ظفر اقبال کی ’لاتنقید‘

انتظار حسین  اتوار 1 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

لیجیے ظفر اقبال کا ایک مجموعہ پھر آ گیا مگر خیر یہ مجموعہ ان کی شاعری کا نہیں‘ نثر پاروں کا ہے۔ اور اس دھمکی کے ساتھ آیا ہے کہ حالا نثر من بشنو۔ بڑی مشکل ہے۔ اگر اس پر ہم اپنا جھوٹا سچا اظہار خیال نہیں کرتے تو وہ پھر وہی شکایت کریں گے جو انھوں نے اپنے ایک شعری مجموعہ کے سلسلہ میں کی تھی۔ یہ کہ ہم نے شعری مجموعہ بھیجا۔ اور یہ شخص پی گیا۔

شکایت اپنی جگہ پر بجا ہے مگر کچھ مجبوریاں ہماری بھی ہیں۔ اصل میں اس سے پہلے ان کے کئی ضخیم شعری مجموعے وقفے وقفے کے ساتھ موصول ہوتے رہے اور ہم بساط بھر ان پر داد دیتے رہے۔ شاعری کے تسلسل کے ساتھ ان مجموعوں کے عنوانات میں بھی ایک تسلسل تھا۔ کچھ اس قسم کا کہ جب تک۔ تب تک۔ جب مجموعہ اس عنوان کے تحت آیا کہ ’’اب تک‘‘۔ اس وقت تک ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ ہم نے عاجزی سے پوچھا کہ آخر کب تک۔ اس کا انھوںنے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھک ہار کر ہم بھی چپ ہو گئے‘ معذرت کے طور پر ہم سودا کا ایک شعر ظفر اقبال کی نذر کرتے ہیں

فکر معاش‘ ذکر تباں‘ یاد رفتگاں
اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی

مگر یہ تینوں ہی کام ضروری ہیں۔ اب اگر ان میں چوتھا کام بھی شامل کر لیا جائے۔ یعنی ظفر اقبال کی ہر بات کا جواب اور ہر مجموعہ نظم و نثر پر اظہار خیال تو پھر تو ہم اپنے کام سے گئے یعنی ان تینوں کاموں سے جنھیں سودا نے ضروری بتایا ہے۔

بیشک ہم ان کے سلسلہ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ظفر اقبال کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر بہت قائل کرتی ہے۔ اس وقت واقعی ایک نثر نگار کی حیثیت سے ہمیں ان میں بہت جوہر نظر آیا تھا مگر ہوا یہ کہ اس کے بعد وہ اس زور شور سے جاری ہوئے کہ اب تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اب ہم مشکل میں ہیں۔

اب یہ مجموعہ بھی اس شان کا ہے کہ قدم قدم پر مجبور کرتا ہے کہ اس بیان پر انھیں ضرور ٹوکنا چاہیے۔ اور یہ جو بات انھوں نے ہم سے منسوب کی ہے یا کسی بھلے ہمعصر سے اس پر ان سے تھوڑی پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ لیکن پھر وہی سوال کہ آخر کب تک۔ ظفر اقبال تو لگتا ہے کہ ماں کے پیٹ سے بولتے ہوئے پیدا ہوئے ہیں اور بولے چلے جا رہے ہیں۔ ادھر قلم کوتاہ ہے اور زندگی کے دن تھوڑے باقی رہ گئے ہیں۔

ویسے تحسین فراقی نے اس مجموعہ کا دیباچہ لکھتے ہوئے ایک کام بہت مفید کیا ہے کہ ان کی نثر کے بحر ذخار میں سے خلاصہ کر کے ایک فہرست مرتب کی ہے کہ قصہ مختصر انھوں نے یہ کچھ کہا ہے۔

ہم نے سوچا کہ لو تحسین فراقی آخر کو استاد ہیں۔ انھوں نے خلاصہ خوب کیا ہے لیکن اس فہرست کی دوسری مشق پر آ کر ٹھٹھک گئے۔ وہ یوں ہے

اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو خراب شعر کہنے سے ڈرتا جھجکتا نہ ہو۔

ہم نے سوچا کہ ارے اگر ظفر اقبال کے اس تصور شاعری کو ہم نے تسلیم کر لیا تو پھر خود ظفر کو سب سے اچھا شاعر تسلیم کرنا پڑ جائے گا۔

ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ ہم ظفر اقبال کو اچھا شاعر مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ خراب شعر کہنے سے ڈرتے جھجکتے نہیں۔ بے خوف و خطر کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر ہم انھیں اچھا شاعر مانیں‘ اس میں ہمیں تامل ہے۔

بس پھر ہم نے سوچا کہ خود ہی ان کی نثر کے بہتے دھارے میں غوطہ لگائو اور جتنا کچھ ہاتھ آتا ہے اسے لعل و گہر سمجھو اور اس کی قدر کرو۔ مگر ان کے ایک بیان پر ٹھٹھک گئے۔ لکھتے ہیں ’’میں نے ایبزرڈ شعر بھی کہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ الفاظ پر مشتمل کوئی شعر بے معنی نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے آگے کسی جگہ اس کی وضاحت بھی یوں کی ہے کہ ہر لفظ کے کچھ نہ کچھ معنی ہوتے ہیں اس لیے آپ جو کچھ بھی لکھیں گے اس سے معنی خود بخود برآمد ہو جائیں گے۔

مطلب ان کا یہ ہوا کہ ہم لفظوں کے انبار لگاتے چلے جائیں گے۔ معنی کے لیے تردد کیوں کریں۔ وہ تو خود لفظوں کے انبار سے برآمد ہو جائیں گے کیونکہ ہر لفظ کے معنی ہوتے ہیں۔ لفظوں کا انبار لگائو اور معنی بٹور لو۔ مگر پھر انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’معنی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کی حیثیت اب ثانوی ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ یہ بھی شاعر کے راستے کی دیواروں ہی میں سے ایک ہے‘‘۔ مطلب یہ ہوا کہ معنی چہ معنی می دارد کہ پیش مرداں من  آید۔ سو یوں لکھیں گے ہم کہ مطلب کچھ نہ ہو۔

ظفر اقبال ایسی باتیں فراٹے کے ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں۔ کسی کی مجال ہے کہ بیچ میں دخل دے۔ تو پھر تو یہی صورت رہ جاتی ہے کہ

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

یہ کتاب جو 512 صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے بیانات سے بھری پڑی ہے۔ ویسے تو جب بھی کوئی بگڑا دل ادیب کچھ کہتا ہے تو کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں مگر ظفر اقبال تو اپنے قاری کو سانس لینے کا موقعہ ہی نہیں دیتے۔ روک ٹوک کیسے کریں۔ پھر انھوں نے اپنی کتاب کا نام ایسا رکھا ہے کہ ایسے سارے بیانات کی اس میں گنجائش نکل آتی ہے۔ کتاب کا نام ہے ’لاتنقید‘۔ ویسے نام لامعنی بھی ہو سکتا ہے مگر لامعنی تو کچھ اچھی ترکیب نہیں بنی۔ پھر سیدھا سیدھا عنوان ہو گا ’بے معنی‘۔ اور اگر ’لا‘ ہی کے کلمہ پر زور ہے تو عنوان یوں بھی ہو سکتا ہے۔ ’لا مساوی ظفر اقبال‘‘۔ اس عنوان سے راشد صاحب کی روح بھی خوش ہو جائے گی۔

ویسے ہم نے لکھنے کی وہی تکنیک استعمال کی ہے جس کے ظفر اقبال بہت قائل ہیں کہ بس لکھتے چلے جائو۔ معنی خود بخود پیدا ہو جائیں گے۔ آخری بات جو ہم ناپ تول کر کہہ رہے ہیں کہ ظفر اقبال ماشاء اللہ نثر میں بھی خوب رواں ہیں۔ بیان رواں ہے۔ بیچ بیچ میں ایسے بولتے فقرے آتے ہیں کہ

دے مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے

مگر ہم نے ہر ایسے فقرے پر دل ہی دل میں بہت داد دی ہے۔ اور ایسی بات نہیں ہے کہ ہم عنوان کو جلدی سے قبول کر لیں اور آسان گزر جائیں۔ ان تحریروں میں جا بجا آپ کو تنقید کا جوہر بھی نظر آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔