گردشی قرضے کا عفریت

عبدا لوارث  منگل 3 فروری 2015

بجلی کی لوڈشیڈنگ وہ معاشی عفریت ہے جس نے ہماری معیشت کو ایک طویل عرصے سے اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے اور ہماری معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ مانی جاتی ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں کوئی بھی حکومت اس جن پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ہر حکومت نے اس مسئلے کو عارضی طور پر حل کرنے کی ضرور کوشش کی ہے، لیکن اس مسئلے کا طویل المدتی اور دیرپا حل تاحال تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔

لوڈشیڈنگ کے جہاں کئی اسباب ہیں ان میں گردشی قرضہ سرفہرست ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کافی طویل عرصے سے موجود 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا۔لیکن اس کے بعد سے یہ رقم پھر بڑھتی گئی اور اب یہ رقم ایک اندازے کے مطابق 400 ارب روپے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ پچھلے کئی سال کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گردشی قرضہ ہر سال حکومت کے لیے درد سر بنا رہا ہے۔

2006میں یہ 111.26ارب روپے، 2007میں 144.99 ارب روپے، 2008 میں 161.21ارب روپے، 2009 میں 235.65 ارب روپے، 2010میں 365.66 ارب روپے، 2011 میں537.53 ارب روپے، 2012 میں 872.41ارب روپے، 2013 میں 400 ارب روپے اور 2014 میں تقریباً 450 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انرجی ماہرین کے نزدیک گردشی قرضہ وہ رقم ہے جو بجلی کی لاگت اور اس کی قیمت میں فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کو وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس chain میں شامل ساری کمپنیاں متاثر ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ راتوں رات کھڑا نہیں ہوا، بلکہ طویل عرصے سے ملکی معیشت کو منہ چڑا رہا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں زیادہ اہم ہماری بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل پر زیادہ انحصار اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز(Losses) جس میں بجلی چوری بھی شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس گردشی قرضے میں تقریباً 25 ارب روپے ان ڈسٹری بیوشن لاسز کی وجہ سے ہی شامل ہیں۔ ان لاسز کا تخمینہ فی الحال 8 سے 15 فیصد تک لگایا گیا ہے۔ ان نقصانات کو 1 فیصد کم کرنے سے تقریباً7ارب روپے کی بچت بجلی کی لاگت میں کی جاسکتی ہے جس سے تقریباً 26 لاکھ گھریلو صارفین کو ریلیف مل سکتا ہے اور لوڈشیڈنگ میں 110میگاواٹ کی کمی کی جاسکتی ہے، ایک طویل عرصے سے ہم بجلی کی پیداوار کے لیے فرنس آئل پر انحصار کر رہے ہیں۔ جو دنیا میں سب سے مہنگی بجلی تصورکی جاتی ہے، اگرچہ پچھلے چند مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے اس لاگت میں کمی آئی ہے۔

لیکن اس فرنس آئل کی درآمد پر ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ بجلی کی لاگت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جب کہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے وہ گیس جو ہمارا قیمتی اثاثہ تھی گاڑیوں میں ڈال کر ضایع کیا گیا۔

اس وقت ملک میں سی این جی پمپس اور گاڑیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ اس گیس کو اگر بجلی بنانے کے لیے (Value Added Source) کے طور پر استعمال کیا جاتا تو لوڈشیڈنگ کے بحران پر نہ صرف کافی حد تک قابو پایا جاسکتا تھا بلکہ کئی ہزار خاندانوں کو روزگار مل سکتا تھا۔ کیونکہ کئی فیکٹریاں جو بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند پڑی ہیں، ان کو دوبارہ فعال بنایا جاسکتا تھا۔ نتیجتاً قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں بھی ہر سال کروڑوں روپے حاصل ہوسکتے تھے۔ پچھلے کئی سالوں میں فرنس آئل کی درآمد کے بل پر خرچ ہونے والی رقم میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کو کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

چونکہ بجلی کی پیداواری لاگت کو پورے طریقے سے عام صارف تک منتقل نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا قیمت اور لاگت کے فرق کو حکومت نے سبسڈی دے کر پورا کرنا ہوتا ہے، اور حکومت اس رقم کو دینے میں دیر کرتی ہے لہٰذا گردشی قرضے کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ پٹرول بحران میں PSOکے ٹیکنیکل ڈیفالٹ کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت اس گردشی قرضے کی کچھ رقم ادا کرکے اس مسئلے کو پھر کچھ عرصے کے لیے ٹال سکتی ہے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ مسئلہ پھر سر اٹھانے لگے گا۔ لہٰذا اس مسئلے کا اب دیرپا اور مستقل حل نکالنا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ تقسیم کار ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے پرانے نظام اور بوسیدہ آلات کی وجہ سے کئی سو میگاواٹ بجلی صارف تک پہنچے بغیر ضایع ہوجاتی ہے، جس کا بوجھ بھی گردشی قرضے میں شامل ہوجاتا ہے۔

ملک میں بڑھتی ہوئی بجلی چوری بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ بیشتر صارف اتنی مہنگی بجلی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے لہٰذا بجلی چوری ہونے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات بھی گردشی قرضے میں شامل ہوجاتے ہیں، اور اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے مستقل دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اس سبسڈی کا خاتمہ کرے۔ اگر یہ سبسڈی ختم کر بھی دی جائے تو بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔ اور اس کی چوری اور بھی بڑھ جائے گی۔ جس سے گردشی قرضہ پھر نمودار ہوجائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لائن لاسز کو کم کیا جائے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنے بوسیدہ نظام کی اوورہالنگ کریں، فرنس آئل پر بجلی کی پیداوار کی بجائے پانی (ہائیڈرو) سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر تیزی سے عمل کرایا جائے۔ اس سلسلے میں کئی بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔

علاوہ ازیں کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کو جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔ اس کے علاوہ قدرتی گیس کو آہستہ آہستہ بجلی بنانے کے منصوبوں میں استعمال کیا جائے اور اس کو ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ان تمام تجاویز پر خلوص دل سے عملدرآمد ہی کے ذریعے گردشی قرضے کے اس عفریت پر مستقل طور پر قابو پایا جاسکے گا۔صرف اس کی رقم ادا کرنے سے عارضی طور پر تو اس کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن کچھ مہینے بعد یہ پھر سر اٹھانے لگے گا۔ لہٰذا ایک گڑھے کے اندر پیسے ڈالنے سے بہتر ہے کہ اس کو ایک منظم انداز سے وسائل ضایع کیے بغیر بھر دیا جائے۔ اگر موجودہ حکومت اس مسئلے پر قابو پا لیتی ہے تو یہ اس کی معرکۃ الآرا کامیابی تصور کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔