معرکہ حق و باطل (حصہ اول)

صابر کربلائی  بدھ 4 فروری 2015

حق اور باطل کے درمیان معرکہ کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن ابلیس نے اللہ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سرکشی کی اور کہا کہ وہ کرہ ارض پر انسانوں کو اپنے بہکاوے میں لانے کا عمل کرتا رہے گا، آج بھی ابلیس اور اس کے چیلے پوری دنیا میں حق والوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں اور حق و باطل کے معرکے آج تک جاری ہیں جو تاقیامت جاری رہیں گے۔

نام نہاد ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آج دنیا بھر میں افراط و تفریط کا عالم ہے لیکن در اصل یہ تو وہ معرکہ ہے جو روز اول سے شروع ہوا ہے اور قیامت کے دن تک جاری رہے گا اور اس کا اختتام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق تو دنیا میں عدل کی حکمرانی سے ہونا ہے جس کے لیے دنیا کے تقریباً تمام مذاہب اور عقائد کسی نہ کسی زاویے سے ایمان رکھتے ہیں۔

بس چند ایک ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو زمانہ اسلام کے اوائل میں بھی موجود تھے اور ان کی نسلیں آج تک اپنے آباؤ اجداد کی پیروی دراصل جو شیطان کی پیروی ہے کرتی چلی آ رہی ہیں اور مسلم امہ کے اندر رخنہ اندازی کرنے میں مصروف عمل ہیں، افسوس تو اس وقت زیادہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشروں میں سے اٹھنے والے چند افراد جو ظاہراً تو باشعور ہیں لیکن در اصل پوری قوم اور امت کو اپنے غلط خیالات و افکار کے ذریعے بہکانا چاہتے ہیں۔

قرآن کریم جو آسمانی کتابوں میں آخری کتاب ہے، اس مقدس کتاب میں اللہ نے ابلیس کے پیروکاروں کو حزب شیطان کہا ہے جب کہ اللہ کی نصرت اور اللہ کے دین کی نصرت کرنے والوں کو حزب اللہ کا نام دیا گیا ہے، یعنی آسان الفاظ میں کہ ایک طرف شیطان کی جماعت ہے اور ایک طرف اللہ کی جماعت جو ابلیس اور اس موجودہ دور کے چیلوں سے نبرد آزما ہیں۔

آج تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کو دیکھا جائے تو بہت سے زاویوں پر گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن جو ایک اہم ترین نقطہ زیر بحث آنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ابلیس اور اس کے چیلوں دور حاضر کی استعماری واستکباری قوتوں جن میں سرفہرست عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل ہیں، ان کی ان تمام سازشوں سے باخبر رہنے اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ان کی طرف سے عالم اسلام اور بالخصوص دین مبین اسلام کے خلاف کی جا رہی ہیں۔ ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان ابلیسی قوتوں نے ماضی میں کئی جنگیں مسلط کی ہیں، لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے، اس حوالے سے ریڈ انڈینز سے لے کر ہیرو شیما، ویتنام، افغانستان، عراق، فلسطین، مصر، لبنان، شام، اردن اور افریقی مسلم ممالک کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔

فلسطین جو کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس ہے، جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، یہ وہی مسجد اقصیٰ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے سفر پر جاتے ہوئے پہلے اس مقام پر لایا گیا، یہ عالم اسلام کا تیسرا اہم ترین اور مقدس ترین مقام ہے، آج سرزمین فلسطین لہو لہو ہے، 1948ء سے آج تک لاکھوں فلسطینیوں کو امریکا اور اسرائیل نے موت کی آغوش میں سلایا ہے۔

سرزمین عراق کی صورتحال دیکھی جائے تو وہاں بھی امریکیوں نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے، افغانستان کی صورتحال سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح ان طاغوتی قوتوں نے معصوم انسانوں کا خون بہایا ہے۔ طاغوتی قوتوں کی جانب سے معصوم انسانوں کا قتل عام کیے جانے کی داستانیں تو بہت طویل ہیں لیکن جو اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ ان استعماری قوتوں کے مقابلے میں حق کے پیروکار جنھیں قرآن نے حزب اللہ کے نام سے پکارا ہے، ہمیشہ سر بلندو سربکف رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ان طاغوتی قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

تمام تر محاذوں پر شکست خوردہ ہونے کے بعد عالمی سامراجی قوتوں نے بالخصوص امریکا اور اسرائیل نے عالم اسلام اور اسلام پر نئے انداز سے حملہ کیا ہے یہ حملہ ماضی کے حملوں سے قدرے مختلف ہے، اس حملے کا مرکز و محور مسلمان ریاستوں کو قرار دیا گیا ہے اور بالخصوص ایسے مسلمان ممالک جو امریکا اور اس کے حواریوں سے نبرد آزما ہیں۔

ایک طرف ان اسلام دشمن قوتوں نے نت نئی دہشت گرد تنظیموں کو متعارف کروایا اور بعد میں انھی تنظیموں کو ختم کرنے کا بہانا بنا کر مسلمان ممالک پر فوجی حملوں کا آغاز کر دیا۔ ماضی میں القاعدہ، طالبان کا نام دیا گیا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالخصوص 2006ء میں جب نئے مشرق وسطیٰ کا امریکی و اسرائیلی منصوبہ اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کی 33 روزہ جنگ کے بعد بری طرح ناکام ہوا تو انسانیت و اسلام کے دشمنوں نے نئے انداز سے مشرق وسطیٰ پر حملے کیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی ان تنظیموں کو جنھیں امریکا مسلم ممالک پر یلغار کے لیے استعمال کیا کرتا تھا۔

ان کے نام اور ان کی قیادتوں کو بدلنے کا عمل شروع کر دیا، جس کی مثالیں اب دور حاضر میں داعش، جبہۃ النصرہ اور دیگر گروہوں کو متعارف کروایا گیا ہے جن کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں ممالک کے اندر عدم استحکام کے لیے دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دیں اور پھر امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک انسانی بفرزون قائم ہو سکے، اور یہ بفرزون برا ہ راست یا بالواسطہ اسرائیل کی بقاء اور تحفظ کا ضامن بنے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے چند ماہ قبل القاعدہ کے ایک بانی رکن نے عربی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے ان گروہوں کی امریکا اور اسرائیل سے مالی و مسلح معاونت کو آشکار کیا تھا۔

عالمی قوتوں نے اپنے ناپاک منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے2011ء میں پہلے شام کا انتخاب کیا، شام جو کہ اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک اہم ترین ملک ہے کہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکا اور اسرائیل کے خلاف معرکہ حق و باطل میں صف اول میں ہے، ہمیشہ سے فلسطینی مظلوموں کی مدد و نصرت کو اپنا اولین فریضہ سمجھ کر ادا کرتا آیا ہے، یعنی شام کو اگر اسلامی مزاحمت اور استکباری قوتوں کے دشمنوں کی شہ رگ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

امریکا اور اس کے حواریوں نے شام میں اپنے دہشت گرد گروہوں کی مدد سے پہلے دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر فوجی یلغار کا عندیہ دیا لیکن اس مرتبہ صورتحال قدرے مختلف رہی اور چار سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود حزب شیطان (امریکا، اسرائیل) اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی حاصل نہ کر سکے اور اس کی سب سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ شام کے پڑوسی ملک میں لبنان موجود ہے اور لبنان میں اللہ کا گروہ جسے قرآن میں بیان کیا گیا ہے، یعنی حزب اللہ لبنان، موجود ہے اور حزب اللہ نے شام کو غیر مستحکم کرنے والی تمام قوتوں اور تمام سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ شام حزب اللہ کی سرخ لائن ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔