میرا لہو لہان شہر

محمد سعید آرائیں  بدھ 4 فروری 2015

قیام پاکستان سے قبل جو سندھ کا پیرس کہلاتا تھا اور ایک ایسا مشہور شہر تھا جس کے رہنے والوں کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا اور وہ وہاں سے کما کر اپنے پرامن شہر میں آ کر چھٹیاں گزارتے تھے۔ افغانستان سے دنیا بھر میں جانے والے تجارتی قافلے یہاں قافلہ قلعہ میں رات گزار کر اپنا اگلا سفر شروع کرتے تھے۔ وہ تاریخی شہر جہاں کی محبت، رواداری اور امن و امان دنیا بھر میں مشہور تھا۔

قیام پاکستان سے قبل جو کلہوڑو کی ریاست تھی اور جو شہر اپنا سکہ رکھتا تھا جس کی ضلع حدود نواب شاہ اور دادو تک پھیلی ہوئی تھیں مگر بعد میں انگریز دور میں اپنی ضلع حیثیت سے محروم ہوا اور مزید ترقی کی بجائے تنزلی پر گامزن ہوا مگر قیام پاکستان کے وقت بھی کراچی، حیدرآباد کے مقابلے کا شہر تھا۔ زیر زمین نکاسی آب کا نظام کراچی میں تھا، معیاری تعلیمی ادارے کراچی اور حیدرآباد کے بعد یہاں تھے۔

سیاسی اہمیت یہ تھی کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ کا وزیر اعلیٰ اور قیام پاکستان کے بعد سندھ کا پہلا گورنر بھی اسی تاریخی شہر سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی مشہور شہر کو سال 2015ء کے پہلے ماہ کے آخری جمعے کو دہشت گردوں نے خون سے نہلا دیا اور میرا آبائی شہر شکار پور لہولہان کر دیا گیا اور شکار پور کی تاریخ کی پہلی دہشت گردی میں جو سب سے بڑی تھی تقریباً ساٹھ بے گناہ نمازی شہید، پچاس زخمی اور سیکڑوں متاثر ہوئے۔

25 سال قبل 1990ء میں لسانی قتل کی چند وارداتوں کے باعث جب بھی اپنا یہ شہر مجبوراً چھوڑنا پڑا تھا تب سے اب تک شکار پور میں لسانیت تو فروغ نہ پا سکی تھی مگر ایک عشرہ قبل فرقہ واریت کا جو زہر یہاں سرائیت کرنے لگا تھا یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس قدر پھیل کر شہر میں موجود پرانی امام بارگاہ جو لکھی در کربلا کے نام سے مشہور تھی تک پہنچ کر ایک شرمناک اور بھیانک تاریخ رقم کر دے گا۔

بچپن سے دیکھتا آیا تھا کہ شہر کی اس مرکزی امام بارگاہ کا بڑا مرکزی گیٹ ہمیشہ دن رات کھلا رہتا تھا۔ اس امام بارگاہ کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹی مسجد تھی جس کے نیچے کمرے میں محرم میں تعزیوں کے پھول بنا کرتے تھے اور دائیں ہاتھ سبیل تھی۔ دائیں ہاتھ ایک رہائشی تنگ گلی۔ سامنے بڑے کمروں میں تعزیے رکھے جاتے تھے جس کے قریب امام بارگاہ کے متولی کے گھر اور درمیان میں بڑا عَلم نصب تھا۔ بعد میں مرکزی گیٹ کے دائیں طرف ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

جس کی چھت سمیت مسجد میں چھ سو سے زائد نمازیوں کی گنجائش تھی اور دہشت گردوں نے اسی مسجد کو نشانہ بنایا جس کی چھت بھی تباہ ہو کر نیچے نمازیوں پر آ گری اور چھت تلے ملبے میں دبنے سے موقعے پر ہی چالیس نمازی شہید ہو گئے تھے اور شکار پور میں قیامت برپا کر دی گئی۔

شکار پور کو 1977ء میں سکھر سے علیحدہ کر کے نیا ضلع بنایا گیا تھا اور پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں شکار پور کو وزارتیں ملتی رہیں اور 1989ء میں سندھ کے وزیر اعلیٰ آفتاب میرانی کا تعلق شکار پور سے تھا۔ 2008ء کی سندھ حکومت میں شکار پور کے چار ارکان سندھ اسمبلی میں تین صوبائی وزیر تھے اور آج بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور قائد حزب اختلاف کا تعلق ضلع شکارپور سے اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور پی پی کے رکن قومی اسمبلی کا تعلق شکار پور شہر سے ہے۔

دہشت گردی نے شکارپور ضلع کا رخ دسمبر 2010ء میں کیا جس سے قبل فرقہ واریت کا یہاں تصور تک نہیں تھا۔ ضلع بھر میں شروع سے ہی مدارس تھے اور شہر میں مختلف علاقوں میں چھوٹی امام بارگاہیں تھیں جہاں سے محرم میں تعزیوں کے جلوس مخصوص ایام میں لکھیدر امام بارگاہ آتے تھے۔ عاشورہ کی شب بڑا اجتماع 9 محرم کی رات بھر یہیں ہوتا تھا اور عاشورہ کا مرکزی جلوس لکھی درکربلا سے ہی برآمد اور آخر میں یہیں آ کر ختم ہوتا تھا۔ میں نے 45 سالوں میں 20 برس شکار پور میں گزارے جہاں شیعہ سنی کا کبھی معمولی تنازعہ تک نہیں ہوا۔ دونوں بھائیوں کی طرح مل جل کر رہے۔

دس محرم تک ہوٹلوں میں گانے خود بند رکھے جاتے تھے۔ عاشورہ پر ضلع بھر سے لوگ عاشورہ کا جلوس دیکھنے شکار پور آتے جہاں سنیوں کی طرف انھیں کھانا کھلایا جاتا۔ عصر میں سارے تعزیہ جلوس ہاتھی در پر جمع ہو کر مقررہ وقت پر اپنے علاقوں میں چلے جاتے اور 11 محرم سے سب کچھ معمول پر آ جاتا۔ نہ مساجد میں اختلافی تقاریر ہوتیں نہ امام بارگاہوں میں سنیوں کے داخلے پر پابندی۔ سب مل کر عاشورہ احترام سے مناتے نہ کسی پر اعتراض ہوتا تھا نہ کبھی کوئی کشیدگی دیکھنے میں آئی مگر9 سال قبل میرے شہر کو بھی فرقہ پرستی کی نظر لگ گئی اور شبیر آباد سے تعلقہ خان پور میں مجلس عزا میں خودکش حملہ آور نے گھسنے کی کوشش کی اور گارڈ کی فائرنگ سے زخمی ہو کر اس نے خود کو اڑا لیا تھا جس سے 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

فرقہ پرستی کی دوسری واردات ماڑی شریف میں درگاہ غلام شاہ غازی پر ہوئی جہاں بم پھٹنے سے تین افراد جان سے گئے جس کے بعد سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی گاڑی پر خود کش حملہ ناکام ہوا اور دو افراد زخمی ہوئے یہ آخری دہشت گردی یکم مئی 2013ء الیکشن مہم کے دوران ہوئی اور ڈاکٹر ابراہیم محفوظ رہے اور ڈیڑھ سال کی خاموشی کے بعد جمعے کی نماز میں ہونے والی درندگی اور بربریت فرقہ پرستی کی شرمناک تاریخ بن گئی جس کا کسی نے تصور تک نہیں کیا تھا۔

اسی روز شکار پور جیسے پرامن ضلع کے 3 سال کے دوران دہشت گردی کی سب سے بڑی بلکہ اندرون سندھ امام بارگاہ پر خودکش بم حملے کا ایک شرمناک واقعہ ہوا جس کی ایک وجہ ضلع انتظامیہ کی نااہلی ہی قرار پائے گی کیونکہ دہشت گردی کے 3 چھوٹے واقعات کے بعد اگر موثر حفاظتی انتظامات ہوتے تو دہشت گرد کوامام بارگاہ میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ امام بارگاہ کے قریب گھنٹہ گھر پر لکھی در تھانہ ہے جس کا کوئی ایک سپاہی تک امام بارگاہ کے مرکزی گیٹ پر تعینات نہیں تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ وزیر اعظم کے جانے کے بعد رات ڈیڑھ بجے شکار پور 12 گھنٹے تاخیر سے پہنچے جب کہ وزیر اعظم نواز شریف تاجروں کے کھانے کے معیاری نہ ہونے کا شکوہ کر کے واپس لوٹ گئے اور انھوں نے شکار پور آنا گوارا نہیں کیا کیونکہ سندھ میں ان کی حمایتی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اس لیے انھوں نے اندرون سندھ کی سب سے بڑی دہشت گردی کو اہمیت دے کر پی پی کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وزیر اعظم کے آ جانے سے شاید متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا مگر آنا وزیر اعظم نے گوارا نہ کیا۔ اس دہشت گردی پر ملک بھر میں احتجاج اور دھرنے ہوئے، سوگ بھی ہوئے مگر انتظامی غفلت نے میرے پرامن شہر میں دہشت گردی کا جو داغ لگا دیا ہے اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔