صیاد کے پنجوں میں ہے کشمیر ہمارا

محمد عثمان فاروق  جمعرات 5 فروری 2015
5 فروری کا دن ایک ایک پاکستانی میں کشمیر حاصل کرنے کا نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کردیتا ہے۔ بس اب بھارت سے عرض ہے کہ سازش کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جانب آجائیں۔ فوٹو: رائٹرز

5 فروری کا دن ایک ایک پاکستانی میں کشمیر حاصل کرنے کا نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کردیتا ہے۔ بس اب بھارت سے عرض ہے کہ سازش کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جانب آجائیں۔ فوٹو: رائٹرز

’’کشمیر کی ساڑھے سات سو میل سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ جتنے دریا یہاں سے نکلتے ہیں، پاکستان کی طرف انکا رخ ہے، یہاں جب ہوائیں چلتیں ہیں تو وہ راولپنڈی سے آتی ہیں، بارشیں برستی ہیں تو وہ ایک ساتھ برستی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی صورت الگ نہیں ہیں، یہ نہایت مضبوط رشتے ہیں۔ ان حقیقتوں کی بنیاد پر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جموں کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔‘‘

یہ الفاظ ایک سفید داڑھی والے بزرگ کشمیری کے تھے اور جب وہ اپنی لرزتی ہوتی آواز میں شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے یہ الفاظ بول رہا تھا میری آنکھوں کے پیمانے چھلک رہے تھے۔ جی ہاں یہ الفاظ عظیم کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے ہیں۔ میں لائن آف کنڑول سے چند میل دور کھڑا کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے قائداعظم محمد علی جناح کا چہرہ نمودار ہوتا ہے۔ جی ہاں وہی محمد علی جناح جنہوں نے ایک گولی چلائے بغیر پاکستان حاصل کیا لیکن کشمیر کی آزادی کے لیے بندوق والے جہاد کا حکم نامہ جاری کیا۔ میں کشمیر کے دریاوں میں تیرتی ہوئی ان گنت کشمیریوں کی لاشیں دیکھ رہا تھا۔ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عزت گنواتی لاتعداد کشمیری عورتوں کی چیخیں سن رہا تھا۔ میں بھارتی عقوبت خانوں میں بند برسوں سے قید کشمیری نوجوانوں کی آہیں سن رہا تھا جن کے گھر والوں کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے۔

آج ہر کوئی چیختا ہے ’’ہمیں جناح کا پاکستان چاہیئے‘‘، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا۔ ارے جس دن کشمیر پاکستان کا حصہ بن گیا جناح کا پاکستان خود بخود بن جائے گا۔ آج کچھ نام نہاد دانشورکہتے ہیں کہ کشمیر کا چونکہ بھارت سے الحاق ہوچکا ہے تواس لیے پاکستان کو کوئی حق نہیں کہ وہ کشمیرکے بارے میں بات کرے۔ میں کہتا ہوں ٹھیک ہے تو پھر بتاو حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور مناوا کی ریاستوں کا الحاق بھی تو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا لیکن ان پر بھارت نے یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ چونکہ وہاں ہندو اکثریت آبادی ہے اسلیے ان پر بھارت کا حق ہے لیکن کشمیر کا معاملہ آیا تو تمھارے اصول اور ضابطے الٹ ہوگئے۔ ایسا تو جنگل کے قانون میں بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ بلکہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہے تمھارا تو کوئی قانون، دین، دھرم، مذہب، اخلاقیات ہی نہیں ہے۔

تم الحاق کی بات کرتے ہو تو سنو 19 جولائی 1947 کو کشمیری عوام کے اصل نمائندوں یعنی ’’کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ نے ایک قرارداد پاس کرکے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا تھا۔ ارے ہندوستان والو کشمیر پر تم ہر طرف سے جھوٹے ہو ۔۔۔غاصب ہو اور پھر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پاکستان لے کر نہیں گیا تم لے کرگئے اور تم نے وعدہ کیا کہ تم کشمیریوں کو حق خود ارادیت دو گے کہ کشمیری کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن تم اپنے اس وعدے سے بھی مکر گئے۔

آج اگر برصغیر پر ایٹمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو اسکی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ آج  بھارت صرف مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بلوچستان میں دہشتگردوں کو ٹریننگ دے رہا ہے۔ لائن آف کنڑول پر جھڑپوں سے لے کر پاکستان کا پانی چوری کرنے تک ہر مسئلے کی جڑ مسئلہ کشمیر سے جاکر ملتی ہے۔ لیکن اسکے باوجود پاکستان میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوچکا ہے جس کی پوری کوشش ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالا دیا جائے۔ ایک بات ذہن نشین کرلی جائے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر دونوں ممالک میں امن ہوجائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔

پچھلے دس سال سے پاکستان میں ’’امن کی آشا‘‘ کے نام پر پاکستانی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہی کہ بھارت امن چاہتا ہے اور جب لائن آف کنڑول پر بھارتی جارحیت سے پاکستانی قوم کی آنکھیں کھلتیں ہیں تو پتا چلتا ہے بھارت تو دنیا میں اسلحہ خریدنے والا نمبر ایک ملک بن چکا ہے۔ ارے بھارت تو امن چاہتا تھا نا ۔۔۔؟ تو پھر اتنا اسلحہ کس کے لیے خریدا۔۔۔؟ پھر مجھے بھارتی سیاست کے گرو چانکیہ کا وہ قول یاد آتا ہے کہ

’’اگر تم اپنے دشمن کو لڑائی میں نہیں مار سکتے تو اسے اپنا دوست بناو۔ تب وہ تم سے بے خبر ہوجائے گا اور جب بے خبر ہوجائے تو اسکی پیٹھ میں خنجر گھونپ دو‘‘۔

اور اب تو سنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ بھارتی دورے کے موقع پر نئے ایٹمی معاہدے کی داغ بیل بھی ڈال دی گئی ہے جس کے تحت بھارت اپنے نیوکلیئرمیٹریل میں ’’ٹریکنگ ڈیوائس‘‘ لگانے کا پابند نہیں ہوگا۔ یعنی اگر اب بھارت ہہ ٹیکنالوجی کسی دوسرے ملک کو بیچ دے تو کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہوگا۔

آج 5 فروری ہے، اور پورے پاکستان میں یہ دن ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کردیتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحے تک کشمیر کو حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہے گی اِس لیے بھارت کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ پاکستان کو دباو میں لانے کے لیے جس قدر چاہیں سازشیں کرلیں، جتنی مرضی دہشتگرد گروہوں کی فنڈنگ کرلے لیکن پاکستان مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ آج نہیں تو کل کشمیر پاکستان کا حصہ بن کررہے گا۔ بہتر یہی ہے معاملہ بات چیت سے حل ہوجائے ورنہ بھارت اگر دنیا میں اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو پاکستان نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی ہیں۔

اپنی بات سید علی گیلانی کے ان الفاظ پہ اختتام کروں گا کہ

’’میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی یہ نہیں سنا کہ دہلی میں چاند دیکھنے کے بعد ہم نے عید منائی ہو یا روزہ رکھا ہوا۔ جب پاکستان سے چاند دیکھا جاتا ہے تو ہم روزہ بھی رکھتے ہیں اور عیدیں بھی مناتے ہیں ‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔