یہاں سے شہر کو دیکھو!

رئیس فاطمہ  بدھ 4 فروری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

دلی شہر کے اجڑنے کے بعد جب میر تقی میر لکھنو پہنچے اورایک محفل مشاعرہ میں شمع ان کے سامنے آئی، تو اہل لکھنو میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ یہ کون حضرت ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ میر صاحب نے ڈبڈبائی آنکھوں سے محفل کو دیکھا اور یہ قطعہ پڑھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔

کیا بود و باش پوچھو ہو‘ پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا ‘ عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں‘ اسی اجڑے دیار کے

اس قطعے کے پڑھتے ہی عقیدت مندوں نے میر صاحب کے ہاتھ چوم لیے اور انھیں وہی عزت دی جو ان کا حق تھی۔

دلی کو تو بیرونی حملہ آوروں نے لوٹ کے ویران کردیا تھا، نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیروں نے لال قلعہ، آگرہ فورٹ اور دیگر مقامات کی عمارتوں میں جڑے قیمتی ہیرے جواہرات تک نکال لیے۔

کسی نے بتوں کو توڑنے کی آڑ میں سومنات کے اندر جمع کیے ہوئے زر و جواہر اکٹھا کیے اور اپنے وطن لے گئے کہ یہ سب ایک طرح سے پنڈاری تھے۔ لیکن دلی کی قسمت شاید اس لیے اچھی تھی کہ اس کی مٹی میں بائیس صوفیائے کرام محو خواب ہیں، اس لیے آج بھی دلی ہندوستان کی راجدھانی ہی نہیں بلکہ دل ہے۔ جس کی حفاظت ہر حکومت کرتی ہے۔

ایک ایسا ہی شہر پاکستان میں بھی ہے جو کبھی شہر بے مثال کہلایا کرتا تھا، اسی شہر کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا، لیکن آج اس شہر کی پہچان،اندھیرے،کچرا کنڈیاں، اغوا، بھتہ مافیا ہے۔ آپ نے اکثر گھروں میں دیکھا ہوگا کہ سب سے بڑے کمرے کو مہمان خانہ یعنی ڈرائنگ روم بنا دیا جاتا ہے اورگھر کا سربراہ تمام قیمتی اشیا اورسازوسامان سے اسے سجاتا ہے، لیکن گھرکے دوسرے کمروں پہ زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں گندگی کے ساتھ ساتھ کاکروچ بھی نمودار ہوجاتے ہیں۔

باورچی خانہ سے وابستہ لوگ گھر کے سربراہ کی توجہ بار بار صفائی کی طرف دلاتے ہیں، لیکن وہ اسے اہمیت نہیں دیتے کہ جب کھانا پک رہا ہے اور تمام کمروں کے مکینوں کو مل رہا ہے تو ان کی بلا سے۔ چوہے پیدا ہوں یا مچھر مکھیاں۔ جس باورچی خانے سے 70 فیصد اخراجات بھی پورے ہو رہے ہیں، اس سے بے رخی اور عدم دلچسپی کی ایسی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ دراصل یہ بدنصیب شہر اختیارات کے ٹکراؤ، اور سیاست کی نذر ہوگیا ’’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘‘ والا محاورہ اسی شہر پہ صادق آتا ہے۔ ایک گروہ کو اس شہر سے ووٹ نہ ملنے کا غم ہے تو دوسرے کو ووٹ تو مل جاتے ہیں۔

نشستیں بھی مل جاتی ہیں۔ لیکن اختیارات اور فنڈز نہیں ملتے۔ ’’مرے پہ سو درّے‘‘ یہ کہ رقابت، حسد اور جلن میں بلدیاتی سسٹم ختم کردیا گیا، بلدیاتی انتخابات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، ہر طرف ابلتے گٹر، مکھیاں، مچھر،کوڑے کے ڈھیر، غیر قانونی ہائیڈرنٹس، بجلی اور گیس کے بل وقت مقررہ پہ دینے والے دونوں سے محروم، پانی پہ حکمرانوں کی مرضی سے ٹینکر مافیا کا راج، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، دھواں، آلودگی، نفرت اور طاقت کا استعمال۔ میری آنکھیں اس بدنصیب اور لاوارث شہر کا مستقبل کچھ یوں دیکھ رہی ہیں کہ ایک دن آئے گا جب یہاں کے دانش ور، اساتذہ، صحافی، ادیب اور شاعر صورت حال سے مکمل مایوس ہوجانے کے بعد جب کسی اور طرف نکل جائیں گے اور کہیں قیام کریں گے تو وہاں کے لوگ پوچھیں گے ’’کون دیس سے آئے ہو‘‘ جواب میں وہ میر صاحب کی طرح کا کوئی قطعہ پڑھے گا یا بتائے گا کہ ’’بھائی ہم پردیسی نہیں ہیں۔

وہاں سے آئے ہیں جہاں سے تمہیں بھی روزگار ملتا تھا اور تمہارے کچن کا خرچہ نکلتا تھا۔ اس شہر بے مثال کو لٹیروں نے لوٹ کے ویران کردیا، خود اپنے گاؤں گوٹھوں اور دیہاتوں کو آباد کرلیا اور شہر کو کھنڈر بنادیا۔‘‘ تب سننے والا حیرت سے کہے گا ’’اچھا اچھا۔ بھائی تمہاری مراد اس شہر سے تو نہیں ہے جہاں وہ مرد نیک دفن ہے جس نے آزادی دلائی تھی۔ اور جہاں میرے ابا اور تایا روشنیاں دیکھنے جاتے تھے۔ ہائے افسوس۔ اب تو وہاں سیاح کھنڈرات دیکھنے آتے ہیں۔ کہتے ہیں اب پاکستان میں دو موئن جو ڈارو ہیں‘‘ … ’’ہاں میرے بھائی وہی۔ جو محبتوں کی وادی تھا، لیکن اب صرف اجاڑ، بدبودار، ٹوٹی سڑکوں اور گڑھوں کا مسکن۔‘‘

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اس شہر بے مثال میں بھی تو صوفیائے کرام محو خواب ہیں، ایک طرف عبداللہ شاہ غازی، تو دوسری طرف یوسف شاہ بخاری، حضرت نور علی شاہ، حضرت سخی سلطان منگھو پیر،سید عالم بخاری، سمندری بابا،حضرت سخی حسن اور قلندر بابا اولیاء وغیرہ۔ پھر بھی یہ شہر اپنے عذابوں سے نجات کیوں نہیں پاتا؟ کسی کو بھی اس پہ رحم نہیں آتا۔ مگر کیوں؟
اس شہر پہ اگر کسی کو رحم آیا تھا تو فیض احمد فیض کو۔ کہ وہ محبتوں کے سفیر اور منافقت سے عاری تھے:

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل‘ نہ منزل نہ مخلصی کی سبیل
جو رنگ ہر در و دیوار پہ پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
اس شہر بے مثال کہ اب جس کا ماتم بپا ہے۔ فیض نے اسے یوں بھی یاد کیا:
زنداں زنداں شورِ انالحق‘ محفل محفل قلقلِ مے
خون تمنا دریا دریا‘ دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رُت پھولوں کی‘ آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے‘ ماتم شہر بہ شہر

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے؟ مگر کیا؟ ایک اور موئن جو دڑو یا…؟ اب تو مرثیہ نگار بھی نہ رہے۔ صرف قصیدہ نگاروں کا دور ہے۔کون ہے جو کسی صاحب تمکنت کو بتائے کہ یہ شہر اپنی صلیبیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکا ہے۔ جب صلیبیں ٹوٹ جاتی ہیں تو قبرستان آباد ہونے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔