دیر آید درست آید

فہیم پٹیل  منگل 3 فروری 2015
میں دنیا کو اور اپنے لیڈران کو تو بُرا بھلا کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں لیکن اپنے وطن کو بُرا کیسے کہوں جس کو اپنے مقصد پر چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ فوٹو: فائل

میں دنیا کو اور اپنے لیڈران کو تو بُرا بھلا کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں لیکن اپنے وطن کو بُرا کیسے کہوں جس کو اپنے مقصد پر چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ فوٹو: فائل

وہ کہتے ہیں نہ کہ ’صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہا جاتا‘، بس ایسا ہی کچھ معاملہ مملکت خداداد کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔۔ بدقسمتی سے دہشتگردی نے کمر پر ایسا وار کیا کہ اُٹھنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اُٹھنا محال ہوچکا ہے۔

لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم کبھی اُٹھ نہیں پائیں گے کہ پانی کے قطرے بھی اگر مسلسل پتھر پر پڑیں تو اُس پر بھی سوراخ ہو  جاتا ہے، اِس لیے کوشش تو ہمیں کرنی ہے اور یہی کوشش پاکستان کو دوبارہ وہی مقام دلائے گی جو ماضی میں کبھی اِس کو حاصل تھا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، یہاں اصل مدعا تو یہ تھا کہ گزشتہ روز خبر نظر سے گزری کے پاکستان نے 7 برس بعد 23 مارچ کو آزادی پریڈ دوبارہ انعقاد کرنے کا اعلان کردیا ۔۔۔۔ کم علم و عقل کی بنیاد پر شاید میں باقی چیزوں سے آشنا نہ ہوں لیکن ایک بات تو ضرور جانتا ہوں کہ آزادی پریڈ کے حوالے سے خبر پڑھ کرقوم کا ایک ایک سپوت (پھر چاہے اُن کی تعداد 18 کروڑ ہو یا 20 کروڑ)  خوشی سے سرشار ہوگا۔

یہ بات تو آپ نے پہلے بھی سنی ہوگی لیکن مجبوری یہ کہ دوبارہ بیان کرنی پڑرہی ہے کہ پاکستان ایک ایسی جنگ لڑرہا ہے جس کو ہم خود کھینچ کر ہم اپنے گھر لے آئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کے پڑوس میں کوئی مہمان آیا ہو اور وہ دروازہ کھلنے کا انتظار کررہا ہو، اتنے میں آپ اُس کے پاس جائیں اور کہیں کہ ارے سرکار آپ وہاں کیا کررہے ہیں، یہاں ہمارے گھر آئیں اور یوں آپ کسی اور کے مہمانوں کو اپنے گھر زبردستی لے آتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘، تو  پھرکیونکر ماضی کو یاد کرکے افسوس کیا جائے ۔۔۔۔ جب دنیا آگے کی جانب جارہی ہے تو ہمیں بھی ہمت کرکے آگے بڑھنا ہوگا، دنیا کو بتانا ہوگا کہ کوئی دُکھ، کوئی درد، کوئی بڑے سے بڑا نقصان ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔

بہرحال، اصل بات یہ تھی کہ ہمیں بالآخر پورے 7 سال بعد وہ دن دیکھنا نصیب ہورہا ہے جب ہم اپنی مصلح افواج کو ایکشن میں دیکھیں گے۔۔۔۔ اگرچہ یہ ایک نمودونمائش سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا مگر قوم کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے اور دشمن کو یہ باور کروانے کے لیے کہ جناب ہم نے بھی کوئی کچی گوٹی نہیں کھیلی، بہت ضروری ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ ناگزیر ہے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔

اگرچہ پاکستان اِس وقت پل صراط پر سفر کررہا ہے، کہ راستہ انتہائی کٹھن مگر تمام تر مشکلات کے باوجود اِس کو چلنا ہےاور لازمی چلنا ہے کہ مشکل کے بعد تو سکون و راحت نصیب ہوتا ہے۔ دنیا پاکستان کے خلاف لاکھ سازشیں کرلے اور میں اور آپ اپنے لیڈران کو لاکھ بُرا کہہ لیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب الزامات ٹھیک ہیں کہ وہ بُرے ہیں، اور کوئی ایک نہیں بلکہ اکثریت بُری ہے اور اُنہی کی وجہ سے ہم یہاں پہنچے ہیں ۔۔۔۔ مگر اِن تمام تر سازشوں کے باوجود پھر چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی، پاکستان اپنی جگہ پر قائم اور دائم  ہےاور انشاءاللہ ہمیشہ رہے گا  کہ اِس کے قیام کا مقصد ہی تاآخر قائم رہنا ہے۔

ابھی گزشتہ دنوں ہم نے یہ بازگشت بارہا سنی کہ اب امریکی صدر بھارت چلے گیا ہے، تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے اور بس اب پاکستان کا مستقبل تو مزید تاریک ہوگیا ہے۔ تو ایسے تمام لوگوں سے التجا ہے کہ جناب پاکستان کے بغیر خطے کا وجود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے اچھے حالات صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ پاکستان جن نعمتوں سے مالا مال ہے شاید ہی کوئی دوسرا ملک ہے، بس کچھ وقتی پریشانیاں ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے خلوص نیت۔ جس دن  ہمیں یہ میسر آگئی تو پھر کیا بھارت اور کیا چوہدراہٹ۔

اِس لیے پاکستان کو پہلے یہ خود سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کچھ کرسکتا، اُس نے اپنے اندر بے شمارنعمتوں کے ذخائر سمیٹے ہوئے ہیں اور جب یہ بات سمجھ آجائے تو دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ اب پاکستان کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اگر بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر وہاں امریکی صدر جاسکتا ہے تو یوم پاکستان کے موقع پر یہاں چین اور روس کے سربراہ مملکت آسکتے ہیں۔

اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے پاکستان کے پاس بہت نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ دنیا کو بتادینا چاہیے کہ جناب، دنیا میں آپ اکیلے نہیں اور نہ ہم صرف آپ کے محتاج ہیں۔ ویسے بھی جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو سو دروازے کھلتے ہیں، تو قسمت کے دیوی پاکستان کے قدموں پر ہے، بس ضرورت اِس بات کی ہے خلوص نیت کے ساتھ ہاتھ آئے اِن مواقعوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جائے، پھر دیکھیے جناب ہوتا ہے کیا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔