باجی 100 روپے دے دینا

احمر جلیل  پير 2 فروری 2015
 بحث شروع ہوگئی اور یہاں تک کے وہ رکشہ ڈرائیور بدتمیزی اور لڑائی کرنے پر اُتر آیا۔  فوٹو فائل

بحث شروع ہوگئی اور یہاں تک کے وہ رکشہ ڈرائیور بدتمیزی اور لڑائی کرنے پر اُتر آیا۔ فوٹو فائل

جی باجی کہاں جانا ہے؟ رکشہ ڈرائیور نے پوچھا۔

مارکیٹ تک جانا ہے، کتنا کرایا لگے گا؟ خاتون نے مناسب لہجے میں پوچھا۔

 باجی جو مناسب ہو آپ دے دینا۔ رکشہ ڈرائیور نے کہا۔

 خاتون نے اصرار کیا کہ پہلے کرایا طے کرلیا جائے۔

باجی 100 روپے دے دینا۔

اچھا ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر خاتون رکشہ میں بیٹھ گئیں۔

رکشہ ڈرائیور نے موقع دیکھ کر اپنی رٹی رٹائی کہانی سنانی شروع کردی، مہنگائی کا رونا اور سی این جی کی عدم دستیابی کے قصے شروع ہوگئے۔ باجی آج کل مہنگائی نے تو غریب کو مار ہی ڈالا ہے۔ اوپر سے سی این جی کی بار بار بندش نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ڈرائیور اپنے قصے سنانے میں مصروف بار بار خاتون کی جانب دیکھ رہا تھا کہ شاید اب وہ اس کا ساتھ دینے کے لئے کچھ کہیں، لیکن خاتون خاموشی سے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی جیسے کہ انہوں نے رکشہ ڈرائیور کی بات سنی ہی نہ ہو۔

مارکیٹ پہنچ کر خاتون کی جانب سے کرایا دیا گیا تو ڈرائیور نے آگے سے اپنا مطالبہ بڑھا دیا۔ ٹریفک اتنا زیادہ تھا اور آپ نے مارکیٹ تک کا کہا تھا لیکن میں آپ کو مارکیٹ کے دروازے تک لے کر آیا ہوں، ورنہ دوسرے مسافروں کو تو ہم روڈ کے شروع میں ہی اُتار دیتے ہیں۔ اب آپ کو 150 روپے کرایا ادا کرنا ہوگا۔

 خاتون نے ڈرائیور کی بات سن کر حیرت کے ساتھ ساتھ غصے کا بھی اظہار کیا۔ ارے پہلے ہی 100 روپے کرایا طے ہوگیا تھا، اب اضافے کا کیا جواز بنتا ہے؟

 بحث شروع ہوگئی اور یہاں تک کے وہ رکشہ ڈرائیور بدتمیزی اور لڑائی کرنے پر اُتر آیا۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے اردگرد موجود فارغ لوگ تماشہ دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے، مگر کسی کو دخل اندازی کرنے کی توفیق نا ہوئی۔ خاتون نے وقت ضائع کرنے کے بجائے زبردستی اضافی کرایہ ادا کردیا اور اِس طرح بات رفع دفعہ ہوگئی۔

مندرجہ بالا رکشہ ڈرائیور کی کہانی آپ نے نہ صرف سنی ہوگی بلکہ یقیناً اس تجربے سے بھی گزرے ہونگے۔ مملکت خداداد میں جہاں سی این جی کی لوڈ شیڈنگ اب معمول کی بات ہے، وہیں پچھلے 3 سال میں سی این جی رکشہ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روزگار کی کمی کے باعث لوگ رکشہ چلانے پر مجبور ہیں، جن سے کرایوں کے معاملے پر بحث کرنا نہ صرف فضول بلکہ لاحاصل بھی ہے۔ اِن رکشہ ڈرائیوروں میں بڑی تعداد ان پڑھ اور نا تجربہ کار لوگوں کی ہے جن کی جانب سے آج کل ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے، پہلے کرایا کچھ طے کرنا، پھر راستے بھر مہنگائی کا رونا رونا اور منزل مقصود پر پہنچ کر اپنی بات سے پِھر جانا۔ مرد حضرات تو ان سے نمٹ لیتے ہیں مگر عورت کو معصوم اور کمزور جان کر یہ ڈرائیور حضرات اپنے لہجے کی سختی سے اپنے من مانے کرائے وصول کرتے ہیں۔

فوٹو؛ فائل

کچھ سالوں پہلے ہر رکشے میں ایک میٹر لگا ہوا ہوتا تھا، جس سے فی کلومیٹر کے حساب سے کرایا بنتا، یعنی مسافر جتنا سفر کرے گا اس کو اس کا اتنا کرایا دینا ہوگا، نہ کوئی تلخی اور نہ لوئی لڑائی، کوئی بھی رکشہ ڈرائیور اضافی کرایا مانگنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے میٹر کم ہوئے اور اب تو بلکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔

میں مانتا ہوں رکشے، اور ٹیکسی دیگر آمد و رفت اور بے روزگاری کے خلاف آسان ذرائع ہیں۔ مگر اِن میں میٹر کی عدم موجودگی، سواریوں کے لیے مسلسل پریشانی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وبال جان بن گئے ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ وہ رکشہ ڈرائیورز کے ہاتھوں یرغمال بنی معصوم اور بے بس عوام کو ان کے شکنجے سے آزاد کراتے ہوئے سخت قوانین بنائیں، جس میں فی کلومیٹر کرایوں کا تعین سے لے کر دیگر مسائل کا بھی حال موجود ہو۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہر قدم پر لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا اور حکومت سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ نہ کرپائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

احمر جلیل

احمر جلیل

بلاگر آئی ٹی پروفیشنل اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ہیں۔ آپ کی ٹوئٹر آئی ڈی @ahmerjalil جبکہ فیس بک پر ان سے ahmerjalilofficial کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔