خاموشی ہی تمہارا جرم ہے

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 3 فروری 2015

ایتھنز کے عظیم جمہوریت پر ست، منتظم اور مقرر پیری کلیس کو جب ان یونانی بہادروں کی تدفین کے موقعے پر تقریر کی دعوت دی گئی جو اپنے ملک کے لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں کام آئے تھے، تواس نے اپنی طویل تقریر میں کہا ’’لوگو! ایتھنز کی عظمت پہچانو اس کے قابل بنو اسی سے محبت کرو دیکھو ان شہیدوں کے لہو نے اس کے چہرے کوگلنار بنا دیا ہے۔

انھیں اپنے فرائض کا علم تھا وہ اپنے معیار سے فروتر نہ رہے اگر وہ کبھی کسی مہم میں ناکام رہے تو انھوں نے جان دے کر اس کوتاہی کی تلافی کر دی، یہ ہی ان کی آخری اور بہترین متاع تھی اور اس کو بھی انھوں نے وطن کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا وہ مر گئے تا کہ ہم اور ہمارا شہر زندہ رہے انھوں نے ابدی عظمت حاصل کر لی وہ عظمت جو سدا  بہار ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ انھوں نے وہ مقبرہ پایا جو انتہائی طور پر قابل عزت ہے یہ سنگ وخشت کا مقبرہ نہیں جس میں ان کی ہڈیاں دفن ہیں وہ قلبی مقبرہ جس میں ان کی یادیں مشک افشاں ہیں اور جو ہمیشہ لوگوں کو فکر و عمل اور تقریر و تحریر پر اکساتی رہیں گی۔ ساری دنیا شہیدوں کی یادگار ہے صرف وہ کتبے ہی ان کی یادگار نہیں جو ان کے لوح مزار پر لگے ہوئے ہیں ان کی یاد لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

اب یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے کہ آپ بھی ان کی پیروی کریں اور ویسا ہی عمل پیش کریں یہ سمجھ لیجیے کہ مسرت کا دارو مدار آپ کی آزادی پر ہے اورآزادی کا انحصار آپ کی ہمت پر ہے، خطرات کے سامنے آپ کے عزم و یقین میں کوئی کمزوری نہ آنے پائے موت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھنے والے نہ بد قسمت ہوتے ہیں نہ ذلیل اور نہ ہی وہ اعلیٰ کردار سے محروم ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو اپنی زندگی قومی مقاصد پر لگا دیتی ہیں۔ ہر معقول آدمی اس ذلت کو زیادہ تکلیف دہ سمجھتا ہے جو اس کی اپنی غلطی یا سستی کی وجہ سے پیش آتی ہے اور اس مو ت کا خیر مقدم کرتا ہے جو نادید ہ طور پر میدان کار زار میں اسے نصیب ہوتی ہے جب کہ وہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتا ہے۔

اس لیے میں شہیدوں کے والدین سے ہمدرد ی کا اظہارنہ کروں گا بلکہ ان کو مبارکباد دوں گا۔ وہ بخو بی جانتے ہیں کہ یہ دنیا تبدیلی اورترقی کے امکانات سے بھری ہوئی ہے اور مردوں کی یہ انتہائی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو عزت و عظمت کی قربان گاہ پر نذرانہ دے دیں جیسا کہ ان شہدا ء نے کیا آپ کو لازم ہے کہ پورے وقار کے ساتھ ان کا ماتم کریں ان کی زندگی اس اعلیٰ سطح پر تھی جہاں موت اور مسرت ہم آغوش ہوتی ہیں۔ آپ ان شہیدوں کی اعلیٰ مقصدیت پر غور کریں اور انھیں جو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوئی ہے اسے نگاہ میں رکھیں اور اپنے غموں کو بھول جائیں احساس عزت و عظمت لازوال ہیں بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں اپنے ملک میں   اپنے ہم چشموں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے۔ ہمارے شہدا اپنے امتحان و آزمائش میں سرخرو رہے اور قوم ان کی وجہ سے سر بلند ہے۔‘‘

پیری کلیس کی تقریر کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر چلا چلا کرہمیں بول رہا ہے کیا میں سچ نہیں ہوں۔ بولو پاکستان کے 18 کروڑ لوگو بولو کیا میں سچ نہیں ہوں۔ ہاں، ہاں تم سب کے سب سچ ہو میں گواہی دیتا ہوں۔ کیا میرے 18 کروڑ ہم وطنو تم بھی یہ ہی گواہی دیتے ہو بولو خدا کے واسطے جواب دو اتنی خاموشی کیوں ہے اتنا سناٹا کیوں ہے۔ خدارا اپنی چپ توڑو دو اپنے لبوں کوآزاد ہونے دو انھیں سچ کہنے دو۔ اسی چپ نے تمہیں عذابوں میں مبتلا کر رکھا ہے تمہاری خاموشی ہی تمہارا اصل جرم ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر تم گواہی کیوں نہیں دیتے ہو۔ اگر نہیں دیتے ہو تو کیا مان لیا جائے  کہ سابق گورنر چوہدری سرور صحیح کہتے ہیں کہ یہاں سچ کا قحط ہے۔

آخر ان ساری چیزوں کا قحط ہمارے ہی ملک میں کیوں ہے کیا ہماری زمین اتنی بانجھ ہو گئی ہے۔کیا ہم صرف جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں کیا ہمیں جھوٹ سن کر ہی تسکین ملتی ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سچ سنتے ہی ہماری طبعیت خراب ہونے لگتی ہے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم قصے کہانیوں میں مست رہتے ہیں جیسے ہمارے اجداد الف لیلیٰ، اڑن کھٹولہ ، الہ دین کا چراغ کی کہانیوں میں مست رہتے تھے اس کے بعد  تاریخی ناول ٹارزن کی کہانی ، تین عورتیں تین کہانیاں وغیرہ ہم بہت دلچسپ قوم واقع ہوئے ہیں۔ قراۃ العین حیدر نے اپنے ناول ’’آگ کے دریا‘‘ میں سچ لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں جو نفسا نفسی کا عالم نظر آتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کو اس سرزمین سے کوئی بے  جذباتی اور روحانی لگائو نہیں، وہ مواقع اورسیکیورٹی کی تلاش میں یہاںآئے۔ ایشیا میں سیاسی بیداری کے پھیلتے ہی یہ قوم متضاد وفاداریوں کی کش مکش کا شکار ہو گئی، ’’میرے مولا بلا لے مدینے مجھے‘‘ اس کا محبوب نغمہ تھا۔ پان اسلامزم کی تحریک نے اس تصور کو اور دل آویز بنایا۔ اسلام اس لفظ کی جو گت بنی ہے (کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم ہار نے لگے تو سمجھو اسلام خطر ے میں ہے) دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آ کر اسی لفظ پر ٹوٹتی ہے۔ ساری دنیا کی طرف سے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پرتنگ نظری کا غلا ف چڑھا ہواہے موسیقی ، آرٹ ، تہذیب ، علم و ادب سب کو مُلا کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہاہے۔‘‘  میرے ہم وطنو خدارا قصے کہانیوں سے باہر نکل آئو جھوٹ کی دنیا کو خیر آباد کہہ دو پاکستان کی عظمت کو پہچانو۔ مسرت کا دارومدار آپ کی آزادی اور ہمت پر ہے۔

آج جو انتہا پسند اور دہشت گرد ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں آئیں ہم کر انھیں مار بھگا ئیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں بقول پیری کلیس کے ’’ بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں، اپنے ملک میں، اپنے ہم چشموں میں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے۔‘‘ ہم سب کو بھی ایک روز بوڑھا ہونا ہے آئیں سب سے پہلے ہم اپنے ان 60 ہزار فوجیوں، شہریوں، بچوں کو جنہوں نے اپنی جانیں اس لیے قربان کی ہیں یہ ملک زندہ رہے آپ اور میں زندہ رہیں ۔ مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر خراج عقیدت پیش کریں اور پھر اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اپنی آزادی، اپنی تہذیب و تمدن ، اپنی خوشحالی و ترقی کی خاطر اپنی جانوں کی پروانہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے ملک کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔