کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سلام

عبید اللہ عابد / غلام محی الدین  جمعرات 5 فروری 2015
بھارتی دانشور بھی اعتراف کررہے ہیں کہ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا۔ فوٹو: فائل

بھارتی دانشور بھی اعتراف کررہے ہیں کہ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا۔ فوٹو: فائل

یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکا پاکستان پر دباؤ ڈال رہاتھا کہ بھارت سے دوستی کی جائے، اور اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف بھارت کے ساتھ اعتماد سازی پر مبنی رویہ اختیار کئے ہوئے تھے۔

جنرل صاحب اعتماد سازی میں اس قدر آگے چلے گئے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری رہنما بھی سناٹے میں آگئے۔ بھارت نے اعتمادسازی کی پاکستانی کوششوں کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ایک طرف پاکستان سے بدظن کرنے کی کوشش کی، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب اپنے حق میں کرنے کی حکمت عملی کو تیز کرنا شروع کردیا۔ انہی دنوں بھارتی اور عالمی ذرائع ابلاغ نے کشمیریوں کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف جائزوں کا اہتمام کیا۔

تمام تر سروے ظاہر کررہے تھے کہ کشمیریوں کی عظیم اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے۔ مثلاً 5 نومبر2004ء کو بھارتی ہفت روزہ ’’آؤٹ لک‘‘ میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق78 فیصد کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ 12 اگست 2008ء کو ہندوستان ٹائمز، سی این این، آئی بی این اور این ڈی ٹی وی نے رائے عامہ کے جائزے کے جو نتائج شائع کیے، اْن کے مطابق 87 فیصد کشمیری آزادی کے لیے بے تاب ہیں۔ برطانوی ادارے چیٹم ہاؤس نے بھی ایک سروے کا اہتمام کیا جو ’’بی بی سی‘‘ نے 27 مئی،2010 ء کو شائع کیا تھا، اس سروے کے مطابق 90 سے95 فیصد کشمیری آزادی کی دولت چاہتے ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر پرقابض بھارتی حکومت نے رائے عامہ کے مذکورہ بالا جائزوں سے سبق حاصل کرنے اور کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لئے کوششیں تیز کردیں۔ حالانکہ بھارتی دانشور بھی اپنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کو کہہ رہے ہیں۔ معروف بھارتی ناول نگار اور تجزیہ نگار ارون دتی رائے ایک عرصہ سے کہہ رہی ہیں کہ بھارتی افواج کی طرف سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اْنھوں نے اْن عسکریت پسند جنگجوؤں کا خاتمہ کردیا ہے، جو 1990ء کے عشرے میں ’اچانک‘ سامنے آئے تھے۔

بھارتی عوام کو تقریباً قائل کر لیا گیا تھا کہ بھارتی افواج نے بندوق کی نوک پر ’امن‘ قائم کروا لیا ہے اور کشمیر میں معمول کی زندگی واپس لے آئے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان کافی شاپس، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی شوز کے ذریعے ’قومی ترقی‘ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر تھا کہ غیر جانبدار حلقے بھی یقین کر چلے تھے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔

ارون دتی رائے مین بوکر پرائز (1997ء ) اور سڈنی امن پرائز (2004ء ) حاصل کرچکی ہیں، کہتی ہیں ’’اچانک ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے مسلسل تین برسوں کے موسمِ گرما سے کشمیر کی گلی محلوں کی سطح پر ایک تحریک اْبھرتی ہے۔ اور پھر جو مناظر ہم کشمیر کے بازاروں کے چوراہوں میں دیکھتے ہیں، وہ مصر میں التحریر چوک کے مناظر سے بے حد مشابہ ہیں، یہ مناظر اب بھی بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ یہاں امن و سلامتی نافذ کرنے والے اداروں کے سورما نوجوانوں پر گولیاں برسا رہے ہیں اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے۔

سچ تو یہ ہے جدوجہدِ آزادی کشمیر سے وابستہ یہ تمام نوجوانوں کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ کافی مشکل راستہ ہے جو نوجوان کشمیری نسل نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط نوکرشاہی کے تمام پْرتشدد حربوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ یہ اْن کا عزم، استقلال اور صبر ہی ہے جس کی وجہ سے تمام تر جدیدترین اسرائیلی اور بھارتی اسلحہ رکھنے کے باوجود بھارتی افواج نہیں جانتیں کہ ان پتھر مارنے والوں سے کیسے نبٹا جائے، اور اس پْرامن مزاحمت کو کس طرح سرد کیا جائے؟‘‘

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا’’ اس عظیم بے بسی کے بعد، بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ یکطرفہ پروپیگنڈے پر مبنی شوروغل، ایک بڑے ڈیم (تالاب) کی طرح ہے لیکن اس اجارہ داری کو انٹرنیٹ (فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب) نے کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر روز نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا، کیونکہ کشمیریوں نے اپنے بارے میں خود لکھنا شروع کر دیا ہے۔

اس لیے اب ہمیں کشمیریوں کی کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہی، اور ویسے بھی ہم اْن کی اذیت ناک کہانیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی حیثیت سے بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہمیں کبھی، اْن کی طرح شناخت پریڈ میں بے عزت نہیں کیا گیا۔ ہمیں حقیقت جاننے کے لیے انسانی حقوق کی رپورٹس، اخبارات میں بیان کردہ ٹارچر سیلوں (عقوبت خانوں) کے احوال، جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر گرفتاریوں کی تفصیلات کے مطالعے سے صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا پڑتی ہے لیکن ہم اْن جیسا محسوس تو نہیں کرسکتے۔

میں ابھی تک اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ آپ کے محسوسات کیا ہوں گے اگر کسی چیک پوسٹ پر آپ کو روکا جائے اور آپ کے سامنے آپ کے بوڑھے ماں باپ کو تھپڑ رسید کیے جائیں یا پھر آپ کے شوہرکو بے عزت کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات تو قید میں ہوتے ہیں۔ مجھے تو کشمیر بھی دنیاکا سب سے بڑا جیل خانہ ہی لگتا ہے۔

کشمیری اگر اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کی یادداشتیں لکھیں تو پھر یہ ایک قیدی کی یادداشتوں جیسی ہوں گی۔ بھارتی فوج صرف زبانی بے عزتی پر اکتفا ہی نہیں کرتی۔ میں نے اکثر اس طرح کے الفاظ اْن کے منہ سے سنے ہیں: یہ لڑکا اس لیے مارا گیا کیونکہ ہم نے اسے رْکنے کے لیے کہا لیکن وہ نہیں رْکا‘‘۔ ہرقسم کے تاثر اور ہمدردی سے خالی الفاظ… بس یہی اْس 15یا16سال کے کشمیری نوجوان کی زندگی کی قیمت ہے!‘‘

’’بھارت نوآبادیاتی استعماری ریاست کی طرح کام کر رہا ہے۔ آزادی سے قبل بھارتی شہریوں کو عراق اور دنیا کے دیگر حصوں میں تاج برطانیہ کے جھنڈے کے ’تحفظ‘ کی خاطر بھیجا جاتا تھا۔ اس لیے گمنام بھارتیوں کی قبریں پوری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں جو کہ استعمار کی خاطر جیتے اور مرتے تھے۔ خود 1857ء میں بھارت میں جنگِ آزادی کو بعض لوگ بغاوت کہتے ہیں اور بعض آزادی کی جدوجہد کہتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعینہٖ یہی کچھ یہاں ہوا ہے۔ برطانیہ کے برعظیم پاک و ہند میں فوجی بہت زیادہ نہیں تھے لیکن 1857ء میں سکھوں نے برطانیہ کی طرف سے دہلی کے قریب لڑائی لڑی تھی۔

یہی کچھ بھارت اب خود کر رہا ہے۔ اْس نے ناگالینڈ کے غریب عیسائیوں کو چھتیس گڑھ لڑنے کے لیے بھیجا اور چھتیس گڑھ والوں کو کشمیر بھیجا اور کشمیریوں کو اڑیسہ تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ آج کل اخبارات، اور ٹی وی پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے بے عزتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کشمیریوں نے خاموشی سے زرتلافی (compensation) قبول کرلیاہے۔

گویا پہلے فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، اور پھر جرمانے کے طور پر اْن کے قریبی رشتہ داروں کو معمولی معاوضوں پر شورش زدہ علاقوں میں بھیج کر اپنے ’قومی مفادات‘ پورے کرے۔ یہ دوہرا ظلم ہے۔ یوں لگتا ہے سرکاری منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہرسطح اور ہرقیمت پر زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو بے عزت کیا جائے، یعنی محض جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر اذیت پہنچا کر بھی‘‘۔

بھارت دعویٰ کرتاہے کہ وہ ایک فعال جمہوریت ہے تاہم اردون دتی رائے کشمیریوں سے ہونے والے سلوک کو یوں بتاتی ہیں: ’’ یہاں (کشمیر میں) زیادہ بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑا اور بغیر ٹھوس ثبوت کے جیل میں ڈالا جا رہا ہے، فیس بک کو بند کر دیا گیا ہے، پولیس موجود ہے جو لوگوں کو خوفزدہ کر رہی ہے، املاک کو جلا رہی ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر گھروں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ایسی جگہیں جہاں کڑاکے کی سردی پڑتی ہے وہاں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

کشمیری زیادہ بدتر صورت حال کو بھگت رہے ہیں۔ جب متحرک جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر میں متحرک فوجی قبضہ ضرور نظر آتا ہے۔ بھارت میں متحرک جمہوریت ہمیں دہلی، کیلاش یا گرین پارک میں تو نظر آتی ہے لیکن ڈانڈئی والا، منی پور، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ اور کشمیر میں ہرگز موجود نہیں ہے۔ مَیں بھارتی وزیراعظم سے ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔

اگر چھتیس گڑھ کے دیہاتی، یا عام کشمیری کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور یہاں ناانصافی سے مراد یہ ہے کہ اْس کے خاندان کے چند افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، یا جان و مال کی سلامتی کا تحفظ کرنے والے ادارے اْس کی بیٹی یا بہن یا بہو کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں، تو آخر اس متحرک جمہوریت میں ایساکون سا غیر جانبدار ادارہ ہے جہاں وہ جاکر حصولِ انصاف کے لیے درخواست دائر کرسکے اور انصاف حاصل کرسکے؟ ہے کوئی؟ یقینا کوئی نہیں، چنانچہ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے‘‘۔

ارون دتی رائے کہتی ہیں ’’بھارتیوں کے کشمیری موقف میں دراڑیں پڑچکی ہیں اور یہ دراڑیں کشمیریوں کی پْرامن، بغیر اسلحے کے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اور زیادہ گہری اور وسیع ہوتی جائیں گی۔ عام پڑھے لکھے بھارتی اب کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ کہہ کر بہلا نہیں سکتے کہ یہ جنگجو ہیں، دیکھو یہ اسلامسٹ ہیں اور یہ طالبان ہیں؟

بھارت میں اٹوٹ انگ والا طے شدہ موقف دم توڑ رہا ہے۔ اس لیے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، کشمیر اور کسی حد تک منی پور میں بھارت نواز سرکاری حکومت اس امر سے باخبر ہے کہ بھارتی عوام کے کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق رائے کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس میں گہری دراڑ پڑچکی ہے‘‘۔

وہ کہتی ہیں ’’ اْمیدمجھے صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ اب احتجاج بڑھ چکا ہے۔ ریاست کا ظلم ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ہزاروں مزاحمت کار جیلوں میں ہیں لیکن اْن کے جذبے اور تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ آخر دنیا میں کسی اور جگہ یہ کب ہوا ہے کہ دنیا کے امیر ترین کارپوریٹ اداروں نے ریاست کے ساتھ مل کر عوام کو دبانے کی کوشش کی ہو لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہے ہوں اور تمام تر مزاحمتی گروہ آپس کے اختلافات اور اختلاف رائے کے باوجود، ان طاقتوروں کو روکنے میں کامیاب رہے ہوں۔ یقیناًیہ اْن کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس لیے ہمیں مزاحمت کاروں کو سلام پیش کرنا چاہیے‘‘۔

بات صرف بھارتی دانشوروں تک محدود نہیں رہی، دنیا کے دیگرحصوں سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں، مثلاًامریکی صحافی ڈیوڈ بریسمین نے کشمیرکا دورہ کیا اور تسلیم کیا:’’ مقبوضہ کشمیر، فوجی کیمپوں، تفتیشی مراکز، جیلوں، مورچوں اور بنکرز سے اَٹا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے۔

کشمیر میں ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ پچھلے کئی برسوں سے اعلیٰ سطح کے اسرائیلی فوجی (بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہان) کشمیر کا دورہ کرتے آرہے ہیں‘‘۔ معروف آسٹریلوی تجزیہ نگار مصنف ڈاکٹر کرسٹوفرسنیڈن کہتے ہیں’’فیصلہ جموں وکشمیر کے عوام ہی کا چلے گا۔ چنانچہ انہیں فیصلہ کرنے دینا چاہئے‘‘۔

اگرچہ امریکی صدراوباما نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران کشمیر کا ذکر شاید اس لئے نہیں کیا کہ بھارتی حکمرانوں کی پیشانی پر بل نہ آجائیں تاہم وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کشمیر کے حل کی باتیں بڑھ چڑھ کر کیاکرتے تھے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو دنیا کاسب سے خطرناک علاقہ قرار دے کر اس مسئلہ کی سنگینی ظاہر کی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ یہ تنازعہ پاک بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتاہے۔

امریکی حکام ایک طرف مسئلہ کشمیر کو سنگین بتارہے ہیں تو دوسری طرف اس پر ایک عادلانہ موقف اختیار کرنے اور مخلصانہ کوششیں کرنے کے بجائے وہ قابض بھارت کی نازبرداری میں مصروف رہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف مکمل طور پر فطری ہے کہ کشمیریوں سے پوچھ لیاجائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بھارت کشمیری رائے عامہ کے جائزوں سے آگاہ ہے لیکن پھربھی وہ اپنا قبضہ برقراررکھنے پر بضد ہے۔

اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے ہی قراردے چکی ہے لیکن وہ اپنے حل کو نافذ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد کشمیری حریت پسندوں نے بھارت کو پرامن انداز میں استصواب رائے کی طرف سفر کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا تھا، بھارت اس سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں دکھا سکا۔ یہ اس کی بدقسمتی ہے۔ اس کا خمیازہ آنے والے وقت میں اسے بھگتنا پڑے گا، جب کشمیری تحریک مزید زور پکڑے گی۔

27 برسوں کی خونیں داستان

ایک برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بزرگ کشمیری ہندو نے کہا ’’کشمیری قتل کئے جا رہے ہیں، میں نے ایک لڑکی کی لاش دیکھی جس کے جسم پر سگریٹ کے نشان تھے۔ایک دوسرے آدمی کی آنکھیں نکالی گئی تھیں اور اس کی لاش درخت پر لٹک رہی تھی‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ کشمیریوں کو طویل عرصہ تک بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا جاتا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری 1989ء سے31دسمبر2014ء تک مجموعی طور پر 94,140 کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔

ان میں سے 7,026 کوزیرحراست شہید کر دیا گیا۔ ان کا ’’جرم‘‘محض یہ تھا کہ وہ حق خودارادیت کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس عرصہ میں ایک لاکھ 27 ہزار 939 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایک لاکھ چھ ہزار 23 مکانوں، دکانوں اور دیگراملاک کو نذرآتش کیا گیا۔ 22ہزار791خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ سات ہزار509 بچے یتیم ہوئے جبکہ 10ہزار 129 خواتین اور لڑکیوں کو بھارتی فوجیوں نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔

اگرصرف دسمبر2014ء کاجائزہ لیا جائے تو اس دوران 18 کشمیریوں کو شہید کیا گیا، 44 کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 810 افراد کو بھارتی فوج نے حراست میں لیا اور 18بچے یتیم ہوئے۔ اسی طرح جنوری 2015ء میں مجموعی طور پر 18 کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں 50سے 52 فیصد یتیم بچے مختلف نفسیاتی امراض کا شکارہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق وہ سخت اور ناموزوں حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان کی عمریں 6 سے 18 سال تک ہیں۔

ہماری کشمیر پالیسی نے ہمیشہ بھارت کو فائدہ پہنچایا

اب جبکہ یہ بات کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں رہی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے تناسب کو بتدریج کم کرنے کے منصوبوں پر کُھلم کُھلا عملدرآمد پر کمرکس لی ہے تو کیا یہ لازم نہیں ہوگیا کہ ہم کشمیر کے معاملے پر اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کرتے ہوئے ان تمام وعدوں کی پاسداری کی طرف لوٹ جائیں جو ہم نے کشمیر کے عوام اور بین الاقوامی برادری سے کررکھے ہیں۔ بدقسمتی سے کشمیر پر ہماری پالیسیوں نے ہمیں یا کشمیری عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا بھارت کو فائدہ پہنچایا ہے۔

12 اگست 1944ء کو کشمیر کے وزیراعظم نے بھارت اور پاکستان کی ریاستوں کو ایک ہی متن پر مبنی تار (ٹیلی گرام) ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ (تجارت، مواصلات اور رسل و وسائل) تمام معاملات جو برطانوی ہند کے دور سے جس طرح انجام دیئے جارہے تھے انہیں جوں کا توں چلنے دیا جائے۔

اس تار کے جواب میں پاکستان نے کشمیر کی حکومت کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے جوابی تار ارسال کردیا جبکہ بھارت نے اس درخواست کے جواب میں حکومت کشمیر کو لکھا کہ اپنی متعلقہ وزارت کے ذمہ داران کو دہلی بھیجا جائے تاکہ Stand Still معاہدے کی تفصیلات طے کی جاسکیں۔ بھارتی حکومت کی اس تار کا نہ تو کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی کوئی وفد کشمیر سے دہلی گیا۔ یہیں سے بھارت کی بدنیتی عیاں ہوگئی تھی کہ ایک انتہائی سادہ سی بات پر بھی وہ مذاکرات کرنا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کے برعکس کشمیر کے ساتھ کوئی خصوصی انتظام قائم کرنے کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔

ادھر سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے بعد پاکستان کی یہ ذمہ داری تھی کہ کشمیر کی حیثیت کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا تاکہ بھارت پر مقبوضہ کشمیر پر اپنے تسلط کو دوام دینے کے خلاف دباؤ برقرار رہتا۔ آزاد کشمیر میں معمول کی کوئی حکومت قائم کرنے کے بجائے وہاں پر جدوجہد آزادی کی قیادت کے لیے مقامی سرکردہ افراد کی ہنگامی کونسل کا قیام کافی تھا۔ روزمرہ کے معاملات چلانے کے لیے مقامی حکومتیں ہوتیں جو عوامی مسائل کے حل کے لیے سرگرم عمل رہتیں۔ پھر گلگت، بلتستان کو آزاد کشمیر سے الگ انتظامی اکائی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسا کوئی بھی اقدام صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوسکتا ہے جب مسئلہ کشمیر کا تصفیہ ہوجائے۔

اگر معاملات کو اس طرح سے چلایا جاتا تو یقینا دنیا بھی کشمیر پر ہمارے مؤقف کی حمایت میں آسانی محسوس کرتی۔ ہم نے تو اُلٹا بھارت کے لیے اس بات کا جواز پیدا کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر جانے کے اپنے منصوبے کو آسانی سے عملی جامہ پہناسکے۔ آزادی کے دن سے لے کر آج تک رفتہ رفتہ کشمیر کے معاملے پر ہماری گرفت کمزور سے کمزور تر ہوتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ صدر مشرف کے دور میں لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت دے کر اس لکیر کی علامتی حیثیت کو بھارت کے حق میں بدرجہہ بہتر بنا دیا گیا۔ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے ان منصوبوں پر کُھل کر علمدرآمد کی بات ہورہی ہے جس پر کانگریس اور دیگر بھارتی سیاسی قوتیں درپردہ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

الیکشن سے قبل بی جے پی بار بار اس بات کا اعلان کرتی رہی کہ وہ برسراقتدار آکر بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردے گی جو کشمیر کو ملک کے دیگر حصوں سے الگ شناخت عطا کرتی ہے۔

بی جے پی نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کو وادی میں دوبارہ آباد کیاجائے گا۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے ہندو مہاجرین کی آباد کاری کے اقدامات کا تذکرہ بھی شدومد سے کیا جاتا رہا ہے۔

بھارت کشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو اپنے حق میں بہتر بنانے کے اس عمل کو ایک بے ضرر سی اصطلاح کے لبادے میں چھپا کر استعمال کرتی ہے جسے Rigional Balance (علاقائی توازن) کا نام دیا گیا ہے۔ اوپر بیان کیے گئے اقدامات کی بابت جب مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی بے جے پی کی قیادت کے دوسری بڑی جماعت پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت کے لیے مذاکرات ہوئے تو ان میں بھی یہی اصطلاح استعمال کی گئی۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقوں میں آبادی کا تناسب کچھ اس طرح سے ہے۔

وادیٔ کشمیر کی کل آبادی 40 لاکھ سے زائد ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب 95 فیصد جبکہ ہندو 4 فیصد ہیں۔ جموں کے علاقے میں 30 لاکھ سے زائد لوگ آباد ہیں، مسلمان 30 فیصد، ہندو 66 فیصد جبکہ دیگر کا تناسب 4 فیصد ہے۔ لداخ کے علاقے میں آبادی ڈھائی لاکھ سے زائد ہے، 46 فیصد مسلمان، 50 فیصد بدھ مت سے تعلق رکھنے والے جبکہ 3 فیصد دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔

آزاد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات۔ آزاد کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب 100 فیصد جبکہ شمالی علاقوں میں 99 فیصد مسلمان آباد ہیں۔

پاکستان کی جانب سے دانستہ یا نادانستہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کو سہولت فراہم کرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے اندر بھارت مخالف جذبات کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتے رہے ہیں، چند برس پہلے برطانیہ سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں ایک تحقیقی کتاب شائع ہوئی جس کے مصنف سویڈن کی اپسالہ یونیورسٹی (Uppsala University) کے شعبہ ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر سٹن وڈمالم ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں کشمیر میں جاری جدوجہد کا بھارت کی دیگر شورش زدہ ریاستوں سے موازنہ کیا ہے اور اسے ہر لحاظ سے ایک الگ اور مختلف جدوجہد ثابت کیا ہے۔

مثال کے طور پر وڈمالم کے مطابق کسی شورش زدہ بھارتی ریاست میں بنیادی طور پر تین قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ یعنی جو علیحدگی پسند نہیں ہیں، دوسرے وہ جو علیحدگی پسند ہیں اور تیسرے نمبر پر وہ جو علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں مصروف عمل ہیں۔ بھارت کی تین ریاستوں کا تقابل کرتے ہوئے مصنف نے ثابت کیا ہے کہ مغربی بنگال میں لوگوں کی پہلی قسم یعنی جو علیحدگی کے حق میں نہیں صرف وہی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار رکھے ہوئے ہے، باقی دونوں گروپ ریاست سے کٹ چکے ہیں۔

تامل ناڈو میں صورت حال نسبتاً بہتر ہے یعنی پہلے دونوں گروپ ریاست کے قریب آئے ہیں اور مسلح جدوجہد کرنے والا گروپ ریاست سے کٹا ہوا ہے جبکہ کشمیر میں تینوں قسم کے لوگ ریاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھتے اور یوں عملاً مقبوضہ کشمیر بھارتی ریاست کے معمول کے دائرہ اثر سے باہر ہوچکا ہے۔

اس کتاب میں وڈمالم کا ایک اور تجزیہ انتہائی دلچسپ اور قابل غور ہے۔ انہوں نے 1977ء سے لے کر 1989ء تک کے عرصہ کو چار ادوار میں تقسیم کرکے تین بنیادی معاملوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ یعنی کشمیر میں ادارہ جاتی استحکام، سیکولر سیاست کی مقبولیت اور بھارت کے دوسرے علاقوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے اندر جمہوری مسابقت کے رجحان کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس تجزیئے کے مطابق 1977ء میں ان تینوں سوالوں کا جواب ہاں میں ہے۔ یعنی مقبوضہ کشمیر میں ادارہ جاتی استحکام بھی تھا، سیکولر سیاست کی حمایت بھی موجود تھی جبکہ کشمیر کے عوام جمہوری مسابقت میں دلچسپی لیتے تھے۔

1983ء میں یہ ہوا کہ ادارہ جاتی استحکام ناپید ہوگیا جبکہ باقی دو صفات موجود رہیں۔ اگلے چار برسوں کے دوران یعنی 1987ء میں مقبوضہ علاقے میں سیکولر سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ صرف جمہوری مسابقت کسی نہ کسی حد تک موجود تھی اور اگلے دو برسوں میں اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس تجزیئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان تمام رویوں کا قریب قریب خاتمہ ہوچکا ہے جو بھارت کے ساتھ عوامی سطح پر رضاکارانہ تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھے۔

ہمارے لئے اس صورتحال پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانے سے بات نہیں بنے گی۔ ہمیں آزاد کشمیر کو اپنی اندرونی سیاست اور سیاسی جماعتوں سے فوری طور پر پاک کردینا چاہیے۔ بھارت کو کوئی ایسی وجہ فراہم نہیں کرنی چاہیے جس کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔