اسلام کو بدنام کرنے کی سازش

ظہیر اختر بیدری  اتوار 1 فروری 2015
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہر مذہب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے مذہب کو پھیلانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن ان کی تبلیغ پر امن ہوتی ہے ایسی کسی بھی تبلیغی کوشش کی مخالفت نہیں کی جاتی ۔ مذہب کے نام پر آج ساری دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اس کا سب سے بڑا حیران کن المیہ یہ ہے کہ اس قتل و غارت کا شکار ہر جگہ مسلمان ہی ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کا سب سے خوفناک ہتھیار خودکش حملے ہیں جن میں بے گناہ مسلمان ہی مارے جا رہے ہیں۔ اس دہشت گردی کا دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے فرقہ وارانہ جنگ میں بدل دیا گیا ہے۔

کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں بھی فرقہ وارانہ نفرت موجود ہے۔ اس دہشت گردی کی بے لگامی اور بربریت کا ایک المناک مظاہرہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں کیا گیا جہاں 140 کے لگ بھگ بچوں کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا، پشاور کے قتل عام نے جہاں ساری دنیا کو لرزہ براندام کر دیا ہے وہیں ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جو اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر انسانوں کا بے دریغ قتل کر رہی ہے۔ چونکہ دہشت گرد اس قتل غارت میں مذہب کے نام کو استعمال کر رہے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ بعض حلقے اس بے لگام، بے سمت دہشت گردی کو مذہبی پیش گوئیوں سے جوڑ کر اسے قیامت سے پہلے کا آخری معرکہ ثابت کرنے کی غیر عاقلانہ کوشش کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اس آخری معرکے کے بعد ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔ اس حوالے سے یہ مذہبی دانشور کانے دجال  کی آمد آمد سے بھی عوام کو آگاہ فرما رہے ہیں۔ دنیا میں ہونے والے مختلف واقعات اور المیوں پر لکھنے والوں کے اپنے اپنے نظریات ہوتے ہیں اور ہر لکھاری اپنے نظریات کے پس منظر ہی میں واقعات کا تجزیہ کرتا ہے۔

یہ تجزیہ کاری اگر ذاتی رائے پر مبنی ہو تو زیادہ خطرناک نہیں ہوتی، اگر اس کے پیچھے کسی جماعت، کسی تنظیم کی حمایت ہو تو پھر یہ تجزیہ کاری ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے، خیبرپختونخوا میں بعض گروہوں نے اپنی مرضی سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کی۔خیبر پختونخوا ہی میں طالبان نے شریعت کے نام پر کچھ قوانین نافذ کیے جو عصر حاضر کے تقاضوں سے متصادم تھے جس کی وجہ سے یہ ساری کوششیں بے سود ہو گئیں اور ان خطوں میں رہنے والے مسلمان بھی ان غیر منطقی کوششوں کے خلاف ہو گئے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اس قدر غیر منصوبہ بند اور بے ربط تھی کہ اس جنگ سے دہشت گردی کا خاتمہ تو کیا ہونا تھا الٹا اس میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ یہ دہشت گردی اب ایک منظم مربوط شکل اختیار کر گئی ہے۔ ابتدا میں یہ جنگ یا دہشت گردی القاعدہ کے نام سے لڑی گئی اس کے بعد مختلف قسم کے طالبان اس جنگ میں ملوث ہوئے اور اب یہ دہشت گردی ’’داعش‘‘ کے جھنڈے تلے ہو رہی ہے، اس دہشت گردی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں مذہب کے نام کو استعمال کیا جا رہا ہے، دنیا میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے، یہ آبادی 57 مسلم ملکوں کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دہشت گردی یا شریعت نافذ کرنے کی جارحانہ کوششوں کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے؟ اس کا جواب مکمل طور پر نفی میں آتا ہے اس لیے کہ اسلام کے نام پر کی جانے والی اس دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہو رہا ہے صرف پاکستان میں اب تک 50 ہزار مسلمان اس دہشت گردی کی نذر ہو گئے ہیں۔ 50 ہزار مقتولین نہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہے تھے، نہ ان کے مقاصد کی راہ میں دیوار بن رہے تھے۔

یہ مکمل طور پر معصوم اور بے گناہ لوگ تھے جو کسی جرم کے بغیر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس حوالے سے سب سے برا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا بھر میں اسلام پھیلانے کا متبرک کام خود مسلمانوں کے قتل عام سے کیا جا رہا ہے، اسلام میں بعض باتیں بہت واضح طور پر کی گئی ہیں مثلاً خودکشی کو خواہ وہ کسی حوالے سے کی جائے حرام کہا گیا ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خودکشی کرنے والا جہنم میں جائے گا اور دنیا بھر میں اسلام نافذ کرنے والوں نے خودکشی کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنا لیا ہے اور خودکشی کرنے والوں کو یہ بشارت دی جا رہی ہے کہ وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔

اسی طرح اسلام میں بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘ اور نفاذ اسلام کی ان کوششوں کے دوران قدم قدم پر سیکڑوں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ پیغمبر اسلام کی حصول علم کے حوالے سے یہ واضح ہدایت موجود ہے کہ ’’حصول علم کے لیے اگر چین جانا پڑے تو مسلمان چین جائیں‘‘ لیکن ہمارے محترم شریعت نافذ کرنے والے اسکولوں اور اسکول جانے والے بچوں کے سخت دشمن ہیں اب تک سیکڑوں اسکولوں کو بارود سے تباہ کر چکے ہیں اور ہزاروں طلبا کو قتل کر چکے ہیں۔ عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے اور شریعت نافذ کرنے والے مسجدوں، مندروں، گرجوں کو بموں اور خودکش حملوں سے اڑا رہے ہیں۔

دہشت گرد اس قسم کی تمام ہدایتوں اور اسلامی احکامات کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور ہمارے مذہبی دانشور، قلم کار انھیں مجاہدین اسلام کا نام دے کر ان کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام نافذ کرانے کی امیدیں باندھ رہے ہیں۔ اسلامی احکامات کی ان خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سب سے بڑی ذمے داری ہمارے علما کرام پر عائد ہوتی ہے جو دین کا اور دین کے احکامات کا علم بھی رکھتے ہیں جب کہ دہشت گرد کھلے عام دینی احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، بعض مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی ہیں اور سڑکوں پر آ کر دہشت گردی کے خلاف مظاہرے بھی کر رہی ہیں لیکن بعض مذہبی جماعتیں اب بھی دہشت گردوں کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتی ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی مضبوط ہو رہی ہے۔

دہشت گرد اب محض دہشت گردی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک مکمل جنگ لڑ رہے ہیں جس میں جدید جنگی ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں اس قسم کی جنگیں لڑنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اگرچہ کہ دہشت گرد منشیات اور اسلحے کی فروخت اغوا برائے تاوان بینک ڈکیتیوں وغیرہ جیسے مجرمانہ ذرائع سے وسائل حاصل کر رہے ہیں لیکن عراق اور شام میں جنگ لڑی جا رہی ہے اس میں میزائل اور ہوائی جہاز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں اور یہ کام محض منشیات اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعے ممکن نہیں اس کے لیے کسی طاقتور ملک کی دستگیری ضروری ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ دنیا میں صرف دو ملک ایسے ہیں جو دہشت گردوں کی اس سطح پر مدد کر سکتے ہیں اور ان کے سیاسی مفادات کا تقاضا بھی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مدد کریں اور یہ دو ملک اسرائیل اور بھارت ہی ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔