بلوچستان کے لاچار عوام کہاں جائیں گے؟

اسلم خان  جمعرات 4 اکتوبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

اس کالم نگار نے خود سے وعدہ کیا تھاکہ مقامی سیاست پر تبصرہ نہیں کروں گا یہ میدان اپنے بزرگوں کے لیے کھلا چھوڑ رکھوں گا لیکن کیا کروں کہ معاملہ بلوچستان کا آن پڑا ہے۔

جناب نواز شریف میدان میں اترے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف سب کچھ جانتے بوجھتے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں ایف سی کو بلوچستان سے واپس بلا لیا جائے ان کا مطالبہ ہے۔ تو پھر بلوچستان کے93 فیصد علاقے میں بسنے والے لاچار انسانوں کا والی وارث کون ہو گا۔ بلوچستان کے ’’بی‘‘ ایریا میں بسنے والوں کے جان و مال کا تحفظ کون کرے گا۔ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے بارے میں ہم مکمل اندھیرے میں ہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کی انتظامی تقسیم کس طرح کی گئی ہے اور غیر ملکی اشاروں پر ناچنے والی ہماری نام نہاد سول سوسائٹی کی اکثریت بھی جانتے بوجھتے پیالی میں طوفان اٹھائے جا رہی ہے۔

برطانوی سامراج نے بلوچستان کو انتظامی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ کوئٹہ سمیت چند شہروں پر مشتمل ’اے‘‘ ایریا کل رقبے کا صرف 7 فیصد ۔۔ جہاں پولیس کے ذریعے قانون کی عمل داری ہے، عدالتیں ہیں، جھوٹی سچی انتظامیہ ہے۔ باقی 93% بلوچستان مقامی سرداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ جہاں پر ان کے ذاتی وفادار ’’امن و امان‘‘ قائم رکھنے کے ذمے دار ہیں اور اب اس علاقے میں پولیس کی عدم موجودگی کا خلاء ایف سی پُر کر رہی ہے جس کے آفیسرز براہ راست فوج سے لیے جاتے ہیں‘ اس لیے شرپسندوں کے خلاف ایف سی کی کارروائیوں کو فوجی آپریشن کہا جا رہا ہے۔ ایف سی کو واپس بلانے کا مطلب نہتے اور مظلوم انسانوں کو قبائلی لیویز کے حوالے کر دیا جائے۔

اس نہلے پر جناب قمر زمان کائرہ نے دھلا مارا ہے کہ اگر نواز شریف بلوچ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری لے لیں تو ہم ایف سی کو واپس بلانے پر تیار ہیں۔ کیا اب پنجاب پولیس ایف سی کی جگہ لے گی جس کی موٹی توند والے افسران، زندہ دلان لاہور کا تحفظ تو کر نہیں سکے ۔ مشرف کے عہد ستم میں صرف ایک کام پاکستان کے حق میں ہوا تھا کہ اُس نے ڈاکٹر شعیب سڈل کی سفارش پر سارے بلوچستان کو’’ اے‘‘ ایریا قرار دے کر پولیس کی عملداری میں دے دیا تھا، پاکستان کے عدالتی نظام کا دائرہ کار سارے بلوچستان پر پھیلا دیا تھا۔

بہر حال بعد میں اس اچھے اقدام کو بلوچوں کی ’’دل جوئی‘‘ کے نام پر منسوخ کر دیا گیا۔یہ شعیب سڈل وہی ہیں ۔ جنہوں نے کراچی میں امن و امان قائم کیا۔ اس ’’جرم‘‘ میں انھیں ہائی پروفائل قتل کے سنگین مقدمات میں الجھایا گیا۔ خیر یہ ماضی کا قصہ ہے۔ اب دہشت گردی کے اس مسلمہ اور مصدقہ عالمی شہرت یافتہ ماہر کو سپریم کورٹ کے حکم پر ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے تنازعات سے آلودہ گندے کپڑے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں قتل عام کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں بلوچستان سے71 درخواستیں گم شدہ افراد کی دائر کی گئی ہیں جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سے ہمیشہ کے لیے گم ہو جانے والوں کی 748 درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ نام نہاد سول سوسائٹی کا ایک حصہ مکر و فریب کے ہتھکنڈوں سے حقائق مسخ کر رہا ہے۔ مظلومیت کی داستانیں گھڑ رہا ہے۔ لیکن جو16 سو پنجابی اور دیگر آباد کار مارے گئے ان مظلوموں کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے۔

اقوام متحدہ کے کمیشن نے بلوچستان میں مارے جانے والے غیر بلوچوں کی فریاد سننے سے انکار کر دیا کہ یہ معاملہ اُن کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ آج کل بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کا بڑا چرچا ہے‘ خاص طور پر بھٹو دور میں ہونے والی فوجی کارروائی، اس ظلم و ستم کی ہولناک کہانیوں نے حشر برپا کر رکھا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیا حیدر آباد ٹریبونل کسی فوجی ڈکٹیٹر نے بنایا تھا۔74 ء کے ’’فوجی‘‘ آپریشن کی قیادت، اس وقت کے گورنر بلوچستان اور آج کے شہید اعظم نواب اکبر بگٹی کر رہے تھے۔

جنہوں نے اس خاکسار سے برملا کہا تھا ’’میری آتش انتقام صرف سلال کے قاتل کا چلو بھر خون پینے سے ہی بجھ سکتی ہے‘‘ ۔۔۔۔ سلال بگٹی، ان کا لاڈلا، جواں سال بیٹا، جسے کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا الزام بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخ کلپر پر عائد کیا گیا۔ جس کی پاداش میں کلپروں کو جلا وطن کر دیا گیا تھا سیکڑوں نہیں ہزاروں کلپر، مسوری۔ اپنے ہی وطن میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ پارلیمان، عدالتیں اور مسلح افواج سب ادارے موجود تھے لیکن کوئی ان کی شنوائی کرنے والا موجود نہیں تھا۔

بلوچستان کی سیاست مفادات کا کھیل ہے ہم جلد حقائق بھلا دیتے ہیں کہ ہماری یادداشت کمزور ہے جناب اکبر بگٹی کی ’’شہادت‘‘ کے فورا بعد ابھی ان کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی تھی سبی میلے کے مہمان خصوصی جنرل پرویز مشرف کے لیے ہار لے کر کون کھڑا تھا۔ کون اپنے نانا کے قاتل کو خوش آمدید کہہ رہا تھا‘ کوئی اور نہیں اکبر بگٹی کا جواں سال نواسہ جو غالباً وہاں کا ضلع ناظم تھا۔ ابھی چند دن پہلے۔ برادرم طارق چوہدری نے اپنے کالم میں ایک چشم دید واقعہ بیان کیا کہ ایک بلوچ سیاستدان جس نے وزارت سے فارغ ہونے کے بعد 24 سرکاری گاڑیاں واپس نہیں کی تھیں۔ طارق بتاتے ہیں کہ میرے ساتھ بیٹھے ’’ن‘‘ لیگ کے ایک مرکزی رہنما نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بڑے فخر سے بتایا کہ میرے پاس48 سرکاری گاڑیاں آج بھی موجود ہیں۔ میاں نواز شریف نے سنی ان سنی کر دی۔

آج وہی میاں نواز شریف 93 فیصد بلوچستان کے ’’ بی‘‘ ایریا سے ایف سی واپس بلانے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ قاتلوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے ۔

جناب اختر مینگل سمیت کسی بھی قوم پرست بلوچ رہنما کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار غریب اور مظلوم بلوچوں کے لیے کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ہمارے سیاسی حکمت کاروں نے نا سمجھ میں آنے والی حکمت عملی کے تحت فوج کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے بے بس کر رکھا ہے ورنہ ڈاکٹر اللہ نذر کی نگرانی میں چلنے والے کابو فراری کیمپ سمیت تمام اڈے چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹائے جا سکتے ہیں۔

حرف آخر یہ کہ قندھار کو سمندر سے ملانے کے لیے گوادر کوریڈور بنانے کے سنہرے خواب دیکھنے والے چالباز امریکیوں کو نوید ہو کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ لیکن ان کی مداخلت کے رد عمل کے طور پر ہمیشہ سے سیکولر بلوچ سماج میں طالبانائزیشن کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔