اور اب ہماری باری ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 4 فروری 2015
barq@email.com

[email protected]

شکر ہے نقار خانے کے بڑے بڑے نقاروں کی دھما دھم تھوڑی سی مدہم ہو گئی ہے اب اس بے چاری طوطی کو بھی کچھ ٹیاؤں ٹیاؤں کرنے کا موقع مل جائے گا، پہلے وہاں بمقام دلی ایک دھماکا ہوا بلکہ یوں کہیے کہ مودی نامی مداری نے اوباما نامی توپ چلائی پھر یہاں سے جو نامی گرامی توپیں چل پڑیں تو چاروں طرف دھواں ہی دھواں اور ڈزا ڈز پھیل گیا، دراصل ہم اس لیے بھی قطار میں سب سے پیچھے کھڑے ہو گئے کہ طوطا کیا اور طوطے کی بساط بلکہ آواز کیا۔

پہلے ان نقاروں کو بجنے دو جن کی آواز سننے کے لیے اوباما اور مودی کان لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ان بزرجمہروں، سقراطوں اور بقراطوں کی طرف سے ’’فرمودات‘‘ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تاکہ ہم جلدی سے جلدی پڑھ ڈالیں اور حرز جان بنا کر دل و جہاں سے ان زرین مشوروں سے اپنی رہنمائی حاصل کر لیں، نہایت وثوق دار ذرایع سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ’’اوبامے‘‘ اور ’’مودے‘‘ جیسے لوگ رات کو سونے کے ’’بعد‘‘ اور صبح کو بیدار ہونے سے ’’پہلے‘‘ کا وقت صرف پاکستانی اخبارات اور ان میں لکھے گیے کالمات کے لیے وقف کیے ہوتے ہیں بلکہ ہمیں تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ اوباما نے ایک دن اپنی خاتون اول کو بری طرح اس بات پر ڈانٹا بھی تھا کہ وہ اس استغراق میں مخل ہوئی تھی۔

جس میں وہ ایک پاکستانی اخبار کا خالص پاکستانی کالم پڑھ رہا تھا، ہوا یوں کہ اوباما وائٹ ہاوس کے لان میں بیٹھ کر اخبار بینی میں مشغول تھا اتنے میں وائٹ ہاؤس کی بلیک فسٹ لیڈی مشل اوباما اندر سے برآمد ہو کر اور میک اپ سے لیس ہو کر اس سے پوچھنے لگی کہ میں کیسی لگتی ہوں، دراصل وہ بھارت سے مودی کی دی ہوئی کالی ساڑھی پہننے اور ابٹن لگائے ہوئے تھی، اوباما کو سخت غصہ آیا کالم میں سے نظریں ہٹائے بغیر اس نے وائٹ ہاؤس کی بلیک لیڈی کو سخت کہنا شروع کیا یہاں تک کہ بولا میں کوئی حافظ شیراز ہوں جو تمہاری ’’ہندی‘‘ بیوٹی پر سمر قند و بخارا بخش دوں، لیکن اس پر جب مشل ناراض ہو کر ٹسوے بہانے لگی تو بے چارے اوباما کے ہاتھوں کے سارے پاکستانی اخبار اڑ گئے اور اسے مناتے ہوئے منمنانے لگا کہ

اگر ایں بلیک امریکی بدست آرد دل مارا
نہ ’’حسن ہندوش‘‘ بخشم سمرقند و بخارا را

جانتا ہوں کہ اس کی جیب سے کیا جاتا ہے، سمر قند و بخارا دینے پر، ویسے بھی امریکی ہونے کے ناطے دوسروں کو دوسروں کی چیزیں بخشنے کا عادی تھا، ممکن ہے آپ یہاں یہ سوال اٹھائیں کہ اوباما اردو اور فارسی کیسے جانتا ہے تو اس کی اپنی ایک الگ کہانی ہے جو آپ ناراض ہوں یا نہ ہوں ہم سنائے بغیر تو رہیں گے نہیں، اس لیے خوشی خوشی سن ہی لیں تو اچھا ہے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب اوباما نے پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس کو بلیک کیا تھا اسے کسی نے بتایا کہ ادھر مشرق میں ایک پاکستان نام کا ملک ہے جہاں کے اخبارات پر بڑے زبردست پھل لگتے ہیں۔

جنھیں کالم پھل کہا جاتا ہے چونکہ اس ملک میں باتوں کی صنعت انتہائی عروج پر ہے بلکہ وہاں صرف باتیں ہی پیدا ہوتی ہیں اور باتوں کے سوا اور کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا اور اس فن یا صنعت میں وہ اتنے ماہر ہیں کہ کھیتوں میں کھلیانوں میں، شہروں میں بازاروں میں، گلیوں میں گلیاروں میں، بالکونیوں چوباروں میں اور ٹی وی میں اخباروں میں صرف باتیں ہی باتیں اگائی جاتی ہیں پھر ان باتوں کو چھانٹ چھانٹ کر پیک کر کے دساور کو بھیجا جاتا ہے خاص طور پر امریکا کو تو سب سے زیادہ اور سب سے چھانٹا ہوا مال بھیجتے ہیں جن میں امریکی حکومت زرین مشورے، سمین نصیحتیں اور گوہریں جوہریں صلاحیتیں سب کچھ ہوتا ہے۔

اوباما اس بات پر پہلے تو چونکا پھر ہونکا اور پھر اس نے اپنے سیکریٹری کے کان میں یہ پھونکا کہ فوراً پاکستان سے ایک دو ٹیوٹر ایسے منگوائے جائیں جو اسے اردو سکھا سکیں، ظاہر ہے کہ اس میں دیر ہی کتنی لگتی، پاکستان میں ایسے ماہرین پائے جاتے ہیں جو ایک ہفتے میں انگریزی تو کیا ہر زبان سکھاتے ہیں اس طرح اوباما نے اردو سیکھ کر پاکستانی اخباروں، کالموں کو پڑھنا اور ٹاک شوز کو دیکھنا اور عبرت پکڑنا شروع کیا تاکہ پاکستانی دانش سے براہ راست کسب فیض کرے، فارسی اسے پہلے ہی سے آتی تھی اور اس نے یہ فارسی کہاوت پڑھی ہوئی تھی کہ ’’آب چاہ برسر چاہ‘‘ یعنی کنویں کا پانی کنویں کے پاس ہی پینے میں مزہ آتا ہے اور ترکی کو ہٹانے کے لیے ترکی کا جاننا ضروری ہے۔

اب ان باوثوق اور ثقہ دار کہانیوں پر ایک پاکستانی ہو کر ہمیں یقین کرنا ہی پڑے گا اور کرنا اس لیے بھی پڑھے گا کہ ہم بھی ’’ماڑے مٹھے‘‘ کالم نگار ہیں، ہو سکتا ہے کہ کبھی ہمارے کالم یا ہمارے کسی ’’منشور‘‘ کو بھی یہ سعادت حاصل ہو جائے، چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آج کل ہمارے کالموں میں بھی ایکسپورٹ کوالٹی کے مشورے کچھ زیادہ ہونے لگے ہیں خاص طور پر امریکا اور بھارت کو تو ہم ایسے ایسے مشورے دیتے ہیں کہ وہ پھڑک پھڑک جاتے ہوں گے البتہ چونکہ ہم پر منیر نیازی کا سایہ ہے اس لیے اکثر دیر کر دیتے ہیں جب تک ہم کوئی لکڑی لاٹھی ڈھونڈتے ہیں سانپ نکل چکا ہوتا ہے لیکن ہم لکیر پیٹنا تو نہیں چھوڑ سکتے آخر جب لکڑی لاٹھی ہاتھ لگی ہی ہے تو اس سے کام لینا تو ضروری ہوتا ہے چاہے وہ سانپ کی لکیر ہی کیوں نہ ہو، سانپ مرے نہ مرے اپنی بھڑاس تو نکل جائے گی۔

جس طرح چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کے بارے میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ چار خونخوار قسم کے سالوں کی وجہ سے وہ بیوی کو تو کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن جب وہ گھر میں نہیں ہوتی تو اس کی قیمض اتار کر زمین پر بچھا دیتا ہے اور لاٹھی لے کر اس پر پل پڑتا ہے اس طرح بے چارا خود کو کچھ نہ کچھ افاقہ محسوس کر ہی لیتا ہے، چنانچہ اب کے یہ جو بھارت میں اوباما اور مودی نے کھچڑی پکائی ہے اور اس پر ہمارے اخباروں کالموں اور ٹاک شوز میں ’’بتنگڑوں‘‘ کا میلہ لگا ہوا تھا ہم بھی ذرا اس کے تھمنے کا انتظار کر کے اپنی پٹاری کھولنا چاہتے تھے، سو اب کہیں جا کر وہ موقع آگیا ہے، نقاروں کے شور میں سے تھوڑی سی کمی نظر آرہی ہے سو ہم بھی اپنی طوطی کو باہر نکالتے ہیں، چونکہ ہمیں امید ہے کہ پاکستانی اخباروں کے دوسرے کالموں کا لفظ لفظ ازبر کرنے کے بعد اب اوباما اور مودی تھوڑے سے فارغ ہو چکے ہوں گے سب سے پہلے تو ہم اس اوباما سے کہنا چاہتے ہیںکہ

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا اوئے اوباما کیا

اب کے جو تم نے بھارت میں مودی کے ساتھ یہ ’’غٹر غوں‘‘ کیا ہے یہ بہت غلط کیا ہے آخر ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، تمہاری آنکھوں میں کیا طوطے کی آنکھیں فٹ ہیں کہ ہم سے پھیر لیں جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں، چلو ان کو جو دینا تھا وہ دے دیتے لیکن اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی، آخر کبھی ہم میں تم میں پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، سابق سہی عاشق تو ہم بھی ہیں تمہارے

یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں ایک دیدہ بے خواب تھا

سچ کہا ہے کہ کسی نے کہ پگلی کی منت پوری ہو گئی ہے اسے اپنا محبوب مل گیا ہے، یہ بہت بری بات ہے اور ہم اس پر سخت ناراض ہیں کہ

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

معاف کرنا اتنا بڑا تجربہ کار اور محبوب ہو کر بھی تم ذرا بھی ’’محبوبیت‘‘ نہیں جانتے، چلو گلے اس سے بے شک گلے ملتے اور خوب بھنیچ بھینچ کر بغل گیر ہوتے لیکن اس کا منہ تو دوسری طرف تھا اس کے کندھے کے اوپر سے ہمیں بھی ہلکی سی آنکھ مار دیتے تو تمہارا کچھ بھی نہ جاتا اور ہم دھنے ہو جاتے اور دعائیں دیتے کہ

چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
کھلتے رہیں ہونٹوں کے گلاب اور زیادہ

لیکن تم نے تو ہمیں دیکھا تک نہیں بلکہ یہ تک بھی یاد نہیں رہا کہ ایک تیرا نام لیوا ادھر بھی کوئی ہے اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی تمہارے اس ستم گرانہ سلوک پر ، مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری، ٹھیک ہے سب کچھ اس کو دیتے، دیدار، بغل گیری سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیتے لیکن تھوڑا سا ہمارا بھرم بھی رکھ لیتے تو کیا برا ہوتا

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

اور ایسا تم نے ہمیشہ کیا بھی ہے اب تک ایسا کون سا وعدہ ہے جو تم نے ہمارے ساتھ نبھایا ہو بلکہ ہم بھی اب عادی سے ہو گئے صرف وعدے پر بھی بہل جاتے ہیں بلکہ بہلتے رہتے ہیں تمہارا تو ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے وعدہ کرنا اور نہ نبھانا تو تیری عادت سی ہو گئی ہے بلکہ ہمارے ساتھ ہمیشہ جو بھی وعدہ کرتے ہو توڑنے ہی کے لیے کرتے ہو اور اسی وجہ سے ہم ابھی تک زندہ ہیں ورنہ

ترے وعدے پر جئے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیکن پتہ نہیں کیوں اس مرتبہ تم نے ہم پر جھوٹا وعدہ خرچ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا، آخر ہم سے ایسی کون سی بھول ہو گئی ہے حالانکہ ہم نے تو پہلے ہی دن سے اپنا سب کچھ تمہارے نام کر لیا تھا کہ سپردم بتو مایہ خویش را، تو دانی حساب کم و بیش را، ہم نے کیا کیا نہ تیرے عشق میں محبوب کیا، صبر ایوب کیا گریہ یعقوب کیا، ایسا لگتا ہے کہ اس کالے ہندوؤں کا کالا جادو تم پر چل گیا ہے شاید کالے کو کالا ہو گیا اور سب کچھ کالا کر دیا کیوں کہ کالے راکا لامی شناسد اور کالا کالے کو کھنیچتا ہے۔

ہم بہت ہی دکھی بہت ہی ناراض اور بہت ہی روٹھے ہوئے ہیں اور اس کا اندازہ تمہیں ہمارے کالم نگاروں کے کالموں سے بھی ہو گیا ہو گا، جو خالص تمہارے لیے لکھے گئے تھے کیوں کہ تم بڑے شوق سے پڑھتے ہو، لیکن زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں‘ ہم بڑے صادق عاشق ہیں اگر اب بھی تمہاری طرف سے اشارہ بھی ہو گیا تو کچے دھاگے سے چلے آئیں گے اور اگر اس دھاگے کے اس سرے پر ڈالر بھی بندہ ہوا ہو تو …

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔