- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں گاڑی پر فائرنگ، چار کسٹم اہلکار اور ایک بچی جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کو ٹیکنالوجی دینے کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو نکال دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایران کے صدر کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا، اسحاق ڈار
- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
باجی 100 روپے دے دینا
جی باجی کہاں جانا ہے؟ رکشہ ڈرائیور نے پوچھا۔
مارکیٹ تک جانا ہے، کتنا کرایا لگے گا؟ خاتون نے مناسب لہجے میں پوچھا۔
باجی جو مناسب ہو آپ دے دینا۔ رکشہ ڈرائیور نے کہا۔
خاتون نے اصرار کیا کہ پہلے کرایا طے کرلیا جائے۔
باجی 100 روپے دے دینا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر خاتون رکشہ میں بیٹھ گئیں۔
رکشہ ڈرائیور نے موقع دیکھ کر اپنی رٹی رٹائی کہانی سنانی شروع کردی، مہنگائی کا رونا اور سی این جی کی عدم دستیابی کے قصے شروع ہوگئے۔ باجی آج کل مہنگائی نے تو غریب کو مار ہی ڈالا ہے۔ اوپر سے سی این جی کی بار بار بندش نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ڈرائیور اپنے قصے سنانے میں مصروف بار بار خاتون کی جانب دیکھ رہا تھا کہ شاید اب وہ اس کا ساتھ دینے کے لئے کچھ کہیں، لیکن خاتون خاموشی سے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی جیسے کہ انہوں نے رکشہ ڈرائیور کی بات سنی ہی نہ ہو۔
مارکیٹ پہنچ کر خاتون کی جانب سے کرایا دیا گیا تو ڈرائیور نے آگے سے اپنا مطالبہ بڑھا دیا۔ ٹریفک اتنا زیادہ تھا اور آپ نے مارکیٹ تک کا کہا تھا لیکن میں آپ کو مارکیٹ کے دروازے تک لے کر آیا ہوں، ورنہ دوسرے مسافروں کو تو ہم روڈ کے شروع میں ہی اُتار دیتے ہیں۔ اب آپ کو 150 روپے کرایا ادا کرنا ہوگا۔
خاتون نے ڈرائیور کی بات سن کر حیرت کے ساتھ ساتھ غصے کا بھی اظہار کیا۔ ارے پہلے ہی 100 روپے کرایا طے ہوگیا تھا، اب اضافے کا کیا جواز بنتا ہے؟
بحث شروع ہوگئی اور یہاں تک کے وہ رکشہ ڈرائیور بدتمیزی اور لڑائی کرنے پر اُتر آیا۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے اردگرد موجود فارغ لوگ تماشہ دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے، مگر کسی کو دخل اندازی کرنے کی توفیق نا ہوئی۔ خاتون نے وقت ضائع کرنے کے بجائے زبردستی اضافی کرایہ ادا کردیا اور اِس طرح بات رفع دفعہ ہوگئی۔
مندرجہ بالا رکشہ ڈرائیور کی کہانی آپ نے نہ صرف سنی ہوگی بلکہ یقیناً اس تجربے سے بھی گزرے ہونگے۔ مملکت خداداد میں جہاں سی این جی کی لوڈ شیڈنگ اب معمول کی بات ہے، وہیں پچھلے 3 سال میں سی این جی رکشہ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روزگار کی کمی کے باعث لوگ رکشہ چلانے پر مجبور ہیں، جن سے کرایوں کے معاملے پر بحث کرنا نہ صرف فضول بلکہ لاحاصل بھی ہے۔ اِن رکشہ ڈرائیوروں میں بڑی تعداد ان پڑھ اور نا تجربہ کار لوگوں کی ہے جن کی جانب سے آج کل ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے، پہلے کرایا کچھ طے کرنا، پھر راستے بھر مہنگائی کا رونا رونا اور منزل مقصود پر پہنچ کر اپنی بات سے پِھر جانا۔ مرد حضرات تو ان سے نمٹ لیتے ہیں مگر عورت کو معصوم اور کمزور جان کر یہ ڈرائیور حضرات اپنے لہجے کی سختی سے اپنے من مانے کرائے وصول کرتے ہیں۔
فوٹو؛ فائل
کچھ سالوں پہلے ہر رکشے میں ایک میٹر لگا ہوا ہوتا تھا، جس سے فی کلومیٹر کے حساب سے کرایا بنتا، یعنی مسافر جتنا سفر کرے گا اس کو اس کا اتنا کرایا دینا ہوگا، نہ کوئی تلخی اور نہ لوئی لڑائی، کوئی بھی رکشہ ڈرائیور اضافی کرایا مانگنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے میٹر کم ہوئے اور اب تو بلکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔
میں مانتا ہوں رکشے، اور ٹیکسی دیگر آمد و رفت اور بے روزگاری کے خلاف آسان ذرائع ہیں۔ مگر اِن میں میٹر کی عدم موجودگی، سواریوں کے لیے مسلسل پریشانی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وبال جان بن گئے ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ وہ رکشہ ڈرائیورز کے ہاتھوں یرغمال بنی معصوم اور بے بس عوام کو ان کے شکنجے سے آزاد کراتے ہوئے سخت قوانین بنائیں، جس میں فی کلومیٹر کرایوں کا تعین سے لے کر دیگر مسائل کا بھی حال موجود ہو۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہر قدم پر لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا اور حکومت سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ نہ کرپائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔