1992میں بھی تو ایسا ہوا تھا

سلیم خالق  جمعرات 5 فروری 2015
skhaliq@express.com.pk

[email protected]

’’ماجد بھائی وہ دل کا بہت اچھا ہے‘‘

میں نے ایک دوست سے یہ بات کہی تو انھوں نے جواب دیا کہ’’اب میں اس کے دل میں داخل ہو کر تو نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کیسا ہے،ہمیں تو جو باہر سے جیسا نظر آئے ویسا ہی لگے گا‘‘

یہ بات برسوں سے میرے ذہن میں نقش ہے، واقعی یہ حقیقت ہے کہ کوئی انسان اندر سے جتنا بھی اچھا ہو لیکن اگر غصے کا تیز یا کسی اور خامی میں مبتلا ہو تو اس کے بارے میں اچھی رائے سامنے نہیں آتی، جو نظر آئے وہی تاثر بنتا ہے۔

کرکٹ میں بھی ایسا ہی ہے،آپ ماضی میں جائیں تو منصور اختر اور ساجد علی سمیت سیکڑوں ایسے کھلاڑی ملیں گے جو قدرتی ٹیلنٹ سے مالامال تھے، ہر ڈومیسٹک سیزن میں رنز کے ڈھیر لگا دیتے، مگر پھر پاکستانی ٹیم میں موقع ملتا تو ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی ’’ہیروز‘‘ ہیں،ان میں جان ہی نظر نہ آتی، اسی طرح بولنگ میں بھی کئی ڈومیسٹک ایونٹس کے اسٹارز انٹرنیشنل کرکٹ کا  دباؤ نہیں جھیل پائے اور گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے، پہلے تو ایک آدھ ہی ایسا کھلاڑی نظر آیا کرتا تھا مگر اب ٹیم میں ان کی بھرمار ہے،اس کی واضح مثال بلاول بھٹی ہیں، انھیں بیحد باصلاحیت پیسر قرار دیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ان کا ٹیلنٹ صرف وقار اور مصباح کو ہی نظر آتا ہے۔

بلاول ٹی 20کے ایک اوور میں 30رنز دے چکے، اب انھوں نے ون ڈے میں93رنز کی پٹائی کا ریکارڈ بھی بنا دیا، سیریز میں واحد وکٹ 144کی اوسط سے ملی،اس طرزکے10میچز میں73 سے زائد کی ایوریج سے انھوں نے 6 وکٹیں لی ہیں، نجانے کب ان کا چھپا ہوا جوہر سامنے آئے گا،اسی طرح احسان عادل نے ایک وکٹ کیلیے 112 رنز دیے، یہ ہمارا پیس اٹیک ہے،حالیہ عرصے میں سوائے محمد عرفان کے فاسٹ بولنگ میں جو بھی آیا نام نہ کما سکا، اب تو اس شعبے کا جو حال ہو چکا وہ سب کے سامنے ہے، طویل عرصے سے کسی نے ون ڈے میں5 وکٹیں حاصل نہیں کیں۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ بولرز ہمیں جتواتے ہیں مگر اب ایسا نہیں رہا،غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل پیسرزویسے ہی موجود نہیں، گنتی کے اچھے بولرز بھی کبھی ہاتھ تو کبھی پاؤں پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، فٹنس مسائل نے عمرگل کو کہیں کا نہ چھوڑا، جنید خان فٹ ہو کر آئے اور پھر بغیر کوئی انٹرنیشنل میچ کھیلے دوبارہ انجرڈ ہو گئے،سارے نازک مزاج ہمارے ہی حصے میں آئے ہیں،اسپنرز میں سعید اجمل اور محمد حفیظ (بولنگ) پر پابندی عائد ہے، اب یہ حال ہو گیا کہ نیوزی لینڈ نے ہمارے خلاف 369 رنز بنا دیے، ایسے میں ورلڈکپ جیتنے کا سوچنا دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے،کیویز کے دیس میں ٹیم 2 وارم اپ سمیت اپنے چاروں میچز ہار گئی۔

اب میگا ایونٹ میں کیا ہوگا ہر کوئی یہی سوچ رہا ہے، مگر جن لوگوں کو یہ سوچنے کیلیے بھاری رقوم ملتی ہیں انھوں نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی، بورڈ اسی بات پر خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے کہ عامر کو 6ماہ قبل ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دلا دی، اسے خود ٹیم سے کوئی امید ہی نہیں اس لیے ابتدا ہی سے سب ذہنی طور پر قوم کو تیار کر رہے ہیں، چیئرمین شہریارخان واضح الفاظ میں کہہ چکے کہ موجودہ اسکواڈ اتنا مضبوط نہیں ہے، وقاریونس ٹیم کو فیورٹس میں ہی نہیں سمجھتے، ایسے میں شائقین یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ بھائی پھر اتنی دور جانے کی ضرورت ہی کیا تھی، ایسی منفی باتیں تو بنگلہ دیش، زمبابوے اور یو اے ای نے بھی نہیں کیں۔

اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھلاڑی بھی بغیر لڑے ہتھیار ڈالنے لگے، ہم سے اچھا پیس اٹیک تو اس وقت بنگلہ دیش کا ہو گا، اسپن میں قوت بھی ختم ہو گئی، سرفراز وکٹ کیپنگ میں غلطیاں تو پہلے سے کر رہے تھے اب تو حد ہی ہو گئی، دوسرے میچ میں انھوں نے 2 اسٹمپڈ ضائع کیے،دبئی و شارجہ سے باہر نکلتے ہی وہ بیٹنگ بھی بھول گئے، یونس خان لڑ جھگڑ کر ٹیم میں آئے تو اب ان سے ون ڈے کا دباؤ جھیلا ہی نہیں جا رہا، بلاول بھٹی کو مصباح اور وقار سلیکشن کمیٹی سے بات منوا کر ٹیم میں لائے مگر اب لگتا ہے کہ وہ ورلڈکپ سے قبل ہی واپسی پر مجبور ہو جائیں گے۔

ایسے میں سہیل تنویر کی لاٹری کھل سکتی ہے جو برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے باوجود کچھ نہیں کرسکے، اس سے آپ ملک میں دستیاب یا موقع پانے والے ٹیلنٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور روزانہ تقریباً35 ہزار روپے الاؤنس پاکر نیوزی لینڈ کی ’’پیڈ ہالی ڈیز‘‘ سے لطف اندوز ہونے والے چیف سلیکٹر معین خان سے ذرا یہ پوچھنا چاہیے کہ سہیل خان کو انھوں نے پہلے 30ابتدائی پلیئرز میں نہ رکھا، پھر اچانک ان کے ٹیلنٹ سے کیسے واقف ہوئے اور 15میں لے آئے، مگر اب کیویزسے دونوں ون ڈے میں نہیں کھلایا۔

بلاول اسکواڈ میں نہیں مگر دونوں میچز کھیل گئے اور جو کھلاڑی ورلڈکپ پلیئرز میں شامل ہے وہ باہر بیٹھا رہا،اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملکی کرکٹ میں کیا ہو رہا ہے، کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹرز سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بورڈ حکام چین کی بانسریاں بجا رہے ہیں، گورننگ بورڈ ارکان اپنے دوروں کی منظوری کے بعد آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کی سیر کے سہانے خواب دیکھنے میں مصروف ہیں، رہی بیچاری قوم وہ خود کو یہی جھوٹی تسلیاں دے کر اطمینان دلاتی رہے گی کہ ’’1992میں بھی ایسا ہوا تھا مگر پھر ہم ورلڈکپ جیت گئے تھے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔