زوال پذیر حکمرانی

مقتدا منصور  پير 2 فروری 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ملک کو درپیش مختلف نوعیت کے بحرانوں ہی میں اضافہ نہیں ہو رہا، بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات اور اکائیوں کے درمیان تضادات بھی مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے صاحب اقتدار اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کو معاشرے میں تیزی کے ساتھ ابھرنے اور گہرے ہونے والے تضادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کیونکہ کبھی بجلی کا بحران، کبھی قدرتی گیس کی قلت، کبھی پمپوں سے پٹرول غائب اور کبھی اشیائے خور و نوش کی مصنوعی کمیابی آئے دن کا معمول بن چکے ہیں۔

ایسا کون سا جرم ہے جو دھڑلے سے نہیں ہو رہا ہو۔ دہشت گردی سے ٹارگٹ کلنگ تک ہر قبیح فعل روز کی داستان ہے۔ اسٹریٹ کرائم اس سطح تک جا پہنچے ہیں کہ دو ہزار روپے کے موبائل کی خاطر انسانی زندگی کا چراغ گل کر دیا جانا عام سی بات ہو گئی ہے۔ ریاستی اداروں میں کرپشن اور بدعنوانی اس کے سوا ہے، جس نے عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن کر دی ہے۔

گزشتہ جمعرات کو کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایم کیو ایم نے پورے سندھ میں پہیہ جام ہڑتال کی۔ جب کہ اسی روز پنجاب کے گورنر مستعفی ہو گئے۔ الطاف حسین اور چوہدری سرور نے الگ الگ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر جو الزامات عائد کیے اور جن خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی، وہ پاکستان میں نظم حکمرانی کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے بحران کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان میں ریاستی اداروں کو دانستہ طور پر اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ ان میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے۔

اس پر طرہ یہ ہے کہ پولیس سمیت انتظامی محکموں کو اس حد تک کرپٹ اور Politicise کر دیا گیا ہے کہ وہ قانون کی بالادستی سے خود کو ماورا سمجھنے لگے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گورننس کی فرسودگی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بات محض ایک مفروضہ لگتی ہے کہ  پاکستان کو صرف مذہبی شدت پسندی سے خطرات لاحق ہیں۔ بلکہ اصل خطرہ اس اشرافیائی کلچر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مخصوص گروہ سے ہے، جو اقتدار کے سنگھاسن پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اسی کار از رفتہ نظم حکمرانی کا شاخسانہ ہے کہ قومی وسائل پر مکمل دسترس اور تمامتر ریاستی طاقت کے باوجود موجودہ اشرافیائی نظام عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

اس سلسلے میں بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے جوزف کوہن کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا، جن کا کہنا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ پاکستانی مقتدر اشرافیہ اتنی مضبوط ہو کہ وہ ریاست کو ناکام ہونے سے بچا لے، لیکن اس میں اتنی بصیرت اور طاقت نہیں کہ وہ کوئی ایسی تبدیلی لا سکے، جو ریاست کی Transformation  کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال دے‘‘۔ اس جائزے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے قیام کے وقت سے نظم حکمرانی کے جس بحران میں گرفتار ہو گئی تھی، حکمران اشرافیہ کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں اور ان پر تسلسل کے ساتھ اصرار کے نتیجے میں وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والے چھوٹے بڑے مسائل بحرانی  شکل اختیار کرتے چلے گئے۔

سرد جنگ کے بعد جب عالمی سطح پر دوررس تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں، تو ریاستی ڈھانچے کو Transform کیے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ کیونکہ ان تبدیلیوں کے براہ راست اثرات پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرتی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے پالیسی سازی کے طریقہ کار میں کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور اقتدار اعلیٰ پر قابض نااہل اور کرپٹ اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ اقتدار و اختیار کا بے جا و بے دریغ استعمال (Power Abuse) ہے، جو صاحب اقتدار و اختیار کو عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی پر اکساتا ہے۔ یہ روش اور رویہ بھی نظم حکمرانی کے بحران سے جڑا ایک اہم انتظامی معاملہ ہے۔ نظم حکمرانی کا یہ بحران دراصل کمزور حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ کمزور حکمرانی نے ملک میں جاری اشرافیائی نظام (Oligarchy) کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چونکہ ملک میں مقبول ووٹ حاصل کرنے والی بیشتر جماعتیں اسی اشرافیائی نظام کا حصہ ہیں، اس لیے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط بنانے پر متفق ہیں۔

ان ہی اشرافیائی قوتوں نے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ترتیب دیا ہے، جس میں صرف مراعات یافتہ طبقات کے لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ اگر کچھ حلقوں سے متوسط یا نچلے متوسط طبقے کے کچھ افراد اسمبلیوں میں پہنچ بھی جائیں، تو مقتدر اشرافیہ انھیں Co-opt کر کے جاری سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو ان پر مختلف الزامات لگا کر انھیں سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ سائنسی ایجادات اور طرز پیداوار میں ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ اطراف میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیاں اور واقعات کسی معاشرے کی ہئیت کو تبدیل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جب سماجی ڈھانچہ تبدیل ہوتا ہے تو طرز سیاست سے نظم حکمرانی تک اور سماجی اقدار سے ریاستی قوانین تک ہر اصول و ضابطہ میں تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس عمل کا راستہ روکنے اور پرانی ڈگر پر چلنے پر اصرار کے منفی اثرات برآمد ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے ڈھانچے کے حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ نظام صرف ڈیلیور کرنے میں صرف ناکام ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تسلسل ریاست کی بقا کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں تاخیر حکمرانی کے مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس لیے ملک کو بچانے، سیاسی نظام کی سمت کا واضح تعین کرنے اور عوام کو مطمئن کرنے کے لیے گورننس کے موجودہ ڈھانچے میں کلیدی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس طرح لائی جائیں؟ کیونکہ مقبول سیاسی جماعتیں نہ تو موجودہ انتظامی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی کے حق میں ہیں اور نہ ہی انھیں انتخابی نظام میں تبدیلی لانے میں کسی قسم کی دلچسپی ہے۔ کیونکہ ہر دو صورتوں میں انھیں اپنا اقتدار میں آنا مشکل سے مشکل تر ہوتا نظر آتا ہے۔ جب کہ پاکستانی عوام کو چار فوجی کودیتا(Coup d’ etate)  کا بھی تجربہ ہے، جو ریاستی انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قابض ہوئے، مگر 32 برسوں کے دوران نظم حکمرانی میں اصلاحات لانا تو دور کی بات، اسے مزید ابتری کی جانب لے گئے۔

تیسرا راستہ سپریم کورٹ کی مدد سے ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام ہے۔ مگر بنگلہ دیش میں یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے، اس لیے اس پر اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ انقلابات کے زمانے بھی لد گئے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان ایسی معاشرت میں اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اب صرف دو راستے ہی بچے ہیں۔

اول، برطانیہ کی طرح آئینی طریقہ سے تبدیلی۔ جس کے لیے طویل اور صبر آزما انتظار کی ضرورت ہے۔ جب کہ دوسرا طریقہ کار وہ ہے جو جرمنی کے چانسلر بسمارک نے 19 ویں صدی میں اختیار کیا۔ یعنی جب انھوں نے محسوس کیا کہ تبدیلی یورپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور اس کا راستہ روکنے کا انجام خونریز انقلاب کی شکل میں سامنے آتا ہے، تو انھوں نے خود کو تبدیل کر لیا۔ لہٰذا جرمن اشرافیہ نے ازخود Transform ہو کر دنیا کو تبدیلی کا ایک نیا ماڈل دیا، جو سیاسی قیادتوں کی بصیرت، مستقبل بینی اور سیاسی عزم کی واضح مثال ہے۔

اگر ملک کی مقبول قومی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں جرمنی کے چانسلر بسمارک کی نظیر پر عمل کرتے ہوئے جماعتی مصلحتوں اور مخصوص مفادات سے بلند تر ہو کر انتظامی ڈھانچے اور انتخابی نظام میں تبدیلیوں کے لیے از خود آمادہ ہو جائیں، تو یہ عمل احسن طریقہ سے سرانجام پا جانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ کام بحالت مجبوری اگر کسی اور کو سرانجام دینا پڑا تو سیاسی عمل کے اس مرتبہ کئی برسوں کے لیے معطل ہو جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ جوزف کوہن نے کہا پاکستان کی مقتدر اشرافیہ میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ معاشرے کو Transform کرسکے۔

اس لیے خدشہ یہی ہے کہ سیاسی قیادتیں اپنی روایتی نااہلی اور موقع پرستانہ سوچ کے زیر اثر پس و پیش سے کام لیتے ہوئے معاشرے کو اس مقام تک لے جائیں گی، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ لیکن وقت اور حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے زوال آمادہ نظم حکمرانی سے چھٹکارا پانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اقتدار و اختیار کی ریاست کی نچلی ترین سطح تک منتقلی ضروری ہوچکی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں تاخیر معاملات و مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس لیے جو بھی فیصلہ کرنا ہو گا، جلد ہی کرنا ہو گا۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ تبدیلی کا یہ عمل کس طرح سرانجام پاتا ہے اور اس سلسلے میں کون پیش رفت کرتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔