غزل؛ ’’وہ جا رہا ہے بچھڑ کے مجھ سے‘‘

فرخ اظہار  بدھ 4 فروری 2015
تمہاری یادوں کا وہ نشہ ہے کہ اب سنبھلنا ہوا ہے مشکل ، میں واقعی ہوں اگر تمہارا تو گرتے گرتے مجھے سنبھالو۔ فوٹو سٹر اسٹاک

تمہاری یادوں کا وہ نشہ ہے کہ اب سنبھلنا ہوا ہے مشکل ، میں واقعی ہوں اگر تمہارا تو گرتے گرتے مجھے سنبھالو۔ فوٹو سٹر اسٹاک

وہ جا رہا ہے بچھڑ کے مجھ سے اداس تنہا اسے منا لو
جو میں نے روکا تو رو پڑے گا، اسے پکارو، اسے بلا لو

اسے بتا دو محبتوں میں یہ لمحے رہتے ہیں آتے جاتے
چراغ بجھنے لگے اگر تو وفا یہ کہتی ہے پھر جلا لو

ملال کیسا شکستگی کا، اسے تو ہونا ہی تھا کسی کا
اگر وہ ہو بھی گیا کسی کا تو ایسا ہونے پہ خاک ڈالو

یہی تقاضا بھی ہے وفا کا یہی روایت بھی ہے وفا کی
جو رو رہا ہو ہنساؤ اس کو، جو مر رہا ہو اسے بچا لو

چلو یہ قصہ تمام کر دو، نہ تم ہمارے نہ ہم تمہارے
کسی کو پڑتا ہی فرق کیا ہے خاموش رہ لو کہ غل مچالو

تمہاری یادوں کا وہ نشہ ہے کہ اب سنبھلنا ہوا ہے مشکل
میں واقعی ہوں اگر تمہارا تو گرتے گرتے مجھے سنبھالو

نہیں ضرورت مجھے کسی کی، کسی نے مجھ کو دیا ہی کیا ہے
جو چاہتے ہو یقین اس کا تو ہو کے تنہا خود آزما لو

یہ تم کو شاید نہ ہو گوارہ میں تم سے واقف ہوں جان میری
میں مر رہا ہوں تمہاری خاطر، تم اپنی خاطر مجھے بچا لو

یہ طے کیا ہے سِوا تمہارے میں اب کسی سے نہیں ملوں گا
لو ہاتھ تم سے ملا رہا ہوں تو تم بھی مجھ کو گلے لگا لو

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی  تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔