سات گھر

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 1 فروری 2015
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ایک آدمی نے آخری وقت میں اپنے بیٹوں کو جمع کیا۔ مرتے وقت اس نے کہا کہ گلبرگ کے سات بنگلے رفیق کے ہیں جب کہ ڈیفنس کے چودہ فلیٹ جمیل کے ہیں اور گلستان جوہر کے بائیس گھر احمد کے ہیں۔ لوگوں نے سمجھا کہ بزرگوار بہت امیر ہیں۔ تعداد سے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے ہر بیٹے کے لیے سات سے زیادہ گھر چھوڑے جا رہے ہیں تو بیٹیوں کے لیے کیا کچھ ہوگا۔ حقیقتاً یہ صاحب دودھ فروش تھے اور مرنے سے قبل بیٹوں کو سمجھا رہے تھے کہ کس گھر میں کون دودھ سپلائی کرے گا۔

اگر کالم نگار کہے کہ ہر انسان سات گھروں کی خواہش رکھتا ہے تو پڑھنے والے اسے مذاق سمجھیں گے۔ وہ کہیں گے کہ درجنوں گھروں کی بات سنی تو یہ لطیفہ نکلا۔ یہاں ایک آدھ مکان زندگی بھر میں بن جائے تو لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔ آپ کا انکار اور ہمارا اصرار ہے کہ ہر شخص سات گھروں کی تمنا کرتا ہے۔ یہ آرزو اور خواہش آپ کے دل میں بھی مچل رہی ہے۔ سات منٹ میں آپ کا انکار اگر اقرار میں نہ بدل جائے تو بے شک آپ ہمارا کالم کبھی نہ پڑھیے گا۔ اس چیلنج کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو انگلیوں کے قریب لائیے کہ گنتی ہوسکے۔

شادی انسان کی خواہش بھی ہوتی ہے اور ضرورت بھی۔ اسے گھر کا بسنا کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہوتا ہے جس کی خواہش کنوارے کرتے ہیں۔ اس محاورے کی روشنی میں کہ شادی وہ لڈو ہے جسے کھا کر بھی پچھتاتے ہیں اور نہ کھائے بھی تو کیوں نہ کھا کر آزمایا جائے۔ یہ پہلا گھر ہوتا ہے جس کے لیے لازمی ہے کہ بیٹی کا باپ شادی کے خواہش مند نوجوان پر اعتماد کرے۔

کھلاڑیوں اور فنکاروں کے علاوہ تقریباً تمام نوجوانوں کا انحصار شروع میں باپ و خاندان پر ہوتا ہے۔ شادی کے بعد خواہش ہوتی ہے کہ وہ گھر کا خرچ خود چلائے۔ یہ دوسرا گھر ہوتا ہے جس کی خواہش کوئی شادی ہوجانے کے بعد کرتا ہے۔ پہلی خواہش گھر بسانا اور دوسری گھر چلانا۔

تیسرا گھر جس کی کوئی خواہش کرتا ہے؟ والد اور خاندان سے ہٹ کر کسی انسان کا اپنے، بیوی بچوں کے ساتھ جو گھر ہوتا ہے اسے ہم نے تیسرا گھر قرار دیا ہے۔ جب بھائیوں کی شادی ہوتی ہے اور ان کے بال بچے ہوتے ہیں تو خودبخود جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ بڑی کوشش کی جاتی ہے کہ دل بڑے رہیں تو خود بخود مسئلہ حل ہوجائے گا۔ دلوں کی وسعت کے باوجود جگہ کی تنگی مجبور کرتی ہے کہ بھائی اپنے اپنے گھر لے لیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو حضرت آدمؑ کی تمام اولاد ایک چھت تلے رہتی۔

اللہ کی آل و مخلوق آسمان کی چھت تلے رہتی ہے لیکن انسان کے بچے کے لیے علیحدہ در و دیوار کی حاجت ہوتی ہے جب کہ آشیانے کی ضرورت تو جانوروں کو بھی پیش آتی ہے۔ یہ انسان کی گھر کے حوالے سے تیسری آرزو ہوتی ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم جس حد تک ممکن ہو برقرار رہنا چاہیے لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پرندے خود اڑنے لگتے ہیں تو اپنا گھونسلہ بناتے ہیں۔

جوانی کے بعد اور بڑھاپے سے قبل ادھیڑ عمری کا دور آتا ہے۔ نہ آدمی جوان ہوتا ہے اور نہ بزرگ۔ بچے اسکول و کالج میں پڑھتے ہیں۔ اس وقت آدمی تمنا کرتا ہے کہ اس کے بچوں کے گھر بس جائیں۔ ان گھروں کی تعداد تو کسی انسان کی اولاد کی تعداد کے برابر ہوتی ہے لیکن ہم اسے چوتھا گھر قرار دے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ شادی کے بعد گھر کا خرچ چلانا اور پھر اپنی چھت کے بعد بچوں کا گھر بس جانا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کالم نگار نے چار گھر تو بتا دیے اب وہ تین گھروں کی بات کیسے کریں گے۔ اب تو سب کچھ ہوگیا ہے تو سات کی تعداد کیسے پوری ہوگی؟ آپ کو چیلنج جیتنے کی امید ہے؟

آپ نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جس نے اپنے دو تین بیٹوں کی شادی کی ہو؟ یقیناً دیکھے ہوں گے۔ پھر وہ دادا بنتے ہیں۔ اگر وہ شخص کاروبار کر رہا ہے یا اچھی جاب ہے تو وہ بزرگی کے مزے لیتا ہے۔ اگر اس کا بڑا بنگلہ ہے یا مناسب فلیٹ ہے تو پھر وہ شخص چاہے گا کہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ آدمی ماشا اللہ نصف درجن پوتے پوتیوں کا دادا بن چکا ہوتا ہے۔ بچیاں ہیں تو نواسے نواسیاں بھی ہوں گے۔

بیٹیاں بھی مہینے میں ایک دو مرتبہ میکے آتی ہوں گی۔ اب وہ شخص خواہش کرتا ہے کہ برابر کا بنگلہ یا پڑوسی کا فلیٹ مل جائے تو ایک دو بیٹوں کو وہاں منتقل کردوں۔ یوں قریب کے قریب بھی ہوں گے اور پرائیویسی بھی سب کی برقرار رہے گی۔ سب سے بڑھ کر جگہ زیادہ ہوجائے گی۔ یہ کیا ہے؟ یہ پانچواں گھر ہے جس کی ایک شخص خواہش کرتا ہے۔

چھٹے اور ساتویں گھر گفتگو سے قبل ملکہ برطانیہ اور ہمارے ماموں والا واقعہ لازمی ہے۔ کرایہ کے مکان پر لینڈ لارڈ نے مقدمہ دائر کردیا تھا۔ یہ ہمارے وکالت کے ابتدائی دن اور نوے کا عشرہ تھا۔ تین بیٹوں، ایک طلاق یافتہ بیٹی اور مالک مکان بمع اہلیہ کے پانچ کمروں کے گھر میں رہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے ماموں کے دو کمروں کا فلیٹ اس کی جائز ضرورت ہے۔ ’’چار پوتے اور پانچ پوتیاں ہیں جب کہ دو بہوئیں حمل سے ہیں۔ آٹھ دروازے ہیں اور آدمی پہ آدمی گر رہا ہے۔‘‘

مقدمہ ہمارے خلاف گیا۔ اس وقت تک کرایہ داری کے آٹھ مقدمات میں ہمیں ایک بھی اپیل نہ کرنی پڑی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ میں فرسٹ رینٹ اپیل F.R.Aدائر کی گئی تو لینڈ لارڈ نے لی گئی پگڑی کی رقم واپس کرنے کی پیش کش کی جو ہم نے قبول کرلی۔ پھر ماموں کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملی تو انھوں نے تین کمروں کا فلیٹ لے لیا اور اپنے پہلے بیٹے کی شادی کرنے لگے۔ اب ان کے بیٹوں کا کام بھی چل پڑا تھا۔ مہندی کی تقریب میں ماموں اور ہم وہ دور یاد کر رہے تھے۔

میں نے بتایا کہ جب فیصلہ آپ کے خلاف ہوا تو میرا سر چکرا رہا تھا اور دفتر آکر لیٹ گیا۔ ابو سے بات کی تو انھوں نے ہائی کورٹ جانے اور فکر نہ کرنے کا کہا۔ ماموں بھی اس دور کو یاد کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے کہا کہ دوسرے لڑکے کی بھی شادی کرنی ہے۔ ممکن ہے چار کمرے ہماری فیملی کے لیے ناکافی ہوں تو پانچ کمروں کا فلیٹ دیکھنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ ماموں! کہاں وہ دو کمروں پر مقدموں کی تلوار اور اب کہاں نئی خواہشات۔ اسی لمحے ان سے کہا کہ ملکہ برطانیہ کے ’’برمنگھم پیلس‘‘ میں چھ سو کمرے ہیں جو ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

محنت اور قناعت کا خوب صورت کمبی نیشن ہو تو زندگی سہل ہوتی ہے۔ ہم نے پانچ گھروں کے بعد یہ بات کہی ہے کہ انسان کی خواہش سات گھروں کی ہوتی ہے۔ چھٹا گھر کون سا ہے؟ بیت اللہ کا طواف اور روضہ رسولؐ پر حاضری یعنی اللہ کا گھر دیکھنے کی خواہش۔ یہ گھر کے حوالے سے کسی بھی مسلمان کی اہم خواہش ہوتی ہے۔ عیسائیوں کے بھی ویٹیکن سٹی کی طرح کے کئی مقدس مقامات ہیں۔ یہودیوں کے لیے ہیکل سلیمانی، ہندوؤں کے لیے بنارس کی یاترا اور سکھوں کے لیے گولڈن ٹیمپل پر ماتھا ٹیکنے کے عمل کو چھٹا گھر ملنے یا دیکھنے کی تمنا کہہ سکتے ہیں۔

تاریخ میں اچھا نام پانا دانشوروں اور مدبروں کی خواہش ہوتی ہے۔ کامیاب سیاستدان، عمدہ اسکالر، نیک مصلح اور بڑا سائنسدان یا مشہور سوشل ورکر چاہتا ہے کہ تاریخ اسے اچھے نام سے یاد کرے۔ دنیاوی لحاظ سے یہ خوبصورت خواہش ہے اور اس پر اعتراض کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ دینی لحاظ سے ہر انسان اخروی نجات چاہتا ہے۔ اس دنیا کے بعد کوئی نہ کوئی دنیا۔ جہاں موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے وہیں انسان جانتا ہے کہ اچھے کاموں کا اچھا بدلہ اور برے کاموں کا برا بدلہ۔

آسمانی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے علاوہ سکھ و ہندومت میں بھی جنت و دوزخ کا تصور ہے۔ آخری گھر کے حوالے سے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بہشت میں اچھا گھر ملے، اسے فردوس بریں ملے۔ بڑے سے بڑے دھریے کو بھی Go to Hell کہا جائے تو برا مانے گا، کنوارے پن میں گھر بسانے سے جنت میں گھر بنانے تک ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے اچھے اور عمدہ ملیں ساتوں کے سات گھر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔