آزادی اور اسلامی اقدارکی قدر

شبانہ یوسف  منگل 3 فروری 2015
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

انفرادی آزادی یا آزادیِ اظہارِ خیال اور عمل کا تصور مغرب میں آزاد لبرل جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ آزاد لبرل جمہوریت کے پر تضاد تصورات پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اب ذرا سی فہم رکھنے والا انسان اس کے’ آزادی‘، انصاف، عدل، برداشت ، مساوات اور امن  جیسے تصورات کی حقیقت کو اسی طرح سمجھ سکتا ہے۔

جس طرح کے ان تصورات کے تحت دنیا بھر میں عملی سیاسی وجنگی سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں اور مختلف معاشروں کی تنظیم سازی لبرل جمہوریت کی نمایندہ مغربی و امریکی ریاستیں جس طرح سے از سرِ نو اپنی پسند اور مفادات کے تحت کر رہی ہیں۔لبرل جمہوریت میں متصورہ آزادی کا یہ تصور اپنے آپ سے تضاد کا شکار اس لیے ہے کہ مغربی ریاستیں تکثیری معاشروں کی پروردہ ہونے کی دعویدار ہیں، جن میں ہر مذہب اور فرقے کے عقائد اور اقدار کا احترام ایک دوسرے پر ضروری ہے مگر اس آزادی کی کچھ حدود مقرر ہیں اور ایسی آزادی کو مثبت آزادی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔مثلاَ اگر ایک انسان اپنی آزاد مرضی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے گھر میں کتا رکھتا ہے تو اس کے بھونکنے کی آواز پر اگر اس کا ہمسایہ کسی قسم کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔

اس مثال کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ برطانوی شہریوں کی آزادی  ان کے گھروں کی حدود تک محدود ہے اور وہ بھی بہت سے معاملات میں ہمسائیوں کی اجازت کی محتاج ہوتی ہے، مگر بین القوامی سطح پر لبرل جمہوریت کی نمایندہ ریاستوں نے اپنے آزادی کے تصور میں پنہاں تضادات کی پردہ پوشی کرتے ہوئے منظم ریاستی و بین الاقوامی دہشت گردی کا سلسلہ نصف صدی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ فریڈم آف ایکسپریشن کی حقیقت جاننے کے لیے اس کا معروضی حقیقت میں عملی سطح پر جائزہ لینا ضروری ہے۔ جب ہم آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں آزادی کے اس تصور میں بدیہی طور پر موجود کسی قید یا حدود کا عنصر عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں ۔

آزادی بھی کسی نہ کسی قید یا حدود کے خلاف ہونے والا عمل یا سوچ ہے ۔آزادی کی خواہش کا جنم قید اور حدود میں ہوتا ہے۔خصوصاً مغربی معاشروں میں آزادی کے تصورات تاریخی طور پر عیسائیت میں موجود سخت پابندیوں کا نتیجہ ہیں ،مگر آزادی کے تصور کی بنیادی شرح مغرب میں دو طرح سے ہوتی آئی ہے منفی آزادی اور مثبت آزادی۔ مغربی ریاستیں اور حکمران اپنے معاشروں میں مثبت آزادی کے فروغ کی اجازت دیتے ہیں اور دوسرے عقائد اور ممالک میں در اندازی کرنے کے لیے منفی آزادی کے تصور کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی آزادی کا تصور ہر طرح سے تضادات کا شکار ہے ۔

آزاد جمہوریت نے انفرادی آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ آزادی اور آزادیِ اظہارِ خیال ہر فرد کا حق ہے،مگر مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب سب افراد اپنی اپنی آزادی کا عملی اظہار کرنا چاہتے ہیں تو  دوسرے افراد کے حقوق اور آزادی کا عمل باہم متصادم ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایک فرد کی آزادی کے تصور کے ساتھ دوسرے افراد کے حقوق کا تصور منسلک ہونا لازمی ہے دوسرے فرد کے حقوق کا تصور پہلے فرد کی آزادی کو کسی نہ کسی حدود میں لے آتا ہے یہ حدود اخلاقی بھی ہوسکتی ہیں، مذہبی بھی اور قانونی بھی ۔

کوئی بھی عمل بہت سے عوامل اور ضابطوں کا پابند ہوتا ہے ، ایک انسان اتنا ہی آزاد ہوسکتا ہے جتنا کہ اس کے معاشی وسائل، قانونی و اخلاقی ضابطے اور کسی معاشرے کی رسم و رواج کی ساختیں اس کو اجازت دیتی ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ آزادی کا نعرہ لگانے والی مغربی ریاستیں سیکیورٹی کے نام پر انفرادی آزادی کا دائرہ محدود کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔ان آزاد مغربی معاشروں میں رہنے والے افراد کی  ’آزادی‘ کا یہ حال ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر بننے والی سیاسی و ریاستی پالیسیوں کے نتائج میںجگہ جگہ آویزاں کیمرے اور اسکینرز اپنے ’آزاد ‘ عوام کی برا اور بریف تک کی جائز حدود کوناجائز طریقے سے پار کرکے ان کے اندرونی ’حساس علاقوں‘ تک کی نگرانی کرتے ہوئے نام نہاد ’آزادی‘ کو سلب کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ آزادی کے حوالے سے ان ریاستوں کے منافقانہ کردار کی تصویر کشی کے لیے بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں جو ان کی آزادی اظہارِ خیال کا اصل چہرہ عیاں کرتے ہیں، مثلا فرانس جس کے عوام آج سب سے زیادہ ایکسپریشن آف فریڈم کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ان کے صدرنے 2004میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر نہ صرف پابندی لگائی بلکہ اس حوالے سے ہونے والے عدالتی مقدمے کی باقاعدہ پشت پناہی بھی کی، جب مسلم خواتین اپنی مرضی سے حجاب پہنتیں ہیں تو ان کی شرح مغرب والے اس طرح کرتے ہیںکہ خواتین کو دبایا جا رہا ہے مگر جب عیسائی مذہب کے مطابق ایک نن اپنے بالوں کو اسکارف سے ڈھانپتی ہے تو اس کو اپنی مذہبی قدر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فرانس کے صدر کا  حجاب پر پابندی لگانے والا عمل ان کی منافق آزادی کی  حقیقت عیاں کرتا ہے۔

بہرحال یہ پابندی عمومی جگہوںسے اس وقت ہٹائی گئی جب ایک مسلم خاتوں نے 2014 میں اپنی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی کی، مگر ریاستی درسگاہوں میں اب بھی یہ پابندی قائم ہے۔فرانس کا یہ رویہ مسلم مذہبی علامتوں کی طرف ان کی آزادی کے تصور پر سوالیہ نشان ہے، مگر فرانس میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی نے اس پابندی کو ایک طرف تو جواز دیا ہے تو دوسری طرف فرانس سمیت یورپی ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور امریکا کو اپنی آزادی کی اقدار کے مٹ جانے کا خوف ستانے لگا ہے، جس کی وجہ سے مجموعی سطح پر ریاستی وغیر ریاستی اداروں اور تنظیموں نے مظاہرے بھی کیے اور فرانس کے صدر نے کہا کہ یہ ہماری آزادی کی اقدار پر حملہ ہے۔

کچھ اسی طرح برطانیہ اور امریکا نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور آزادی  اظہارِ خیال  کے اس منفی تصور کی قدر کو باقی رکھنے کے لیے اس فرانسیسی جریدے کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا جو ایک دہائی سے مسلسل مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہا تھا اور ان کی عقیدے اور عقیدتوں کی توہین میں مصروفِ عمل تھا، اس قسم کی آزادی کی اجازت خود مغربی معاشرے نہیں دیتے اور ایسی آزادی کو منفی آزادی کا نام دیتے ہیں، مگر اس وقت جن مغربی بر سرِ اقتدار منافق سیاسی و سماجی ارکان اور میڈیا کو فرانسیسی جریدے کی اسلامی اقدار کے خلاف کی جانے والی شر انگیزی جائز اور مثبت آزادی اظہارِ خیال لگ رہی ہے۔

انھی آزادی کے علمبرداروں کی آزادی صحافت سے محبت کا عملی اظہار اس وقت دیکھا جاسکتا تھا جب کیٹ مڈلٹن  کی ساحلِ سمندر پر شہزادے ولیم کے ساتھ مختصر لباس میں لی گئی تصاویر سڈنی  ڈیلی ٹیلیگراف نے شایع کیں تو اس جریدے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور تصاویر کی اشاعت پر پابندی لگادی گئی، فریڈم آف ایکسپریشن کے داعیوں کے شاہی جوڑے نے فرانسیسی جریدے پر کیٹ کی ٹاپ لیس تصاویر کی اشاعت کے جرم میں مقدمہ بھی درج کرایا۔ آج ایکسپریشن آف فریڈم کے دفاع کاروں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کیسے کیتھولک عیسائی دہشت گرد پادریوں نے  2009 میں ’ دی ڈاونچی کوڈ‘ فلم کی ریلیز کے موقعے پر اس کو ریلیز کرنے والوں پر حملہ کیا تھا، صرف اس لیے کہ یہ فلم  برائون کے اس تحقیقی ناول کے مرکزی خیال پر مبنی ہے جس میں اس نے دعوی ٰ کیا تھا کہ سینٹ سارا درحقیقت میری میگڈالین اور مسیح کی بیٹی ہے ۔

سینٹ سارا بہت سے کیتھولک  رومانیوں کے لیے ان کے مذہب کی نمایندہ اور کچھ کے لیے پانی کی دیوی ہے اور ہندوستانیوں کی کالی درگا ماں ہے۔ اس ناول کے مطابق میری اس وقت حاملہ تھی  جب یہودیوں نے مسیح کو مصلوب کرنا چاہا اوریروشلم اور یورپ کے راستے ہندوستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی، سینٹ سارا کی اس نئی شناخت یا برائون کے اس ایکسپریشن آف فریڈم  پر کیتھولک پادری بہت سیخ پا ہوئے تھے۔

یہ تو تھی مغرب کی منافقت، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اسلامی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی منافقت کو نہیں دیکھتے ان سے سوال نہیں کرتے۔چارلی ہیبڈو کے لیے مغرب کی منافقانہ باتیں فریڈم آف ایکسپریشن کے حوالے سے دہرے معیار کا جائزہ لیتے ہوئے اورخبریں دیکھتے ہوئے فرانسیسی صدر کے بیان پر میں غصے سے بآواز بلند یہ سوال کر رہی تھی کہ ہاں ان کی اقدار کی قدر ہے کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے اپنی اقدار کی قدر کرانے کی، مگر اسلامی اقدار کی کوئی قدر نہیں کیا؟

“yes mum, because our Islamic leaders have  sold out our values to world’s imperialists”.

یہ جواب میرے پاس بیٹھی میری بیٹی مشعل نے دیا تو مجھے خیال آیا کہ منڈی میں بک جانے والی جنس ہو یا اقدار ان کی وہی قدر ہوتی ہے جو خریدنے والا لگاتا ہے، ہماری اسلامی اقدار ہمارے حکمرانوں نے بیچ ڈالی ہیں تو ان کی آج وہی قدرہوگی  جو منڈی میں مقرر کی جارہی ہے، جب تک کہ ان اقدار کی قدر اسلامی حکمران خود نہیں کریں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔