاتا تھا کہ اگلے روز ملک میں داخل ہونے والا پہلا شخص بادشاہ ہو گا، چاہے وہ کسان ہوتا چاہے سپہ سالار یا کوئی گداگر، وہ اسی اصول کے تحت بادشاہ بن جاتا تھا اور اسے ملک چلانے کا تجربہ زیرو ہوتا تھا، ہمارا ملک تو ابھی تک اسی طرح چل رہا ہے۔

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ہمارے ہاں دیہات میں’’ کمی کمین‘‘ کا لفظ رائج ہے، یہ لفظ ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو مختلف کام کرتے ہیں، مثلا درزی، نائی، لوہار، ترکھان، راج، مستری، کمہار، چمار اور سنار، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے خاندانی کام کرتے ہیں، یہ وہ کام ہیں جو پیغمبروں نے بھی کیے ہیں، ہم ان لوگوں کو نیچ سمجھتے ہیں اور اپنے برابر بیٹھنے بھی نہیں دیتے، مگر ہمیں ان لوگوں کی محتاجی بھی ہے، ان میں سے ہر ایک کی، کیونکہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔

نہ صرف ہم بلکہ کمہار ، ترکھان کا کام نہیں کر سکتا، چمار مستری کا اور سنار لوہار کا، مگر ملک کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں ہے جو کاروباری ہیں یا بیوپاری ہیں ، ہر کام کو نفع اور نقصان کے پیمانوں میں تولنے والے۔جب خلافت تھی تو خلیفہ وہ ہوتا تھا جس کا کردار اور عمل سب کے لیے باعث تقلید ہوتا تھا، جن کے ہاتھ اور دامن صاف ہوتے تھے۔ بادشاہت کا نظام آیا تو بادشاہ کی تربیت کا عمل اس کی پیدائش سے پہلے ہی ہو جاتا تھا، کوکھ میں لیے بادشاہ کی ماں کو منفی سوچ تک سوچنے اور گھٹیا خوراک تک کھانے کی اجازت نہ ہوتی تھی کہ بادشاہ کے لہو کے کسی قطرے میں بھی غلط ملاوٹ نہ ہو۔مگر اب، بالخصوص ہمارے ملک میں تو کوئی ضابطۂ اخلاق ہی نہیں۔ کتنے حکمران ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے اولین دور میں ہر قسم کی منافقت، بد دیانتی، غلط کام ، گمراہی، جھوٹ اور دھوکے کے کام کر کے گزارے اور پھر ہم نے انھیں ، اپنے ہاتھوں سے مسند اقتدار پر بٹھا کر اپنی بد قسمتی کو دعوت دی۔

جب ہم ان کے بدکاموں سے بیزار ہوئے تو ہم نے فوج کی طرف دیکھنا شروع کر دیا،  فوج کا سربراہ بر سر اقتدار آ جاتا ہے۔ ہمارے غیر فوجی حکمران، کرپشن اور بد دیانتی کے سارے سبق سیکھ کر آتے ہیں اور اپنے عرصہ اقتدار کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دھن جمع کرنے کی مہلت سمجھتے ہوئے، اپنے سارے خاندان سمیت ملک کی لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عوام بلکتے رہ جاتے ہیںاور وہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونسے، آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔  ہم ان سے صادق اور امین ہونے کی توقع کرتے ہیں، ہماری توقع پر بھی افسوس ہے۔ ہمارے ملک کے نظام نے تو لفظ صادق اور امین کی بے حرمتی کر کے رکھ دی ہے۔

کوئی قاعدہ قانون ہو تو اس ملک میں باصلاحیت قیادت آئے، پڑھے لکھے لوگ عوام کے نمایندے ہوں اور انھیں علم  ہو کہ غریب کے گھر میں چولہا کس طرح جلتا ہے اور کتنے دن ٹھنڈا رہتا ہے جنہیں علم ہو اپنے ملک کے مسائل کا اور دنیا کے مسائل کا، جنھیں دوسرے ممالک کی تقلید کرنا آئے کہ وہ اپنے مسائل سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ جنھیں اپنے کاروبار دنیا میں مزید پھیلانے کا لالچ ہو نہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں اس ملک سے لوٹی ہوئی دولت کے انبار جمع کرنے کا شوق نہ ہو۔ کون استعمال کر سکا ہے اس لوٹی ہوئی دولت کو آج تک؟  کوئی حد تو ہو لالچ کی، کوئی خوف تو ہو اللہ کی جواب طلبی کا، کوئی حیا ہو اس کرسیء اقتدار کی کہ جس پر بیٹھنا ایک نشہ نہیں بلکہ آزمائش ہے۔

چند دن قبل میں گاؤں گئی تو ہمارے ایک عزیز آئے کہ میں ان کے چوتھی جماعت میں پڑھنے والے بچے کو چند دن کے لیے اردو پڑھا دوں ، مجھے چند دن وہاں رہنا تو تھا مگر’’ اصل میں میں بڑی جماعتوں کو تو اردو پڑھا سکتی ہوں مگر… ‘‘ میں نے حجت کی۔ ’’ آپ کا بھی حساب ہمارے وزیر خزانہ جیسا ہے بیٹا، پورے ملک کا بجٹ تو انھوں نے بنا دیا ہے مگرایک غریب کے گھر کا بجٹ بنانے کو کہو تو ان کی صلاحیت بیکار ہو جائے،… بڑی بڑی جماعتیں پڑھ جانے سے چھوٹی جماعتوں کے اسباق بھول جاتے ہیں کیا؟؟‘‘

کوئی شرم تو ہو اس بات کی کہ انھیں جو اقتدار ملا ہے وہ عزت کی علامت ہے، اس عزت کو انھوں نے الیکشن میں بد دیانتی کر کے حاصل کیا یا مخالفین کو خرید کر، مگر دنیا کی نظروں میں وہ بظاہر تو عزت دار ہیں، اللہ ان کے دلوں کے بھید جانتا ہے،ان کی سازشوں سے واقف ہے، ان کی ہشیاریوں اور چالاکیوں کو جانتا ہے مگر ان کی رسی دراز کرتا ہے کہ شاید انھیں کسی وقت اپنے کیے پر ندامت  ہو، شاید ان کے دلوں پر پڑی مہریں ٹوٹ جائیں ، شاید عوام کا درد ان کے دلوں میں جاگ جائے، شاید اس دھرتی ماں کی عزت کا خیال آ جائے جس پر ان کا جنم اور پرورش ہوئی، مگر ہم نے تو آج تک کسی کو اپنے کیے پر نادم ہوتے نہ دیکھا، کسی نے توبہ کی بھی تو اس وقت جب اس میں مزید کرپشن کرنے یا کرپشن کرنے والوں کا ساتھ دینے کی ہمت نہ رہی۔Grass root level کی اصطلاح سب جانتے ہیں۔

جس شخص کو اس سطح کے مسائل کا سامنا نہ ہو، ادراک اور آگہی نہ ہو، وہ کس طرح عوام کے دلوں پر حکومت کر سکتا ہے؟  کس کس بات کی جواب دہی کا انھیں سامنا ہو گا ۔آج تھر میں مرنے والے سیکڑوں لوگوں، سیلاب اور زلزلے کے متاثرین ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آتے اور جواب دہی کا خوف ہے کہ نہیں؟؟ ہمارے حکمرانوں کے دستر خوانوں پر سجنے والا ایک وقت کا کھانا ، کئی گھرانوں کی کئی دن کی خوراک سے کہیں بڑھ کر ہے۔

ہم ان لوگوں کی طرح ہیں جو اپنی نا عاقبت اندیشی کے باعث love marriage کر لیتے ہیں اور شادی کے اگلے دن ہی پیار کا نشہ ہوا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے ووٹوں سے انھیں اقتدار کے لیے چن لیتے ہیں اور جلد ہی وقت ہمیں بتا دیتا ہے کہ ہم نے اپنے گلے میں پانچ سال کے لیے کیسا ڈھول باندھ لیا ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے اور ہمیں عقل و فہم کہ ہم اپنے حکمرانوں کا انتخاب لالچ اور جھوٹے وعدوں پر نہ کریں۔آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔