خورشید اقبال

رفیع الزمان زبیری  منگل 3 فروری 2015

پروفیسر ہارون الرشید تبسم کہتے ہیں کہ ’’اقبال کی بلند اقبالی نے انھیں خورشید اقبال بنا دیا اور ان کی شاعری ان کی فکر کی ترجمان ہو کر خورشید سحر بن گئی اور چونکہ اقبال کی شاعری میں خورشید ایک اہم استعارہ ہے اس لیے میں نے اس کو اپنی اس کتاب کا عنوان بنا لیا جو فکر اقبال کی تفہیم کی ضامن ہے۔‘‘

پروفیسر ہارون الرشید کی کتاب ’’خورشید اقبال‘‘ میں علامہ کے فکر و فن کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی تین سو پینسٹھ کتابوں کا تذکرہ ہے۔ وہ اپنی اس کتاب کو اقبالیات کی انسائیکلوپیڈیا قرار دیتے ہیں۔ وہ خود محقق اقبال ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اقبال پر تحقیق کرنے والوں کی رہنمائی کرنے والے بن گئے ہیں۔ ابھی دو سال سے بھی کم عرصے میں اقبال پر ان کی دو کتابیں ’’اقبال کے گوہر شہوار‘‘ اور ’’خزینۂ اقبال‘‘ شایع ہوئی ہیں۔

’’خورشید اقبال‘‘ میں شامل کتابوں کی افادیت کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ کتاب کے موضوع کے ساتھ کتاب کا عنوان مصنف کا نام، ناشر، سن اشاعت اور قیمت کی تفصیلات ہی نہیں دی گئی ہیں بلکہ پروفیسر ہارون الرشید نے مختصر طور پر اپنا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب کو پڑھنے والوں اور خصوصاً حصول علم میں مشغول نوجوانوں کو ایک ہی جگہ علامہ اقبال کے فکر و فن سے آگاہی ہو جاتی ہے۔

پروفیسر ہارون الرشید نے ہر کتاب کے موضوع کا ذکر کرتے ہوئے اس کے مشمولات اور اپنے جائزے کو بھی واضح کیا ہے۔ اپنی اقبال شناسی کے نکتہ نظر سے ان کا جائزہ قابل قدر ہے۔ اس سے ان کی اس کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آغا اشرف کی تصنیف ’’اقبال اور پاکستان‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب قیام پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ ہے جو محفوظ کر دی گئی ہے۔ کتاب ’’اقبال اور نژاد نو‘‘ نوجوان نسل کو اقبال کے کلام سے شناسائی کے ساتھ ساتھ ملی جذبہ بیدار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ ’’نقوش اقبال‘‘ مولانا ابوالحسن ندوی کی عربی میں اس کتاب کا اردو ترجمہ ہے جس کا مقصد اقبال کے افکار کو اہل عرب تک پہنچانا ہے۔

تین سو پینسٹھ کتابوں کا جمع کرنا، انھیں پڑھنا اور پھر ان کا موضوع اور تخصص کے حوالے سے تعارف کرانا جس محنت، توجہ اور وقت کا متقاضی ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید کو اس کام میں تین سال لگے۔ انھوں نے اپنے کئی دوستوں کے نام لیے ہیں جنھوں نے ان کو علامہ اقبال پر لکھی گئی کتابیں فراہم کیں اور اپنے مشوروں سے نوازا۔ اقبال شناسی کا دائرہ روز بہ روز پھیل رہا ہے اور عالمی تناظر میں اقبال شناسی اپنی راہیں ہموار کر رہی ہے۔ یقین ہے کہ اقبال شناسی میں ’’خورشید اقبال‘‘ سے مزید اضافہ ہو گا۔

علامہ اقبال کی فکر جس کا اظہار ان کی اردو اور فارسی شاعری سے واضح طور پر ہوتا ہے اس کی تفہیم کے کچھ بنیادی اشارے ہیں۔ ان کو سمجھ لیا جائے تو اقبال شناسی آسان ہو جاتی ہے۔ خودی سے اقبال کا کیا مطلب ہے، تصوف کیا ہے، اقبال کے محبوب صوفیہ کون ہیں، ان کا پیغام کیا تھا، توحید کا ان کا تصور کیا ہے، اجتہاد کا تصور کیا ہے، تعلیم کے بارے میں ان کا نظریہ کیا تھا، ان کا فلسفہ سیاست، ان کا تصور زماں و مکاں، ان کا تصور تاریخ، ان کا تصور دین، ان کا نظریہ اخلاق، تصورات عشق و خرد، فنی اعتبار سے ان کی شاعری کا معیار اور مقام اقبال شناسی کے لیے ان تمام پہلوؤں کا مطالعہ ضروری ہے۔

پروفیسر ہارون الرشید نے خورشید اقبال میں جو کتابیں شامل کی ہیں اور جن کا تعارف کرایا ہے، وہ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کتابوں کے لکھنے والے خود صاحب فکر ہیں اور انھوں نے تحقیق اور مطالعے کے بعد اقبال کے فکر و فن کے مختلف گوشوں پر اظہار خیال کیا ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید نے ان تمام اہل ادب کا تعارف کرایا ہے اور ان کے مطالعہ اقبال کا نچوڑ بھی پیش کر دیا ہے۔ یہ بڑا کام ہے جو انھوں نے کیا ہے۔ اگر ایک کتاب کا تعارف روزانہ پڑھ لیا جائے تو ایک سال میں قاری اقبال شناسی کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ہارون الرشید نے اقبال پر لکھی گئی کتابوں کا اور ان کے لکھنے والوں کا جس انداز سے تعارف کرایا ہے، اس کی صورت کچھ یوں ہے مثلاً:

’’حکمت اقبال‘‘ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان معدودے چند اہم شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے فکر اقبال کو آگے بڑھانے میں بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کے علمی اور ادبی کاموں کے نقوش مذہبی و ثقافتی زندگی پر بہت واضح ہیں۔ اپنی کتاب ’’حکمت اقبال‘‘ میں انھوں نے پندرہ موضوعات پر بحث کی ہے اور ہر موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے فلسفہ خودی پر اس انداز سے بحث کی ہے کہ کوئی پہلو بھی تشنہ نہیں رہنے دیا ہے۔ انھوں نے فلسفہ خودی کا مطالعہ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں کیا ہے۔ قرآن و سنت کو کسوٹی قرار دے کر مسلمان کی غفلت کو اس کی خودی میں پوشیدہ پایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کے تصورات خودی علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت برجستہ، زوردار، درست اور ناقابل تردید ہیں۔

’’خورشید اقبال‘‘ میں ایک گوشہ علامہ اقبال پر پروفیسر ہارون الرشید کی تصنیف کردہ کتابوں کے تذکرے کا بھی ہے۔ ان کتابوں میں قندیل اقبال، اقبال اور سرگودھا، اقبال بہ حیثیت ادبی نقاد، اقبال جو اقبال ہے، حیات اقبال کا سفر شامل ہیں۔ ان کتابوں پر لکھے گئے تبصرے بھی دیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید نے اپنی علمی تحقیق کا مرکز اقبال کی شخصیت ان کے افکار اور ان کی شاعری کو بنایا ہے، وہ اقبال کے شیدائی ہیں۔ انھوں نے اقبالیات پر ہی ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔

وہ سرگودھا کی ان مشہور ہستیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو ادب اور اقبالیات پر قابل تعریف کام کیا ہے۔ ابو المعانی عصری ان کی کتاب ’’اقبال جو اقبال ہے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’موضوعات کی وسعت نے جہاں نئے گوشوں اور جہتوں کی نشاندہی کی ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ حضرت اقبال اور ان کے فکری تصورات اور معاشرتی اور سماجی رویوں اور سیاسی نظریات اور عملی سیاست میں بھرپور کردار دا کرنے کی ضرورت اور اہمیت میں ظہور پذیر ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور یہی عملی ثبوت حضرت قائد اعظم کی شعوری سیاست برصغیر میں انقلاب لاتی ہے۔ ’’اقبال جو اقبال ہے‘‘ کئی ایسے پوشیدہ مضمرات سے پردہ اٹھاتی ہے جس سے اس کتاب کی فکری افادیت سامنے آتی ہے اور اس کو مزید اجاگر کرنے کے لیے سنجیدہ فکر قاری کے ذہن کو منتشر بھی کرتی ہے۔‘‘

بقول پروفیسر منور مرزا پروفیسر ہارون الرشید تبسم فضائے علم و ادب کے شاہین ہیں، شعر بھی خوب کہتے ہیں، نثر بھی اچھے لکھتے ہیں۔ شوق علم بھی ہے، ذوق تحقیق بھی۔ وہ سیماب صفت اور روح بے تاب کے مالک ہیں۔ اقبال پر ان کی کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔